اصول دین کیا ہیں | asool deen kia hein | learn islamic prayer
اصول دین
اصول دین پانچ ہیں جن کا ماننا اور اقرار کرنا ضروری ہے:توحید ، عدل ، نبوت ، امامت ، قیامت
۱۔ توحید: یعنی خدا ایک ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور تمام کائنات کا خالق و رازق وہی ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
۲۔ عدل: یعنی خدا عادل ہے ظالم نہیں۔۔ وہ اپنی مخلوق کو بھی عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔
۳۔ نبوت: یعنی ہدایت خلق کیلئے خدا کے بھیجے ہوئے حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمد مصطفےٰؐ تک تمام انبیا ؑ برحق تھے اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے پاک تھے۔
بنابر مشہور ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰؐ تمام انبیا ؑ کے سید و سردار ہیں۔۔۔ ہمارے نزدیک جس طرح ان سب کا انکار کفر ہے اسی طرح ان میں سے کسی ایک کی نبوت کا انکار بھی کفر ہے، خدا کی طرف سے ہر نبی کو معجزہ عطا ہوتا ہے اور ہمارے نبی کے سب سے بڑے دو معجزے قرآن اور معراج ہیں۔۔ اور ان کا دین تا قیامت باقی ہے۔۔ اور آپ ؐ خاتم الانبیا ؑ ہیں لہذا آپؐ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے۔
۴۔ امامت: جس طرح نبی کا بنانا خدا کا کام ہے اسی طرح شیعہ عقیدہ کی رُو سے امام کا معین کرنا بھی خدا کا کام ہے۔۔ جس طرح نبی کیلئے ضروری ہے کہ ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ سے معصوم ہو اسی طرح امام کیلئے بھی ضروری ہے کہ ہر چھوٹے اور بڑے گناہ سے پاک ہو۔۔ کیونکہ عہدہ امامت بھی عہدہ نبوت کی طرح ہدایت ِ خلق کیلئے ہوتا ہے، جو شخص خود گناہوں سے معصوم نہ ہو وہ لوگوں کو گناہوں سے روکنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔۔ اور اگر جرأت کرے بھی تو لوگوں کے دلوں پر اس کی نصیحت اثر انداز نہیں ہو سکتی، اور معصوم وہ ہوتا ہے جو ظاہری و باطنی جملہ برائیوں سے مبرّا و منزہ ہو۔۔ اور لوگ چونکہ ایک دوسرے کا ظاہر جان سکتے ہیں لیکن باطن سے بے خبر ہوتے ہیں لہذا وہ جس کو چنیں گے اس میں باطنی برائیوں کا امکان ہو گا۔۔ لیکن خدا چونکہ ہر ایک کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے لہذا وہ خود اپنی نمائندگی کیلئے اسی کو چنتا ہے جو ظاہر و باطن ہر دو اعتبار سے جملہ برائیوں سے پاک ہوتا ہے، پس شیعہ مذہب میں عہدہ نبوت کی طرح عہدہ امامت کیلئے انتخاب اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور وہ معصوم کو ہی انتخاب کرتا ہے، پس شیعہ مسلک میں حضرت محمد مصطفےٰؐ کے بعد ان کے جانشین حضرت علی ؑ سے لے کر حضرت مہدی ؑ تک بارہ ہیں جو خدا کے برگزیدہ ہیں اور سب کے سب معصوم ہیں۔۔۔۔ حضرت علی ؑ کی امامت پر خدا کی جانب سے حضرت رسول اکرمؐ نے نص فرمائی اور ان کے بعد ہر امام اپنے بعد والے امام کو نامزد فرماتا رہا۔۔ ان سب کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔
خلقتِ نوری (آئمہ معصومین ؑ)
پہلا امام حضرت علی مرتضیٰ ؑ دوسرا امام حضرت حسن مجتبیٰ ؑتیسرا امام حضرت حسین شہید کربلا ؑ چوتھا امام حضرت سجاد زین العابدین ؑ
پانچواں امام حضرت محمد باقر ؑ چھٹا امام حضرت جعفر صادقؑ
ساتواں امام حضرت موسیٰ کاظمؑ آٹھواں امام حضرت علی رضاؑ
نواں امام حضرت محمد تقی الجوادؑ دسواں امام حضرت علی نقی الہادی ؑ
گیارہواں امام حضرت حسن عسکریؑ بارہواں امام حضرت مہدی آخر الزمانؑ
حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مشہور فرمان ہے :
اَوِّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ ، اَنَا وَ عَلِیٌّ مِّنْ نُّوْرٍ وَّاحِدٍ
سب سے پہلے اللہ نے میرا نور خلق فرمایا ، میں اور علی ؑ ایک نور سے ہیں۔
نیز ایک اور حدیث میں آیا ہے :
اَوَّلُنَا مُحَمَّدٌ وَ اٰخِرُنَا مُحَمَّدٌ وَ اَوْسَطُنَا مُحَمَّدٌ وَ کُلُّنَا مُحَمَّدٌ
ہمارا پہلا محمد، ہمارا ٓخری محمد، ہمارا درمیانی محمد اور ہم سب کے سب محمد ہیں۔
چونکہ محمد و آلِ محمد خالق و مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں لہذا ہر دو پہلوئوں کے لحاظ سے ہر دو طرف وابستہ ہیں۔۔ نورانی پہلو کے لحاظ سے وہ خدا سے وابستہ ہیں اور جسمانی پہلو کے اعتبار سے ہم سے وابستہ ہیں۔۔ پس وہ نہ اُس جیسے ہیں اور نہ ہم جیسے ، اور جو شخص اُنہیں اللہ جیسا سمجھے وہ مشرک ہے اور جو اُن کو اپنے جیسا سمجھے وہ کافر ہے۔۔ ان پر کسی کو قیاس کرنا گناہ ہے البتہ یہ کہنا درست ہے کہ وہ اپنی مثل آپ ہیں وہ اللہ کی مثل نہیں کیونکہ وہ خالق اور یہ مخلوق ہیں اور ہم ان کی مثال نہیں کیونکہ ہم خاک اور وہ نور ہیں، امام جعفر صادقؑ نے فرمایا ہم انوار پیداہوئے ہیں اور ہمارے شیعہ اس نور کی شعاع سے پیدا ہوئے اسی لئے ان کو شیعہ کہا جاتا ہے۔
آئمہ کے اوصاف
آئمہ طاہرین علیہم السلام کی ولادت ہمارے عام بچوں کی ولادت سے جداگانہ ہوتی ہے کیونکہ ہم نجاست میں لتھڑے ہوئے پیدا ہوتے ہیں۔o آئمہ معصومین پاک و پاکیزہ متولد ہوتے ہیں۔
o وہ ناف بریدہ اور مختون پیدا ہوتے ہیں۔
o وہ پیدا ہوتے ہی کلمۂ شہادتین زبان پر جاری کرتے ہیں۔
o اُن کا نشو ونما ہمارے بچوں سے امتیازی شان کا حامل ہوتا ہے۔
چنانچہ تفسیر انوار النجف جلد دہم ص ۷۰ پر کتاب من لا یحضرہ الفقیہ سے بروایت حضرت امام علی رضا ؑ منقول ہے کہ:
o امام ختنہ شدہ اور پاک و پاکیزہ پیدا ہوتا ہے۔
o وہ سامنے جس طرح دیکھتا ہے اسی طرح پیچھے بھی دیکھ سکتا ہے۔
o اُن کا سایہ نہیں ہوتا۔
o جب شکم مادر سے باہر آتا ہے تو دونوں ہتھیلیاں زمین پر ٹیک کر کلمۂ شہادتین با ٓواز بلند زبان پر جاری کرتاہے۔
o امام کو احتلام نہیں ہوا کرتا۔
o اُن کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے۔
o اُن سے فرشتے باتیں کرتے ہیں۔
o اُن پر حضرت رسالتمآب کی زرہ پوری ہوتی ہے۔
o اُن کے فضلات کسی کو نظر نہیں آ تے زمین ان کو نگل جاتی ہے۔
o اُن کے جسم سے ہر وقت پاکیزہ خوشبو مہکتی ہے۔
o اُنکی دعا ردّ نہیں ہوتی، پہاڑ پر دعا کریں تو دو ٹکڑے ہو جائے گا۔
صحیح عقیدہ
آئمہ طاہرین علیہم السلام کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ اُولو الامر ہیں جن کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے۔۔ وہ لوگوں پر شاہد ہیں۔۔ اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں اور اسکے دروازے ہیں، نیز اللہ کے علم کے خازن ہیں اور اس کی وحی کے ترجمان، ہر قسم کی خطا و لغزش سے پاک و منز ّہ ہیں حتیٰ کہ ترکِ اولیٰ بھی اُن سے سر زد نہیں ہوتا، اُن سے اللہ نے رِجس کو دور رکھا اور اُن کو پاک رکھا جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے، وہ صاحبانِ معجزہ و برہان ہیں اور اہل زمین کیلئے عذابِ خداوندی سے باعث امان ہیں، وہ امت کیلئے کشتی نجات ہیں۔۔ اُن کی محبت ایمان اور اُن سے بغض رکھنا کفر ہے، پس اُن کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور اُن کی نا فرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔اگر یہ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا۔۔ انہی کی برکت سے زمین و آسمان کا نظام قائم اور انہی کی بدولت دنیا آباد ہے۔۔ چونکہ یہ حضرت رسالتمآب خاتم الانبیا ٔ کے صحیح جانشین ہیں لہذا حضرت آدمؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک تمام گزشتہ انبیا ٔ سے افضل وا کمل ہیں۔۔ اللہ کی اعلیٰ مخلوق ہیں اور اِن کی وِلا تمام جن و انس پر فرض ہے اور ان کی مودّت اجر ِ رسالت ہے۔۔ ان کی محبت کے بغیر تمام اعمال باطل و رائیگاں ہیں، انکے صدقہ سے مخلوق کو رزق پہنچتاہے۔۔ ان کے وسیلہ سے دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اور ان کی ہی شفاعت گنہگار شیعوں کے حق میں مقبول ہو گی۔۔۔ پس انکے شیعہ ان کے وسیلہ سے جنت میں جائیں گے۔
۵۔ قیامت: چونکہ خداوند کریم نے مخلوق کو عبث پیدا نہیں کیا پس اس نے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع فرمایا۔۔ اسی طرح انصاف و عدل کا حکم دیا اور ظلم و جور سے منع کیا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ مسلسل نیکیاں کرتے ہیں اور بد حالی کی زندگی گزارتے ہیں اور اس کے برعکس بعض لوگ مسلسل برائیاں کرتے ہیں اور خوشحالی کی زندگی ان کے نصیب میں ہوتی ہے! اسی طرح بعض لوگ مظلوم اور بعض ظالم ہوتے ہیں لیکن نہ مظلوم کو بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ظالم سے انتقام لیا جاتا ہے۔۔ پس اگر جزا و سزا کا کوئی دن مقرر نہ ہو تو تخلیق کائنات کا کارنامہ عبث و بے مقصد رہ جائے گا۔۔ نیز عمدہ صفات کی خوبی اور بد صفات کی برائی وا ضح نہ ہو سکے گی، پس ضروری ہے کہ جزا و سزا کیلئے ایک دن مقرر ہو جس میں نیکوں کو جزا اوربروں کو سزا دی جائے۔۔ مظلوم کو بدلہ دیاجائے اورظالم سے انتقام لیا جائے۔۔بنابریں خداوند کریم جو عادل وحکیم ہے اس نے مخلوق کو اپنے اعمال کا بدلہ دینے کیلئے ایک دن مقرر فرمایا ہے جس کا نام روزِ قیامت ہے کہ اس دن تمام لوگ مرنے کے بعد دوبارہ محشور ہوں گے اورنیک لوگوں کو نیکی کی جزا جنت ملے گی اوربرے لوگوں کو برائی کی سزا دوزخ میں ڈالاجائے گا۔
پس قیامت کا عقیدہ برحق ہے اوراس کا منکر کافر ہے،اسی طرح قبر میں فشارِ قبر۔۔ سوال منکر ونکیر۔۔ ثواب وعقاب۔۔ حساب وصراط اوربہشت ودوزخ وغیرہ برحق ہیں، نیز ملائکہ پر ایمان رکھنا اوراللہ کی نازل کردہ کتابوں کو برحق ماننا اورقرآن مجید کو ان سب سے افضل ماننا شیعہ عقائد میں شامل ہے اور ان کا منکر کافر ہے۔۔ اورحضرت رسالتمآب کی شریعت کے جملہ ضروریات پر ایمان لانا ضروری ہے اورشریعت کے کسی مسئلہ پر عمل نہ کرنا فسق اور انکار کفر ہوتا ہے۔
Youtube
Anwar-ul-Najaf Publishing House
https://www.youtube.com/channel/UCAvrnXINrg6J7-a3PONl9HQ
https://www.facebook.com/anwarulnajaf/
https://twitter.com/anwarulnajaf
x