موازنہ
اب حضرت
ابو بکر کے کلام اور حضرت علی ؑ کے کلام کا موازنہ کیجئے:
حضرت ابو
بکر ۔۔۔ اس مقام خلافت پر میں اس لئے نہیں لا یا گیا کہ تم سے بہتر ہوں۔
حضرت عـلـیؑ۔۔۔ نَحْنُ اَحَقُّ بِھٰذَا
الْاَمْرِہم اس امر خلافت کے تم سب سے زیادہ حقدار ہیں اور تم غاصب ہو۔
حضرت ابو
بکر ۔۔ میں تم جیسا عام انسان ہوں اگر مجھ سے بھول چوک ہو جائے تو مجھے سیدھا کر
دینا (میری رہبری کرنا)
حضرت عـلـیؑ۔۔ ہم اہل بیت رسول۔۔۔ قرآن کے قاری
ہم۔۔۔ دین خدا کے فقیہ ہم۔۔۔ اور سنت رسولؐ کے عالم ہیں۔
حضرت ابو
بکر۔۔ اِنَّ لِیْ شَیْطَانًا یَعْتَرِیْنِیْ میرے ساتھ ایک شیطان ہے جو مجھے
راہِ حق سے بھٹکا تا ہے (مجھ پر اسکا غلبہ ہے)
حضرت عـلـیؑ۔۔۔ ہمارا ساتھ چھوڑنے سے گمراہی ہو گی
اور راہِ حق سے دُوری نصیب ہو گی۔
حضرت ابو
بکر۔۔۔ قرآن کے علم میں سے ۲۲/۱ فیصدی
ترجمہ ہم جانتے ہیں (جہاں تک سیوطی کی دسترس ہے) اور دو آیتوں کے متعلق تو انہوں
نے خود بھی صاف کہہ دیا اگر میں اپنی طرف سے کوئی بات کہہ دوں توممکن ہے منشأ
ایزدی کے خلاف ہو اور زمین اور آسمان کے درمیان بسنے کے قابل نہ ہوں اور ایک آیت
کا ترجمہ اپنی رائے سے کیا بھی تو حضرت عمر نے غلطی کا اس میں احساس کیا ۔۔۔گو
توہین سمجھتے ہوئے تردید نہ کر سکے!!
حضرت عـلـیؑ۔۔۔ تمام علم قرآن کو جانتے ہیں،
چنانچہ اس فصل کے تمہیدی بیان ص۱۸۷پر
ملاحظہ ہوں، نیز بفرمانِ رسول عَلِیٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِیّ
ص۱۵۵ پر ملاحظہ ہو، اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن حدیث
نبوی پوری تفصیل سے گزر چکی ہے عَلِیٌّ
وِعَائُ عِلْمِیْ علی ؑ میرے علم کا ظرف ہے، ’’ کفایۃ الکنجی‘‘ و’’ شمس الاخبار‘‘
سے پیش کی جاچکی ہے اَنَا مَدِیْنَۃُ
الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا حدیث مشہور ص۱۰۳
پر ملاحظہ ہو۔
حضرت ابو
بکر۔۔۔ بقول ابو عبیدہ بن جراح صرف سن رسیدگی کی وجہ سے خلیفہ بنایا گیا، اس کے
علاوہ کسی ملکہ فاضلہ میں اس کو امتیاز نہ تھا۔
حضرت عـلـیؑ۔۔۔ بقول ابو عبیدہ بن جراح فضل۔۔
علم۔۔ فہم دین۔۔ قرابت رسولؐ ۔۔سبقت فی الاسلام۔۔ اور دامادی پیغمبر سب کمالات سے
ممتاز تھے، نوجوان کہہ کر ان کو ہٹا دیا گیا اور حضرت علی ؑ کے فرمان کے مطابق صرف
خواہشاتِ نفسانیہ کی وجہ سے ان کو پیچھے کیا گیا۔
حضرت ابو
بکر۔۔۔ ابن قتیبہ کی آخری عبارت کے پیش نظر جناب رسالتمآب ؐ کے کفن و دفن میں
شریک نہ ہوئے اور جلدی سے خلافت کے معاملہ میںپڑ گئے۔۔۔۔۔ ورنہ بشیر بن سعد
انصاری کی بات سے معلوم ہوتا ہے اگر رسولؐ کے دفن و کفن میں شرکت کرتے اور حضرت
علی ؑ کا احتجاج پہلے پیش ہو جاتا تو یقینا خلافت ان کو نصیب نہ ہو سکتی۔
حضرت عـلـیؑ۔۔۔ بمطابق قول ابن قتیبہ جناب رسالتمآبؐ
کی تجہیز و تکفین و تدفین میں مصروف رہے اور ان کی جزا و سزا کو اللہ تعالیٰ کے
سپرد کر دیا اور بعد میں بطورِ اتمامِ حجت ان پر احتجاج فرماتے رہے۔
حضرت علی ؑ کی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور ابو
عبیدہ بن جراح کے ساتھ باہمی گفتگو سے انعقادِ خلافت کی صورتِ حال بھی معلوم ہو
گئی۔۔۔ جب عمر نے حضرت علی ؑ جیسی شخصیت سے ان الفاظ میں بیعت کا مطالبہ کیا:
(اِنَّکَ لَسْتَ مَتْرُوْکًا حَتّٰی تُبَایِع) آپ
کو چھوڑا نہ جائے گا جب تک بیعت نہ کرو گے، اور کتاب ’’الامامۃ والسیاسۃ‘‘ کے ص۱۳
پر ہے فَقَالَ اِنْ اَنَا لَمْ اَفْعَلْ فَمہ؟ حضرت علی ؑ نے فرمایا اگر میں بیعت
نہ کروں تو تم کیا کرو گے؟ (قَالُوْا اِذًا وَاللّٰہِ الَّذِیْ لا اِلٰہَ اِلَّا
ھُوَ نَضْرِبُ عُنُقِک) انہوں نے کہا خدائے و حدہٗ لا شریک کی قسم تم کو قتل کردیں
گے، خیر یہ تو حضرت علی ؑ ہی تھے کر فرما دیا وَ اللّٰہِ یَا عُمَر لا
اَقْبَلُ قَوْلَکَ وَلا اُبَایِعُہٗ اے
عمر تیری یہ بات نہ مانوں گا اور بیعت نہ کروں گا، اسلامی جمہوری راج اسی دھکّم
دھکّا کا نام ہے۔
حضرت علی ؑکے علاوہ باقی لوگوں سے جو انداز برتا
گیا ہو گا وہ صاف ظاہر ہے؟!
نیز انصار سے جس اشتباہ کے ما تحت بیعت لی گئی وہ
حضرت علی ؑکے سابق بیان اور بشیر بن سعد انصاری کے کلام سے صاف واضح ہے۔۔۔ اس سے
اگلی فصل میں انشاء اللہ اس پر قدرے مزید عرض کروں گا۔
عقیدت مند تو کہنے کو تیار ہو جائیں گے کہ حضرت
ابو بکر نے اپنے متعلق جن خیالات کا اظہار فرمایا وہ سب کسرِ نفسی اور انکساری پر
مبنی ہیں کیونکہ اپنی خوش اعتمادی سے ان کو عالم کہہ جو دیا ہے تو اب ان کو عالم
ماننا ہے (خواہ وہ عالم ہوں یا نہ ہوں)
پیراں نمی پرند مریداں می پرانند پیر نہیں
اُڑتے مرید بزوری ان کو اڑاتے ہیں، وہ اپنے متعلق جن خیالات کا اظہار فرما رہے تھے
وہ یقینا مبنی بر صداقت ہیں، انہیں اپنی علمی بے مائیگی کا احساس تھا اور یہی وجہ
ہے کہ مرنے سے پہلے بھی انہوں نے اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا، چنانچہ’’ الا
مامۃ والسیاسۃ ص۱۸‘‘ پر ملاحظہ ہو مرنے سے قبل فرماتے ہیں:
٭
وَاللّٰہِ مَا آسی اِلَّا عَلٰی ثَلاثٍ فَعَلْتُھُنّ لَیْتَنِیْ کُنْتُ
تَرَکْتُھُنَّ وَثَلاثٌ تَرَکْتُھُنَّ لَیْتَنِیْ فَعَلْتُھُنَّ وَثَلاثٍ
لَیْتَنِیْ سَألْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ مِنْھُمْ فَأمَّا الَّتِیْ
فَعَلْتُھُنَّ وَلَیْتَنِیْ لَمْ اَفْعَلْھُنَّ فَلَیْتَنِیْ تَرَکْتُ بَیْتَ
عَلِیّ وَاِنْ کَانَ اَعْلَنّ عَلَیَّ بِالْحَرْبِ وَلَیْتَنِیْ یَوْمَ سَقِیْفَۃِ
بَنِیْ سَاعِدَۃِ کُنْتُ ضَرَبْتُ عَلٰی یَدِ اَحَدِ الرَّجُلَیْنِ اَبِیْ
عُبَیْدَۃَ اَوْعُمَر فَکَانَ ھُوَ الْاَمِیْر وَکُنْتُ اَنَا الْوَزِیْر
(اِلٰی اَنْ قَالَ ) فَلَیْتَنِیْ سَألْتُہٗ لِمَنْ ھٰذَا الْاَمْرُ مِنْ
بَعْدِہٖ؟ فَلا یُنَازِعُہُ فِیْہِ اَحَدٌ وَلَیْتَنِیْ کُنْتُ سَألْتُہُ ھَلِ
لِلْاَنْصَارِ فِیْھَا حَقٌ وَلَیْتَنِیْ کُنْتُ سَألْتُہُ عَنْ مِیْرَاثِ بِنْتِ
الْاَخّ وَالْعَمّۃِ فَاِنَّ فِیْ نَفْسِیْ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا۔
ترجمہ: خدا کی قسم مجھے تین کا موں کے کر نے پر
افسوس ہے کا ش نہ کئے ہوتے۔۔۔ اور تین کامو ں کے نہ کر نے کا افسوس ہے کا ش وہ کئے
ہو تے۔۔۔اور تین کاموں کے متعلق کا ش جناب رسولِ خدا سے پو چھ لیا ہو تا، پس وہ
تین کا م جوکئے اور کاش وہ نہ کئے ہو تے۔۔۔ کاش علی ؑ کے گھر کی بے ادبی نہ کی ہو
تی اگر چہ وہ کھلم کھلا میرے خلا ف ہی ہو تے! (اس کے متعلق چند صفحات بعد بیان کیا
جائے گا) کاش سقیفہ بنی ساعدہ کے دن میں نے ابو عبید ہ یا عمر میں سے ایک کی
بیعت کر لی ہو تی پس وہ امیر ہو تا اور میں اس کا وزیر ہو تا۔۔۔ اس کے بعد بیا ن
کو جا ری رکھتے ہوئے آخری تین چیزں کے متعلق فر ما یا کا ش میں نے دریا فت کیا ہو
تا کہ ان کے بعد خلا فت کا کو ن حق دار ہے؟ تا کہ کو ئی جھگڑا نہ کر تا۔۔۔ کا ش
پوچھ لیا ہو تا کہ آیا انصار کا بھی اس میں حق ہے؟ اور کا ش کہ بھتیجی اور پھوپھی
کی میراث کے با رے میں بھی دریا فت کر لیا ہو تا کیو نکہ میر ے دل میں اس مسئلہ کے
متعلق کچھ شک سا ہے۔
تقر یر میں انہو ں نے متعد داُمور پر اظہا رِ
افسوس کیا جس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:
٭
بیعت حاصل کر نے کے لیے انہو ں نے علی ؑ کے گھر کی بے ادبی کی! اس کی تفصیل
آگے آجائے گی۔
٭ حضرت
علی ؑ سے اچھی خا صی کشید گی رہی ( اَعْلَن عَلٰی الْحَرْبِ) کا صا ف یہی مطلب ہے۔
٭
اپنے آپ کو خلا فت کے نا موزوں قرار دینے کے باوجود اڑھا ئی سال پر ڈٹے رہنے پر
افسوس کا اظہار فرمارہے تھے۔۔۔ کاش اس دن عمر یا ابوعبید میں سے کسی کی بیعت کر لی
ہوتی اور خود اس مسند پر نہ بیٹھتا!
٭
دل میں یقین تھا کہ میرا خلیفہ ہونا مر ضی ٔ رسو ل کے خلاف تھا، لہذا اب افسوس کر
رہے ہیں کہ کاش دریافت کر لیا ہوتا!
٭
انصار کی حق تلفی کا احساس رہا، اگر اپنی خلا فت کے برحق ہو نے کا یقین ہو تا تو
تو انصا رکی حق تلفی کا احساس فضول تھا!
٭ مسائل
میر اث میں لاعلمی کا اظہار۔۔۔ البتہ مسائل میراث میں سے حق فاطمہ ؑ کو ضبط کر نے
کے لیے ایک فر ضی حدیث (نبیو ں کا کوئی وارث نہیں ہو تا) بنا لی جو کہ صریح حکم
قرآنی کے خلا ف تھی، اس کے علاوہ باقی میراث کے مسائل سے بے خبر تھے، حتی کہ
کلالہ کے لفظی معنی بھی ان کو تو نہ آتے تھے جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔
اب ذرا پیر ومرید کے نظریاتی اختلاف کا جائزہ
لیجیے:
۱۔۔۔
پیر کہتا ہے مسا ئل میں بالکل میراث میں بالکل بے خبر ہوں حتی کہ بعض الفاظ
کے معانی بھی نہیں جانتا، لیکن مرید کہتا ہے نہیں جی وہ تو بڑے عالم تھے!
۲۔۔۔
وہ کہتے ہیں کہ قر آنی آیات کے معانی معلوم نہیں اگر اپنی طرف سے
تفسیربالرائے کربھی دوںاور منشائے ایزدی کیخلاف ہو تو سمجھ لینا کہ وہ میر ی اور
شیطان کی طرف سے ہے اور یہ کہتے ہیں نہیں جی وہ مشہور مفسرقرآن تھے!
۳۔۔۔
وہ کہتے ہیں کہ میں خلافت کے اہل نہیں ہو ں اور یہ کہتے ہیں کہ وہ بجا طور
پر خلیفہ ٔ رسول تھے!
۴۔۔۔
وہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ ایک شیطان ہے جو مجھے راہِ حق سے بھٹکاتارہتا ہے
اور یہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ بڑے نیک تھے!
۵۔۔۔
وہ کہتے ہیں ہماری علی ؑ سے دشمنی رہی اور ان کے گھر کی بے ادبی بھی ہم نے
کی ہے اور یہ کہتے ہیں وہ تو آپس میں شیرو شکر تھے!
٭ اِذْ
تَبَرَّأ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَأوُا
الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا
لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّأ مِنْھُمْ کَمَا تَبَرَّأوْا مِنَّا
کَذَالِکَ یُرِیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْھِمْ وَمَا ھُمْ
بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۔(پارہ۲قرآن
مجید)
ترجمہ: یاد کرو جب برأت اور بیزاری کریں گے وہ
لوگ جن کی (ناحق ) اتباع کی گئی ان لوگوں سے جنہوں نے ان کی (ناحق) اتباع کی۔۔۔
اورعذاب کو دیکھ لیں گے اور ان کے باہمی تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔۔۔ اور جن لوگوں
نے دنیا میں ان کی اتباع کی تھی وہ کہیں گے کہ اے کاش ہمارے لئے (دنیا میں ایک
دفعہ) پلٹناہوتا تو ہم ان سے ایسے بیزار ہو تے جس طرح وہ اب ہم سے بیزار ہو چکے ہیں۔۔۔
اسی طرح خدا ان کو اپنے اعمال دکھائے گا جو ان کے لیے باعث حسرت ہوں گے اور وہ
دوزخ سے نہ نکلنے پائیں گے۔