چنانچہ احادیث میں وارد ہے کہ ہر شخص معصومین ؑ کی
ہر فرمائش کی تاب برداشت نہیں رکھتا، اسی وجہ سے بعض لوگ مختلف قسم کے شبہات میں
مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کا صحیح حل معلوم نہ ہو سکنے پر غلط عقائد ان کے دلوں میں
راسخ ہوجاتے ہیں۔
٭ فِی
الْکَافِیْ عَنْ جَابِر قَالَ قَالَ اَبُوْجَعْفَر۔۔۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ
اِنَّ حَدِیْثَ آلِ مُحَمَّدٍ صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لا یُوْمِنُ بِہٖ اِلَّا
مَلَکٌ مُقَرَّبٌ اَوْ نَبِیٌّ مُّرْسَلٌ اَوْ عَبْدٌ امْتَحَنَ اللّٰہُ قَلْبَہٗ
لِلْاِیْمَانِ فَمَا وَرَدَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَدِیْثِ آلِ مُحَمَّدٍ فَلَانَتْ
لَہٗ قُلُوْبُکُمْ وَ عَرَّفْتُمُوْہُ فَاقْبَلُوْہُ وَ اِنِ الشْمَأَزَّتْ
مِنْہُ قُلُوْبُکُمْ وَ انْکَرْتُمُوْہُ فَرُدُّوْہُ اِلٰی الرَّسُوْلِ وَاِلٰی
الْعَالِمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اِنَّمَا الْھَالِکُ اَنْ یُّحَدَّثَ
اَحَدُکُمْ بِشَیْئٍ مِنْہُ لا یَحْتَمِلُہُ فَیَقُوْلُ وَاللّٰہِ مَا کَانَ ھٰذَا
وَاللّٰہُ مَا کَانَ ھٰذَا۔
ترجمہ: کافی میں جابر سے مروی ہے امام محمد باقرؑ
نے فرمایا کہ جناب رسالتمآبؐ نے ارشاد فرمایا: تحقیق آل محمد کی حدیث مشکل اور
گراں تر ہے اس کو نہیں تسلیم کرتامگر مقرب فرشتہ یا نبی المرسل یا وہ عبد جس کا دل
خدانے امتحان کی کسوٹی پر رکھ لیا ہو، پس آل محمد کی جو حدیث تم پر وارد ہو اگر
تمہارے دل اس کیلئے نرم ہو جائیں اور تم اس کو پہچان لو تو قبول کرلو اور جس کو سن
کر تمہارے دل اُچاٹ ہو جائیں اور تم اسے اجنبی جانو تو اس (کے علم) کو اللہ رسول
اور آل محمد کے عالم کی طرف ردّ کردو اور وہ شخص برباد ہو گیا جس کو آل محمد کی
ایک حدیث سنائی گئی جو اس کی برداشت سے باہر تھی تو کہنے لگ جائے کہ خدا کی قسم
ایسا نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں۔
٭ وَفِیْہِ
عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ اِنَّ حَدِیْثَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لا
یُوْمِنُ بِہٖ اِلَّا صُدُوْرٌ مُّنِیْرَۃٌ اَوْ قُلُوْبٌ سَلِیْمَۃٌ اَوْ
اَخْلاقٌ حَسَنَۃٌ۔ (الحدیث)
ترجمہ: نیز حضرت امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ
آپ ؑ نے فرمایا کہ ہماری حدیث مشکل اور گراں تر ہے، صرف نورانی سینے۔۔۔ صاف دل
اورنیک طبیعتیں ہی اس کو برداشت کر سکتی ہیں۔
اس مضمون کی بہت زیادہ احادیث کتب اخبار میں اہل
بیت عصمت سے وارد ہیں۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ جب آئمہ طاہرین ؑ نے بعض مقامات پر قرآن
مجید کی بعض تاویلات کا ذکر فرمایا تو مطلب کی تہہ تک نہ پہنچ سکنے والوں نے غلط
نظرئیے قائم کرلئے او ردین سے دُور ہوگئے۔
٭ عَنْ
عَلِیٍّ فِیْ حَدِیْثٍ لَہٗ اِنَّ ثُلُـثَی الْقُرْآنِ فِیْنَا وَ فِیْ
شِیْعَتِنَا فَمَا کَانَ فِیْ خَیْرٍ فَلَنَا وَلِشِیْعَتِنَا وَالثُّلُثُ
الْبَاقِیْ اَشْرَکَنَا فِیْہِ النَّاسَ فَمَا کَانَ مِنْ شَرٍّ
فَلِعَدُوِّنَا(الخبر)
ترجمہ: حضرت امیر المومنین ؑ سے ایک روایت میں
وارد ہے کہ قرآن کا دو تہائی حصہ ہمارے اور ہمارے شیعوں کے حق میں ہے۔۔۔ پس جہاں
ذکرِ خیر ہے وہ ہمارے اور ہمارے شیعوں کیلئے ہے اور باقی تہائی میں اور لوگ ہمارے
ساتھ شریک ہیں پس جو بھی ذکرِ شرّ ہے وہ ہمارے دشمنوں کیلئے ہے۔
اس مضمون کی بہت سی حدیثیں مع وجہِ تطبیق ص۱۳۱سے
ص۱۳۹ تک بیان کی جاچکی ہیں، ان کو پڑھ سن کر بعض لوگ اس نظریہ پر پہنچے
کہ عبادات کے جملہ الفاظ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں تاویل اور باطن کے اعتبار سے
چونکہ ان سے مراد حضرات آئمہ اہل بیت ہیں اور بخلاف اس کے جملہ شرور و محرّمات سے
باطنی طور پر مراد دشمنانِ خدا اور رسول و آئمہ ہیں تو پس نتیجہ یہ ہوا کہ تمام
عبادات کا خلاصہ ولایت آل محمد کا اقرار ہے اور تمام معاصی و محرّمات کا نچوڑ ان
کے دشمنوں سے بیزاری حاصل کرنا ہے۔۔۔۔۔ لہذا۔۔۔۔۔ ولائے آلِ محمد حاصل ہو جانے کے
بعد نماز و روزہ وغیرہ جملہ عبادات ظاہریہ کی کوئی ضرورت نہیں اور دشمنانِ آل محمد
سے بیزار ہو جانے کے بعد چوری، زنا، شراب وغیرہ ہر قسم کی ظاہری بدکاریوں سے بچنے
کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔