التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

قرآن اور مسئلہ تقلید



یہاں تک تو یہ ثابت کر دیا جا چکا ہے کہ قرآن کے ساتھ ایک عالمِ قرآن کا وجود ضروری ہے جو تعلیماتِ اسلامیہ سے روشناس کراسکے اور یہی سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔
جناب رسالتمآبؐ اپنے زمانہ میں مرجع علومِ قرآنیہ تھے اور خود ہی بہ نفس نفیس مسائل قرآنیہ کے حل کرنے کے کفیل تھے۔۔۔ لیکن خود چونکہ ایک ہی مقام پر قیام فرماتھے لہذا اطراف و نواح میں صحابہ کرام بفرمانِ سرکارِ رسالتمآبؐ فرائضِ تبلیغِ احکام پر مامور ہوا کرتے تھے، جس حد تک وہ خود علم رکھتے تھے ان کے مسائل حل کر دیا کرتے اور جو نہ جانتے تھے جناب رسالتمآب کی خدمت میں مشرف ہو کر سیکھ لیا کرتے تھے اور پھر جا کر دوسروں کو سکھادیا کرتے، گویا وہ لوگ اطراف و نواح میں حضوؐر کے زمانہ میں نیابت کے فرائض اپنے مخصوص علاقہ تک انجام دینے پر مأمور تھے۔
اسی طرح جناب امیرالمومنین علیہ السلام اپنے دور ِحکومت میں چونکہ عالمِ قرآن تھے لہذا علوم قرآنیہ کا مرجع وہی تھے، لیکن وہ خود بنفس نفیس ایک مقام پر مثلا ً کوفہ میں تشریف فرما تھے اور اطرافِ مملکت میں ان کے نائبین فرائضِ تبلیغ و نظامِ ملکی انجام دیا کرتے تھے مثلاً بصرہ میں عبداللہ بن عباس۔۔۔ مصر میں محمد بن ابی بکر۔۔۔ مدائن میں سلمان فارسی، اور مدینہ میں قثم بن عباس وغیرہ اور ان سب کے اُوپر حضرت علی ؑ خود نگرانِ اعلیٰ تھے اور یہ سب نائبین مسائلِ مشکلہ میں آنحضرت ؑ کی طرف بذریعہ ملاقات یا بطریق مکاتبت رجوع کر لیا کرتے تھے۔۔۔ یہ لوگ نیابتِ خاصہ کے حامل تھے۔
 ان ہر دو مقامات پر تو سلطنت ظاہریہ و باطنیہ ہر دو یکجا تھیں۔۔۔ معاملاتِ دنیاویہ اور مسائلِ دینیہ ہر دو کا حل نبی یا امام یا ان دو کے نائبین کے ہاتھ میں تھا اور حضرت امام حسن علیہ السلام کا ابتدائی چھ ماہ کا زمانہ بھی اسی طرح کا تھا، لیکن جناب رسالتمآبؐ کے بعد سے لے کر حضرت علی ؑ کی خلافت ِظاہریہ کے دَور تک اور حضرت امام حسن ؑ کی صلح سے لے کر حضرت امام حسن عسکری ؑ کے زمانہ تک آئمہ اہل بیت ؑ کے پاس حکومت ِظاہریہ نہیں تھی لہذا اس مدت میں حضرات آئمہ طاہرین علیہم السلام اپنے شیعوں کے لئے صرف مسائلِ دینیہ کا مرجع تھے، اطرافِ عالم سے شیعہ لوگ ان کی خدماتِ عالیہ میں پہنچ کر ان سے احکامِ قرآنیہ۔۔۔ مسائلِ شرعیہ کا درس حاصل کرتے اور ان پر عامل ہوتے تھے۔۔۔ اور جو لوگ خدمت آئمہ میں شرف یابی حاصل نہ کر سکتے وہ اپنے مقامی علمائے شیعہ سے جو آئمہ طاہرین ؑ سے پڑھ کر گئے ہوئے ہوتے تھے اپنے مسائل دینیہ سیکھ لیا کرتے تھے۔
چنانچہ کتب رجال میں بہت سے اصحابِ آئمہ کا ذکر ہے جو آئمہ کی اجازت سے دُور دراز کے شیعوں کے لئے مرجعِ مسائلِ دینیہ قرار دیئے گئے، جس طرح کہ جناب رسالتمآب کی سلطنت اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے دورِ حکومت میں ان کے نائبین مرجعیت رکھتے تھے، متعدد اصحابِ آئمہ جن کو شرفِ مرجعیت حاصل تھا وہ زمانِ حضورِ آئمہ میں مسائلِ دینیہ حل فرمایا کرتے تھے:
 زرارۃ:  حضرت امام جعفر صادقؑ کا شاگردِ خاص تھا۔۔۔ آپ ؑ نے ایک شخص کو ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جب تم کو ہماری حدیث کی ضرورت ہو تو زرارۃ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اس بیٹھنے والے کی طرف رجوع کر لیا کرو، ایک اور مقام پر آپ ؑ نے ارشاد فرمایا کہ اگر زرارۃ نہ ہوتا تو ہماری احادیث کُہنہ ہو جاتیں۔
محمد بن مسلم:   ابن ابی یعفور سے منقول ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا  اے مولا  میں ہر دفعہ آپ ؑ کی خدمت میں حاضر ہونے سے قاصر ہوں اور لوگ مجھ سے مسائلِ دینیہ کا سوال کرتے ہیں تو چونکہ ہمیں بعض مسائل میں علم نہیں ہوتا لہذا ایسے مقامات پر کیا کرنا چاہیے؟ تو آپ ؑ نے فرمایا:  فَمَا یَمْنَعُکَ عَنِ الثَّقَفِیْ یَعْنِیْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ فَاِنَّہُ سَمِعَ مِنْ اَبِیْ اَحَادِیْثٌ وَکانَ عِنْدَہُ وَجِیْھًا  تجھے ثقفی سے کیا مانع ہے (محمد بن مسلم ثقفی) پس تحقیق اس نے میرے باپ سے کافی احادیث سنی ہیں اور یہ ان کا خاص طور پر منظورِ نظر تھا اس سے مسائل دریافت کر لیا کرو۔
ابان بن تغلب:   چنانچہ مسلمہ بن ابی حبیبہ سے روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادقؑ نے مجھے ابان بن تغلب کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا۔
ابو بصیر:  شعیب عقرقوتی سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادقؑ سے عرض کیا کہ حضور ہمیں مسائلِ دینیہ دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے متعلق آپ ؑ کا ارشاد ہو ہم اس کی طرف رجوع کر لیا کریں؟ تو آپ ؑ نے فرمایا:  عَلَیْکَ بِالْاَسَدِیْ یَعْنِی اَبَابَصِیْر (ابوبصیر اسدی سے دریافت کر لیا کرو)
زکریا بن آدم:   علی بن مسیب ہمدانی روایت کرتا ہے کہ میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا وطن دور ہے اور ہر وقت خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر (مسائلِ دینیہ) دریافت نہیں کر سکتا فرمائیے ہم کیا کریں؟ آپ ؑ نے ارشاد فرمایا کہ زکریا بن آدم قمی جو کہ دین و دنیا میں امین ہے اس سے دریافت کر لیا کرو۔
یونس بن عبد الرحمن:  عبدالعزیز بن مہدی نے عرض کیا کہ ہر وقت (بوجہ دُوری ٔ مسافت کے) آپ ؑ سے مسائلِ دینیہ کا حل حاصل کرنے سے قاصر ہوں۔۔۔ کیا یونس بن عبدالرحمن موثق ہے؟ اس سے مسائل کا حل پوچھ لیا کروں؟ تو آپ ؑ نے فرمایا کہ ہاں یہ لوگ جو احادیث آئمہ کی ترویج اور عوامِ شیعہ کی مشکلات۔۔۔ مسائلِ دینیہ میں رہبری کے فرائض انجام دیتے تھے ان پر آئمہ طاہرین کو پورا وثوق تھا۔
حتی کہ امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ یزید بن معاویہ عجلی، ابوبصیر لیث بن بختری، محمد بن مسلم اور زرارۃ یہ چار اللہ تعالیٰ کے نجبا  ٔ (برگزیدگان) اور اُمنا ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو آثارِ نبوت کُہنہ ہو جاتے، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا جس طرح ان چار شخصیات نے ہمارے ذکر اور احادیث کو زندہ کیا اس طرح کسی اور نے نہیں کیا۔
اسی طرح زمانِ غیبت صغریٰ میں نوابِ اربعہ حضرت حجت عجل اللہ فرجہ کی طرف سے خصوصی عہدہ دار نیابت تھے:
 (۱) عثمان بن سعید  (۲) محمد بن عثمان بن سعید  (۳) ابوالقاسم حسین بن روح  (۴) علی بن محمد سمری
یہ بزرگوار جن کا ذکر کیا جا چکا ہے ان کا حضرات آئمہ طاہرین علیہم السلام سے ربطِ ظاہری قائم تھا اور یہ اُن کی جانب سے تبلیغِ مسائلِ دینیہ و احکامِ قرآنیہ میں نائب خاص تھے۔
لیکن عہدۂ نیابت صرف انہی پر منحصر نہیں تھا بلکہ زمانِ آئمہ میں اطرافِ ممالک کے شیعہ لوگ اپنے ہاں کے علمائے شیعہ اور راویانِ احادیثِ آئمہ کی طرف مسائلِ دینیہ میں رجوع کرنے پر مامور تھے، فرق صرف یہ تھا کہ جو لوگ آئمہ کی خدمت میں پہنچ کر مشرفِ زیارت ہو سکے انہوں نے از راہِ اطمینان دریافت کر لیا کہ مسائلِ دینیہ اور امورِ شرعیہ میں جب کہ ہم آپ ؑ سے بہت دور ہیں کیا کریں؟ تو معصوم ؑ نے ایک عالمِ راوی ٔحدیث کا نام لیا جو ان کے قریب ترین تھا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت صادقِ آل محمد ؑ نے مختلف سائلین کے جواب میں علیحدہ علیحدہ مراجع کا نام لیا اگرسب کے لیے ایک مر جع کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے تو جس مشکل اور دشواری کی وہ شکایت پیش کر رہے تھے اس کا ازالہ قطعاً نہ ہو سکتا اوراس سے دُوردرازوالوں کے لیے پھر انہی مشکلات کا سامناہوتا اوریہ چیز قابل برداشت ہو تی تو کسی اور کو مرجع بنانے کی ضرورت ہی نہ ہو تی بلکہ ہر ایک پر خود امام کی خد مت میں پہنچنا اور ان سے ہی دریافت کر نا ضروری ہو تا پس معلوم ہوا کہ شیعوں کی سہولت و آرام کے لیے اور تعلیمات قرآنیہ کو عام کرنے کے لیے ہر شہر کے عالم اورراویٔ حدیث کو اس شہر کے شیعو ں کا مفتی نامزد فرمایا ہرعلاقہ کے عالم وراویٔ حدیث کو اس علاقہ والوں کا مرجع قرار دیا۔
٭      عَنِ الْکَشّیْ عَنْ اَبِی الْحَسَنِ الثَّالِثِ فِیْمَا کَتَبَہُ جَوَابًا عَنِ السّوَالِ عَنْ مَنْ یَعْتَمِد عَلَیْہِ  فِی الدِّیْنِ اِعْتَمِدَا فِیْ دِیْنِکُمَا عَلٰی کُلّ مُسِنٍّ فِیْ حُبّنَا وَکُلّ کَثِیْرِ الْقدمِ فِیْ اَمْرِنَا۔
ترجمہ: رجال کشی سے حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے مروی ہے کہ دو آدمیو ں نے آپ ؑ کی خد مت میں خط لکھا کہ مسائلِ دینیہ میں ہم کس پر اعتماد کریں؟ تو آپ ؑ نے جواب تحریر فرمایاکہ تم اپنے دینی معاملات میں ہر اس شخص کی طرف رجوع کرسکتے ہو جو ہماری محبت میں سن رسیدہ ہو اور ہما رے امرمیں (مسائلِ دینیہ میں) تجربہ کار ہو۔
تو ظاہر ہے کہ اس سے مر اد ہے کہ تمہا رے شہر یا علاقہ میں قریب ترین لوگوں میں سے جو اس صفت سے متصف ہو اس کی طرف رجوع کرو۔۔۔ اسی طرح زمانہ غیبت امام علیہ السلام میں چونکہ امام کی خدمت میںرسائی تو ہو نہیں سکتی تھی کہ مسائلِ دنییہ کا جواب براہِ راست ان سے حاصل کیا جا سکتا؟ پس اس زمانہ کے شیعوں کو بلکہ ہر دَور کے شیعوں کو آئمہ ؑ نے اس زمانہ کے علمأ کی طرف رجوع کرنے کا حکمِ عام دے دیا تا کہ ہر ہر شہر یا علاقہ میں وہاں کے باشندے اپنے قریب ترین عالمِ دین سے راویٔ حدیث کی طرف رجوع کر کے آسانی سے دین خدا و احکامِ قرآن کی تعلیم حاصل کر کے اس پر عمل کر سکیں۔۔۔ اور اسی کا نام ہے تقلید،  چنانچہ اسحق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں حضرت حجت عج نے تحریر ًاارشاد فرمایا:
٭      وَ اَمّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَۃِ فَارْجِعُوْا فِیْھَا اِلٰی رُوَاۃِ اَحَادِیْثِنَا فَاِنَّھُمْ حُجَّتِیْ عَلَیْکُمْ وَاَنَا حُجَّۃُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ۔
ترجمہ: پس آئندہ کے مسائل میں ان لوگوں کی طرف رجوع کرو ہماری حدیثوں کے راوی ہیں،وہ میری جانب سے تم پر حجت ہیں اور میں ان پر حجت خدا ہوں (اکمال الدین)
نیز حضرت صادق علیہ السلام سے ایک حدیث طویل میں مروی ہے آپ ؑ نے فرمایاـ:
٭      اَمّا مَنْ کانَ مِنَ الْفُقَھَائِ صَائِنًا لِنَفْسِہٖ حَافِظًا لِدِیْنِہٖ مُخَالِفًا عَلٰی ھَوَاہُ مُطِیْعًا لِاَمْرِ مَوْلاہُ  فَلِلْعَوَ امِ اَنْ یُّقَلِّدُرْہُ۔
ترجمہ: پس جو شخص فقہا میں سے اپنے نفس پر قابو رکھنے والا دین کا نگہبان خواہش کا مخالف اور مولا کا فرمانبردار ہو پس عوام کو چاہیے کہ اس کی تقلید کرلیں (احتجاج)
نیز کافی میں بروایت عمر بن حنظلہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث طویل میںمروی ہے کہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:
٭      مَنْ کانَ مِنْکُمْ مِمّنْ قَدْرَویٰ حَدِیْثِنَا وَ نَظَرَ فِیْ حَلالِنَا وَ حَرَامِنَا وَ عَرِفَ اَحْکامَنَا فَلْیَرْضَوْا بِہٖ بِحُکْمِنَا فَلَمْ یَقْبَلْہُ مِنْہُ فَاِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُکْمِ اللّٰہِ وَ عَلَیْنَا ردّ وَالرَّادُ عَلَیْنَا الرَّادُ عَلٰی اللّٰہِ وَ ھُوَ عَلٰی حَدّ الشِّرْکِ بِا للّٰہِ۔
ترجمہ: جو شخص تم میں سے ہماری حدیثوں کا راوی ہو اور ہمارے حلال وحرام کو جانتا ہو اور ہمارے احکام کی معرفت رکھتا ہو ( پس شیعو ں کو چاہیے) کہ اس کے حکم پر راضی ہو جائیں۔۔۔ میں نے اس کو تمہارے اوپر حاکم بنایا ہے، پس جب وہ ہمارا حکم سنائے اور اس کو قبول نہ کیا جائے پس وہ گویااللہ کے حکم کی توہین ہے اور ہماری تردید ہے اور ہماری تردید اللہ کی تردید ہے اور حد شرک ہے۔
پس ان احادیث سے معلوم ہوا کہ زمانِ غیبت میں مجتہدین عظام کی وہی حیثیت ہے جو آئمہ کے ظہور کے زمانہ میں ان کے اصحاب کی تھی، صرف فرق یہ ہے کہ ان میں بعض خاص طور پر نامزد تھے اور بعض عمومی طور پر مجاز تھے اور زمانِ غیبت امام علیہ السلام میں سب علمائے امامیہ(مجتہدین عظام)یکساں طور پر عمومی لحاظ سے مامور ہیں اور شیعوں کو بھی بالعموم حکم ہے کہ ان کی طرف رجوع کریں اور ان کی تقلید کر کے اعمال بجالائیں۔
اس مقام پر پہنچ کر تائید مزید کیلئے آیت قرآنی پیش کرتا ہوں۔۔۔ چنانچہ پ۱۱ع۴میں ارشاد ہوتا ہے:
مَا کانَ الْمُوْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کافّۃً  فَلَوْلا نَفَرٌ مِنْ کُلّ فِرْقَۃٍ مِنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔
ترجمہ: مومنین سب کے سب تو (دینی مسائل طلب کرنے کے لئے) باہر نہیں جا سکتے۔۔۔ لیکن ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہر قوم کی طرف سے ایک ایک گروہ جا کر مسائلِ فقہیۂ دینیہ حاصل کر لیں اور واپس آکر اپنی قوموں کو خوفِ خدا کی تلقین کریں شاید وہ ڈر جائیں (اور اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ کریں)
اس آیہ شریفہ میں ہر ہر قوم سے ایک ایک گروہ کو فقیہ بننے کی دعوت دی گئی ہے۔۔۔ محض اس سہولت و آسانی کے لئے جس کو آئمہ طاہرین ؑ نے ملحوظ قرار دیا تھا تاکہ عوام مومنین احکامِ قرآن سیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس نہ کریں، پس بنابریں ہر وہ شخص جو جامع الشرائطِ فتویٰ ہو۔۔۔ متدیّن ہو۔۔۔ شہوات و خواہشات کا دلدادہ نہ ہو۔۔۔ یعنی نیک و صالح ہو عوام پر واجب ہے کہ اس کی تقلید کریں، یعنی مسائل دینیہ سیکھنے میں اس کی طرف رجوع کریں۔