wirasat ki taqseem in quran | رکوع 13 سورہ النساء - قانون وراثت
In Surah Nisa (سورہ النساء), specifically in رکوع 13, the Quran lays down the fundamental principles and laws for wirasat ki taqseem (وراثت کی تقسیم), which is the division of inheritance among heirs. Understanding the intricacies of this divine law is crucial for ensuring a fair distribution of assets in accordance with Islamic teachings. Let's delve into the guidelines and regulations outlined in Surah Nisa regarding the allocation of property among heirs.
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ ٱمْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ فَإِن كَانُوۤاْ أَكْثَرَ مِن ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِى ٱلثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ وَصِيَّةً مِّنَ ٱللَّهِ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ ﴿١٢﴾ اور تمہارا نصف ہے اس سے جو چھوڑ جائیں تمہاری بیویاں اگر نہ ہو ان کی اولاد پس اگر ہو ان کی اولاد تو تمہاری چوتھائی ہے اس سے جو چھوڑ جائیں بعد وصیّت کے جو کریں یا بعد قرضہ کے اور ان کا چوتھا ہے اس سے جو تم چھوڑ جاؤ اگر نہ ہو تمہاری اولاد پس اگر ہو تمہاری اولاد تو ان کا آٹھواں ہے اس سے جو چھوڑ جاؤ بعد وصیّت کے جو کرو یا بعد قرضہ کے اور اگر وہ شخص جس کی میراث ہے کلالہ ہو یا عورت (کلالہ) ہو اور اس کا بھائی یا بہن ہو تو ہر ایک کے لئے ان میں سے چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو وہ شریک ہوں گے تہائی میں بعد وصیّت کے جو کی جائے یا بعد قرضے کے کہ نہ ضرر دی گئی ہو وصیّت اللہ کی جانب سے اور اللہ علیم و حلیم ہے ﴿١٢﴾
رکوع 13 سورہ النساء - قانون وراثت
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ تفسیر برہان میں عیاشی سے مروی ہے کہ جب جناب فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے باپ کی رواثت کا دعوٰی دائر کیا تھاتو جواب دیا گیا تھا کہ نبیوں کی وراثت نہیں ہواکرتی تو آپؐ نے اپنے دعوے کے اثبات کےلئے یہی آیت تلاوت فرمائی تھی کیونکہ آیت مجیدہ میں نبی اورغیر نبی کا فرق نہیں کیا گیا نیز اس سے پہلی آیت کہ مردوں کےلئے بھی وراثت کا حق ہے جو مورث کا حق ہے جو مورث چھوڑ جائیں اورعورتوں کےلئے بھی حق وراثت ثابت ہے جو کچھ ان کے مورث چھوڑ جائیں وہاں بھی عموم کو استعمال کیا گیا ہے اورنبی اورغیر نبی کا فرق نہیں بیان کیا گیا ورنہ اگر نبی ؐکےلئے توریث کی نفی ہوتی تو اس مقام پر استثناءکا ہونا ضروری تھا۔
لِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ عورت سے مرد کا حصہ خدانے دگنا مقرر فرمایا ہے اس کی مصلحت کے متعلق امام علی رضاعلیہ السلام سے بذریعہ خط دریافت کیا گیا تو آپ نے جواباً تحریر فرمایاایک وجہ تو یہ ہے کہ نکاح کے وقت عورت کےلئے حق مہر فرض کیا گیا ہے جو مرد کےلئے نہیں بلکہ اسے دینا پڑتا ہے لہذا خدانے مرد کو اس مقام پر زیادہ حصہ دے دیا اوردوسری وجہ یہ ہے کہ مرد پر عورت کا نفقہ واجب ہو اکرتا ہے اورمرد خواہ محتاج ونادار بھی ہو عورت پر اس کا نفقہ واجب نہیں ہوتا پس خدانے اس مقام پر مرد کو زیادہ حصہ دے دیا تاکہ اخراجات کا بوجھ اس سے ہلکا ہوجائے ۔ (الحدیث )
تفسیر برہان میں کافی سے منقول ہے کہ ایک دفعہ ابن ابی العوجاءنے یہ اعترض اٹھایا کہ عورت باوجود یکہ کمزور وناتواں ہو اکرتی ہے اس کا حصہ قرآن مجید میں مرد سے نصف مقرر کیا گیا ہے حالانکہ مرد خود کمابھی سکتا ہے لہذا عقل کے لحاظ سے مرد کی بہ نسبت عورت کوزیادہ دینا چاہیے تھا ور نہ کم ازکم مساوات تو ہوتی پس حضرت جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے اس کا سوال دہرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا عورت پر نہ جہاد واجب ہے نہ نفقہ اورنہ ان پر کسی قسم کادیت وغیرہ کا خرچ ہے اسی مصلحت کی بناءپر عورت سے مرد کو دگنا حق دیا گیا ہے کہ مرد پر اخراجات زیادہ ہیں اورعورت محکومانہ حیثیت سے رہتی ہے لہذااس کے اخراجات کا بوجھ زیادہ ہے۔
روایات سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ چونکہ مرد خانگی انتظامی معاملات میں حق حکومت رکھنا ہے بنابریں اس کےاخراجات زیادہ میں اورعورت محکومانہ حیثیت سے رہتی ہے لہذااس کے اخراجات کا بوجھ بھی مرد پر ہوتا ہے پس مرد کو وراثت میں دگنا حصہ دیا گیا ہے تاکہ عورت کے حق مہر اورنان ونفقہ اورجہاد دیت اوراسی قسم کے دوسرے بیرونی اخراجات کےلئے اس کا ہاتھ تنگ نہ ہواوریہ عدل خداوندی کا تقاضا ہے جو دانا وبیناہے
لطیفہ
بعض کتب مناقب میں ہے کہ ایک دفعہ دوعورتوں کے درمیان جھگڑا ہوا ایک کی لڑکی اوردوسری کا لڑکا تھا ان میں سے ہر ایک لڑکے کے دعویدار تھی زمانہ تھا دوسری خلافت کا جب فیصلہ نہ ہوسکا تو حضرت امیرالمومنین کی خدمت بابرکت میں یہ مقدمہ پیش کیا گیا آپ نے ایک حجم کی دوشیشیاں منگوالیں اورحکم دیا کہ ایک ایک شیشی ان عورتوں کو دی جائے تاکہ اپنے اپنے دودھ سے اسے پر کریں چنانچہ ایسا کیا گیا پس آپ نے دونوں کو وزن کرنے کا حکم دیا تو ایک کاوزن کم اوردوسری کا زیادہ نکلا پس آپ نے حکم دیا کہ لڑکا اس عورت کا ہے جس کا دوھ وزنی ہے اورلڑکی دوسری کی ہے یہ فیصلہ سنتے ہی صحابہ ششدرہوگئے اورآپؑ سے وجہ دریافت کی آپؑ نے فرمایا میں نے یہ فیصلہ قرآن مجید سے کیاہے چنانچہ خداوندکریم ارشاد فرماتاہے
لِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ جس خدانے وراثت میں مرد کو عورت سے حق زیادہ کرامت فرمایا ہے اس نے خوراک میں بھی مرد عورت کے حصہ میں فرق مقررکیاہے پس صحابہ آپ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے واپس چلے گئے اودونوں عورتیں اپنے اپنے بچے لے کر رخصت ہوگئیں لیکن قرآن مجید کی ان باریکیوں کو راسخین فی العلم کے علاوہ اورکون جان سکتا تھا جبھی تو جناب رسالتمابؐ نے فرمایا تھا عَلِیّ مَعَ الْقُرْاٰن وَالْقُرْاٰن مَعَ عَلِیّ اورتمام امت کو ان دونوں سے تمسک پکڑے کا حکم دیا تھا اَللّٰہُ یَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ ۔
رکوع 13 سورہ النساء - قانون وراثت - طبقہ اولیٰ کی وراثت
اولاد میت کا وارث اگر صرف لڑکا ہوتو وہ ساری جائداد کا مالک ہوگا اوراگر چند لڑکے ہوں تو وہ پوری جائداد کو برابر تقسیم کریں گے اوراگرلڑکیاں اورلڑکے موجود ہوں تو لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ہرلڑکے کو دولڑکیوں کے حصے کے برابر جائیگا یعنی لڑکی کو لڑکے کے حصہ کا نصف دیا جائے گا مثال ایک لڑکا اورایک لڑکی جائداد تین حصوں میں برابر تقسیم ہوگی دولڑکے کو اورایک لڑکی کو ملے گا اورایک لڑکا اوردولڑکیوں کو دیا جائے گا ؛علی ہذالقیاس
فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ اگر مرجانے والے کی اولاد صرف لڑکیاں ہوں اورلڑکا کوئی موجود نہ ہوتو لڑکیاں اگر دویادوسے زیادہ ہوں تو ان کےلئے فرض کل جائیداد کی دوتہائی ہے پس اگر ان کے علاوہ اس طبقہ میں کوئی دوسرا وارث نہ ہوا تو پھر باقی جائداد ان پر دو ہوگی یعنی کل جائداد کی وارث یہی ہوں گی اوران کی موجود گی میں دوسرے یاتیسرے طبقہ والوں کو وراثت سے کچھ نہ دیا جائےگا ۔
آیت مجیدہ میں فَوْقَ اثْنَتَیْنِ کی لفظ ہے یعنی دوسے زیادہ ہوں لیکن علمائے امامیہ کا اتفاق ہے کہ دو کاحکم بھی یہی ہے۔
وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَةً اگر متوفی صرف ایک لڑکی چھوڑ جائے تو اسے کل جائداد کانصف۲/ ۱ فرض کےساتھ ملے گا اورباقی بھی روکے طور پر اسی کو ملے گا اگر اس طبقہ میں کوئی دوسرا اس کا شریک وراث نہ ہوورنہ اسی طبقہ کے دیگر ورثاءکے حقوق کے بعد اگر بچے گا تو اس کو رو میں مل سکے گا اورمذہب امامیہ میں لڑکی کی موجود گی میں دوسرے یاتیسرے طبقہ کے ورثاءجو عصبہ کہلاتے ہیں متوفی کی جائیداد سے محروم ہوں گے۔
رکوع 13 سورہ النساء - قانون وراثت - ماں باپ
لِاَبْوَیْہِ اگر میت کی اولاد بھی موجود ہواوراس کے والدین بھی موجود ہوں تو کل ترکہ میں سے چھٹا چھٹا حصہ ماں باپ کو ملے گا جس کی تفصیل یہ ہوگی۔
- اگر میت کے ماں باپ بھی موجود ہیں اورایک لڑکا بھی ہے تو ماں باپ کو چھٹاچھٹا حصہ دے کر باقی کل جائیداد میت کے لڑکے کو ملے گی اوراگرلڑکے زیادہ ہوں تووہ سب برابر برابر آپس میں تقسیم کریں گے اوراگرلڑکے اورلڑکیاں ہوں تو ایک اوردو کی نسبت سے تقیسم کریں گے۔
- اگر میت کے ماں با پ بھی موجود ہیں اورایک لڑکی بھی ہے تو ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ فرض سے دیاجائے گا اورلڑکی کو نصف کل جائیداد کا بطور فرض دیا جائے گا اورباقی بچے ہوئے کو ان سابقہ حصص کی نسبت سے ان پر تقسیم کیا جائے گا اوریہ روقرابت کے لحاظ سے ہے اس میں سے دور کے وارثوں کو کچھ نہ ملے گا یعنی طبقہ اولی کے بعد والے دوسرے یاتیسرے طبقہ کو کچھ نہ دیا جائے گا۔
مسئلہ: اگر میت کے بیٹے بیٹیاں موجود نہ ہوں بلکہ ان کی اولاد موجود ہواورمیت کے والدین بھی موجود ہوں تب بھی تقسیم کی یہی صورت ہوگی کہ والدین کو چھٹا چھٹا حصہ دیا جائے گا اورباقی پوتوں پوتیوں پرایک اوردو کی نسبت سے تقسیم ہوگا جبکہ میت کے ایک لڑکے کی اولاد ہوں اوراگر چند لڑکوں کی اولاد ہوں اوراگر چند لڑکوں کی اولاد ہوں گے تو اپنے آپ نے با پ کے حصہ کو آپس میں اسی طرح تقسیم کریں گے اورنواسے اپنی ماں کا حصہ لیں گے اوران کی باہمی تقسیم مردوعورت کی ایک اوردوکی نسبت سے ہوگی اوراگر صرف نواسے نواسیاں ہوں تو میت کے ماں باپ کے حصص نکلنے کے بعد اگر یہ میت کی ایک لڑکی کی اولاد ہوں گے تو ان کو کل جائیداد کا ۲/ ۱ حصہ بطور فرض کے ملے گا جس کو یہ باہمی طور پر ایک اوررو کی نسبت سے تقسیم کریں گے اورجو جائداد بچ رہے گی اپنے سابقہ حصص کی بناءپر ماں باپ اوران پر حق قرابت کے لحاظ سے رو ہوگی جس کو حسب سابق آپس میں تقسیم کریں گے اوراگر دولڑکیوں کی زیادہ کی اولاد ہوں گی تو ماں باپ کے حصوں کے بعد کل جائداد میں سے ان کو دوتہائی ملے گا اورآپس میں حسب قرابت اورحسب حصص تقسیم کریں گے اورباقی میراث حسب سابق ان پر رد ہوگی۔
فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہ اگر میت کی اولاد نہ ہو اورصرف باپ وارث ہو تو وہی تمام جائیداد کا وارث ہوگا اوراگراکیلی ماں ہوتو وہ بھی تمام جائیداد کی وارث ہوگی لیکن اس طرح کہ ۳ / ۱حصہ کی مالک فرض کے لحاظ سے اورباقی بحق قرابت اس کو بطور رد کے ملے گا اوراگر دونوں ماں باپ موجود ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا اور باقی باپ لے گا۔
فَاِنْ کَانَ لَہ اِخْوَة اگر میت کی اولاد نہ ہواورماں باپ موجود ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا لیکن بشر طیکہ میت کے دویا اس سے زیادہ بھائی موجود نہ ہوں ورنہ ماں کو چھٹا حصہ ملے گا اگر میت کا ایک بھائی اوردوبہنیں یاصرف چار بہنیں موجود ہوں تب بھی ماں کو تہائی کی بجائے چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ یہ بھائی بہنیں پدری ہوں یامادری پدری ہوں اگر صرف مادری ہوں تو ماں کو پورا تہائی حصہ ملے گا یہاں اِخْوَة کا لفظ اگرچہ جمع ہے لیکن اس سے مراد دو یااس سے زیادہ ہیں بھائیوں کی موجود گی صرف ماں کے حصہ پرا ثر انداز ہوگی ورنہ ان کو خود متوفی کی وراثت سے کچھ نہ ملے گا بلکہ ماں کے حصہ سے فاضل سب باپ کو ملے گا۔
مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ لفظ کے لحاظ سے وصیت کا ذکر پہلے اورقرضہ کا ذکر بعدمیں ہے لیکن او کی لفظ ترتیب کےلئے نہیں ہوتی ورمیت کے مال میں سے قرضہ کی ادائیگی سب سے پہلے ہوا کرتی ہے اورپھر وصیت پر عمل ہوتا ہے اورآخر میں وراثت کی تقسیم ہوتی ہے اوریہ معصومین سے مروی ہے چونکہ یہ مسائل ذرا مشکل ہیں لہذا ان کی مزید وضاحت کےلئے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں تاکہ ہر خاص وعام خوب سمجھ سکے۔
مثال نمبرا
میت کے وارث صرف اس کی لڑکی اورباپ موجود ہیں کل جائیداد کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا یعنی ایک حصہ باپ کو اورنصف یعنی ۳ حصے لڑکی کو ملیں گے اب جو دوحصے باقی رہ گئے ہیں وہ پھر ان پر حق قرابت کے لحاظ سے رو ہوں گے لیکن اسی نسبت سے جو ان کو پہلے مل چکا ہے چونکہ وہ نسبت ایک اورتین کی تھی لہذاان دوحصوں میں سے باپ کو ادھ حصہ اورلڑکی کو ڈیڑ ھ حصہ ملے گاتوکل جائیداد میں لڑکی کو ساڑھے چار حصے اورباپ کو ڈیڑھ حصہ آئے گا یایوں سمجھئے کہ کل جائیداد کا حصہ باپ ۴/ ۱ کو اور۴/ ۳ حصہ لڑکی کو ملے گا۔
مسئلہ: قرآن مجید میں ورثاءکے جو حصے مقرر کئے گئے ہیں ان کو فقہالوگ فرض سے تعبیر کرتے ہیں اورقرآن مجید کے فرمان اُولُوالْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یعنی اللہ کی کتاب میں رشتہ داروں میں سے بعض بہ نسبت دوسرے بعض کے اوٰلی ہوا کرتے ہیں اسکی رو سے جو فرض سے بچا ہوا حق قریبیوں پر تقسیم ہوتا ہے اس کو رو سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراسی آیت مجیدہ کی روسے علماءامامیہ تعصیب کو باطل جانتے ہیں یعنی یہ کہ فروض سے جو کچھ بچ جائے وہ دوسرے دور کے وارثوں کو دیاجائے جنہیں عام اسطلاح میں وارثان بازگشت سے تعبیر کیا جاتا ہے ہمارے نزدیک یہ باطل ہے کیونکہ اقرب کی موجود گی میں بعد کسی صورت میں وارث نہیں قرار دیاجاسکتا اوراَولُوالْاَرْحَام الخ والی آیت اس کی واضح دلیل موجود ہے پس حق یہ ہے کہ فرضوں سے بچے وہ بحق قرابت انہی پر تقسیم ہو کیونکہ وہی زیادہ قریبی ہیں ۔
مثال نمبر2
وارث صرف لڑکی اورماں ہوں تقسیم کا طریقہ وہی ہوگا جو اوپر کی مثال میں بتایا گیا ہے۔
مثال نمبر3
وارث لڑکی ماں اور باپ دونوں ہوں چھ حصوں میں سے ایک ماں کو ایک باپ کو ۳ لڑکی کو بحق فرض ملے گا اورایک بچا ہوا حصہ پہلی نسبت سے پانچ حصوں میں بٹ کر ایک ایک ماں باپ کو اور۳حصے لڑکی دئیے جائیں گے گویا کل جائداد کے حصے پانچ ہوں گے ۵/ ۱ ماں۵/ ۱ باپ اور ۵/ ۳ لڑکی کو ملے گا لیکن اگر میت کے پدری مادری یاصرف پدری دویادو سے زیادہ بھائی یاایک بھائی یاایک بھائی اوردوبہنیں یاچار بہنیں موجود ہوں گی تو ماں کو صرف ۶/ ۱ حصہ دیاجائے گا اورروصرف لڑکی اورباپ پرا یک اورتین کی نسبت سے ہوگا۔
مثال نمبر4
دویازیادہ لڑکیاں اورماں یاباپ میں سے ایک ہو چھ حصوں میں سے ماں یاباپ پر ایک حصہ اورلڑکیوں کو دو تہائی یعنی جس کو وہ آپس میں تقسیم کریں گی اوربچے ہوئے ایک حصے کو سابقہ نسبت سے یعنی ایک اورچار کی نسبت سے تقسیم کیا جائے گا۔
مثال نمبر5
دویازیادہ لڑکیاں ماں اورباپ دونوں چھ حصے میں سے ماں باپ کو ایک ایک حصہ اورلڑکیوں کو دو تہائی یعنی چار حصے اور جائیدادپوری تقسیم ہوجائے گی لہذا رو کی ضرورت نہ ہوگی۔
مثال نمبر6
وارث پوتا یاپوتی یاہر دوجبکہ میت کے ایک ہی لڑکے کی اولاد ہوں اورماں یاباپ یاہر دوپس ماں یاباپ یا ہر دو کو اپنا چھٹا چھٹا حصہ دیا جائے گا مثلاً چھ میں سے ایک اورباقی پوتا یاپوتی لیں گے اوراگر دونوں ہوں تو آپس میں ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے۔
مسئلہ :صرف پوتی اپنے باپ کے قائم مقام ہوتی ہے جو میت کا لڑکا تھا لہذا اس کو اپنے باپ کی طرح پورا حصہ ملے گا۔
مثال نمبر7
وارث میت کا پوتا ایک لڑکے سے پوتی دوسرے لڑکے سے اورماں اورباپ یاان میں سے ایک چھ حصوں میں سے ماں باپ اپنا ایک ایک حصہ لیں گے باقی پوتے اورپوتی میں برابر تقسیم ہوگا اس لئے کہ پوتی اپنے باپ کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے پوتے کے ساتھ برابر کی حصہ دار ہے کیونکہ یہ دونوں اپنے اپنے باپ کا حصہ لے رہے ہیں اگر وہ خود موجود ہوتے تو برابر تقسیم کرتے پس ان کے قائم مقاموں کو بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
مثال نمبر8
پوتا نواسہ اورماں باپ یاان میں سے ایک چھ میں سے ماں باپ کے ایک ایک حصہ کے نکل جانے کے بعد باقی کو پوتا اورنواسہ ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے کیونکہ پوتا میت کے لڑکے کے قائم مقام اورنواسہ میت کی لڑکی کے قائم مقام ہے پس اگر نواسہ کی جگہ نواسی ہو تب بھی یہی حصہ لے گی اورنواسے اورنواسیاں جبکہ ایک ماں سے ہوں تو وہ اپنے مذکورہ حصہ کو آپس میں ایک اوردوکی نسبت سے تقسیم کریں گے بنابریں اگر پوتی اورنواسہ وارث ہوں تب بھی پوتی کو باپ کا حصہ اورنواسہ کو ماں کا حصہ دیا جائے گا یعنی پوتی کو دواورنواسے کو ایک
مثال نمبر9
صرف نواسے نواسیاں میت کی اولاد اورماں یاباپ چھ میں سے ماں یاباپ کو ایک حصہ اورنواسوں نواسیوں کو چونکہ میت کی ایک لڑکی سے ہیں میت کی جائداد کا نصف حصہ یعنی چھ میں سے تین حصے ملیں گے باقی دوحصوں کو ایک اورتین کی نسبت سے بانٹا جائے گا پہلی مثال کی طرح پھر نواسے اورنواسیاں اپنے کل حصہ کو آپس میں ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے
مثال نمبر10
نواسے نواسیں بصورت سابق اورماں باپ دونوں تیسری مثال کی طرح تقسیم ہوگی۔
ایک لڑکی سے نواسہ یانواسی یاہر دو اوردوسری لڑکی سے نواسہ یانواسی یاہر دو اورماں یاباپ چھ حصوں میں سے ماں یاباپ کو ایک ایک حصہ دیاجائے گا اورنواسوں نواسیوں کو کل جائداد کی دوتہائی یعنی چھ میں سے چار حصے دئے جائیں گے اورباقی کو چوتھی مثال کی طرح تقسیم کیا جائے گا اس کے بعد نواسے اورنواسیاں اپنی اپنی ماں کے حصہ کو کو آپس میں تقسیم کریں گے یعنی اولاً حاصل شدہ کو دوبرابر حصوں میں اورپھر ہر حصہ کو اس میں جس قدر بھائی بہنیں شریک ہوں گے ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے اوراگر دو سے زیادہ لڑکیوں کی اولا د موجود ہو تب بھی کل جائیداد سے اصل اسی قدر ملے گا پھر اپنی اپنی ماں کے حصہ کو اس کی اولاد سابق قانون کی رو سے تقسیم کرے گی یعنی مرد کو عورت سے دگنا۔
مسئلہ اگر میت کی اولا د لڑکے لڑکیاں موجود ہوں اوراس کاکوئی پوتا پوتی یانواسہ نواسی ایسا بھی موجود ہو جن کا باپ یا ماں میت کی موجود گی میں وفات پاچکے تھے تو مذہب امامیہ اثنا عشریہ کی رو سے وہ وارثت سے محروم ہوگا کیونکہ ان سے زیادہ قریبی میت کی اپنی اولاد موجود ہے۔
رکوع 13 سورہ النساء - قانون وراثت - پوتے یانواسے کی وراثت کا مسئلہ
تنبیہ چونکہ مسلمان قرآن کے مسلمہ اصولوں سے روز بروز دور ہوتے چلے جارہے ہیں اورغیر اسلامی تعلیم انکی رگ وپے میں گھر کرتی چلی جارہی ہے لہذا قرآن مجید کا جو فیصلہ ان کی خواہشات اورافتاد طبع سے متصادم ہو وہ اسے خلاف عقل کہنے میں زرہ بھر باک محسوس نہیں کرتے چنانچہ انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہتے ہیں یتیم پوتے کو دادا کی وراثت سے محروم کرنا ناانصافی ہے اورسراسر خلاف عقل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اایسے لوگ اخود عقل سے کورے ہوتے ہیں جو کسی بھی قانون خداوندی کو خلاف عقل یامنافی انصاف کہیں اس مسئلہ کو اگر تھوڑی سی غور کرکے دیکھا جائے تو اس کا منافی انصاف اورخلاف عقل ہونا تودرکنار یقین کرنا پڑے گا کہ یہ عین انصاف اوربالکل قرین عقل ہے۔
وراثت کا حصہ خداوند کریم نے دوطریقوں سے بیان فرمایا ہے ایک فرض اوردوسراقرابت فرضی حصص وہی ہیں جن کو صراحت سے ذکر کیا ہے کسی کا نصف کسی کا دوتہائی کسی کو چھٹا کسی کے لئے تہائی کسی کا چوتھا اورکسی کا اٹھواں اوریہی وہ فرض ہیں جو قرآن مجید میں موجود ہیں اورظاہر ہے کہ ان میں پوتے کا نام نہیں باقی رہا حق قرابت جس کو اُولُوالْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَ وْلٰی بِبَعْضٍ کے کلیے سے واضح کیا ہے پس اس قرابت کے کلیہ کے ماتحت جو بھی میت کا زیادہ قریبی ہو ہی اس کی وراثت کاپہلا حقدار ہو گا اورظاہر ہے کہ لڑکے اورپوتے میں سے میت کا زیادہ قریبی لڑکا ہے اورپوتا ایک درجہ دور ہے ہاں اگر میت کالڑکا اورلڑکی موجود نہ ہوتو پھر باقی سب سے زیادہ قریب پوتا یانواسہ ہی ہوگا جس طرح اوپر کے سلسلہ میں باپ اوردادا دونوں قریبی ہیں اورحکومت کے لحاظ سے جس طرح باپ حاکم ہے اسی طرح دادا بھی حاکم ہے لیکن قرابت کے لحاظ سے جس طرح باپ حاکم ہے اسی طرح دادا بھی حاکم ہے لیکن قرابت کے لحاظ سے باپ بلاواسطہ ہے اوردادا ایک درجہ دو ہے پس میت کے باپ کی موجود گی میں دادا کو وراثت کا حق حاصل نہیں ہے اسی طرح دوسرے درجہ میں بھائی بھتیجے اوربہن اوربھانچے میں بھی وہی بات ہے کہ بھائی بہ نسبت بھتیجے کے اوربہت بہ نسبت بھانچے کے میت کے زیادہ قریب ہیں اورپھر تیسرے درجہ میں چچا اورچچازاد ماموں اورماموں زاد وغیرہ کی یہی کیفیت ہے۔
میت کی اپنی اصل اولاد بہر صورت اولاد کی اولاد سے قریب تر ہے اگر یتیم پوتے کا باپ موجود ہوتا جس کی بدولت یہ دادا سے قریبی ہونے کا حقدار ہے تو یقیناً دادا کی وراثت اس تک نہ پہنچ سکتی کیونکہ پوتے کا باپ میت سے بلاواسطہ قرب رکھتا ہے پس وہی وراثت کا حق دار ہے لہذا اس کی موجود گی میں یہ ہرگز وارث نہیں ہوسکتا تو جب اپنے واسطہ قرابت کی موجود گی میں محروم الارث تھا اب واسطہ کے ٹوٹ جانے کے بعد یہ کیسے وارث ہوسکتا ہے نیز اس واسطہ کی موجود گی میں وہ واسطہ خود وارث اس لئے نہ تھا کہ اس پوتے کا باپ ہے بلکہ وہ اس لئے وارث تھا کہ مرنے والے کا بلاواسطہ فرزند ہے پس یہ قاعدہ ثابت ہوگیا کہ بلاواسطہ فرزندکی موجودگی میں بالواسطہ فرزندوراثت نہیں پاسکتا اب یہی علت پوتے کے چچوں ارپھوپھیوں کی موجود گی میں پائی جاتی ہے کہ وہ میت کے بلاواسطہ اولاد میں تو اس صورت میں بالواسطہ کو کیونکر حصہ دیا جائے نیز میت کا نواسہ یانواسی جس کی ماں میت کی موجود گی میں مرچکی ہو ان کا بھی یہی حکم ہے کہ میت کی بلاواسطہ اولاد کی موجود گی میں خواہ لڑکے ہوں یالڑکیاں نواسے نواسیاں اپنے نانا کے وارث نہیں بن سکتے لیکن معترض لوگ اس مقام پر نواسوں اورنواسیوں کا ذکر درمیان میں نہیں لاتے اوروہاں س لئے کہ لڑکیوں کو یا اس کی اولاد کو جائیداد سے حصہ کیوں دیا جائے اورنہ ان کی محرومی کو خلاف عقل اورمنافی انصاف قرار دیتے ہیں کیوں کہ وہ ان کے جذبات کے موافق اورخواہشات کے مطابق ہے۔
اب رہا یہ کہ وہ یتیم رہا یہ کہ وہ یتیم رہ گیا اس کی بندوبست کیا ہوگا تو یہ صرف ایک نہیں بلکہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں بچے یتیم رہ جاتے ہیں جن کو خدارزق دے رہا ہے اورفرض کرو اگر اس دادا کی جائداد نہ ہوتی تو پھر یتیم کیسے زندگی گزارتا یہ باتیں محض بے تکی ہیں ان کو مسئلہ سے کوئی ربط نہیں جب یہ ثابت ہوا کہ پوتے کی بہ نسبت اس کے چچے اورپھوپھیاں میت کے زیدہ قریبی ہیں تو اس کی دادا کی جائداد سے محرومی عین انصاف اورموافق عقل ہے بلکہ یہاں محرومی کا استعمال کرنا بھی بے جاہے جبکہ وہ سرے سے حقدار ہی نہیں باقی سلسلہ قرابت میں اقرب کے ہوتے ہوئے بعد کو وراثت دینا قریبیوں کی حق تلفی ہوا کرتی ہے پس حق تو یہ تھا کہ اگر کوئی پوتے کی وراثت کا قائل ہوتا تو اس کے خلاف ہنگامہ آرائی کی جاتی کہ قریبی کی موجود گی میں بعید کی وراثت کا ڈھونگ کیوں رچایا جارہا ہے
واسطہ کے منقطع ہوجانے کے بعد اگر اس کو قرابت کا حق وہی دینا ہے جو واسطہ کو حاصل تھا تو اس سلسلہ میں دوسری کافی مثالیں ایسی موجود ہوجائیں گی جن میں غیر وارث کو وارث کرنا پڑے۔
- میت کا نواسہ اورنواسی جس کی ماں پہلے مرچکی ہو اب اس کو بھی نانا کی وراثت سے ماں کا حق دیا جائے۔
- اولاد کی عدم موجود گی میں زوجہ کو شوہر کی جائیداد منقولہ میں سے ۴/ ۱حصہ دیاجاتا ہے جو اس کی موت کے بعد اس کے قریبیوں کو ملتا ہے پس اگر زوجہ شوہر کی موجود گی میں مرجائے تو شوہر کی موت کے بعد سابقہ زوجہ متوفاة کے وارثوں کو زوجہ متوفاة کا حق دیاجائے۔
- اسی طرح شوہرکو عورت کی جائداد کا۲/ ۱ یا ۴/ ۱ حصہ دیا جاتا ہے تو پہلے مرجانے کی صورت میں اس کا حق نہ لوٹنا چاہیے بلکہ اس کی بیوہ عورت کی وفات کے بعد شوہر کے وارثوں کو حق طلب کرناچاہیے۔
- دوسرے طبقہ وراثت میں بھائی کی موجود گی میں متوفی بھائی کے لڑکے لڑکیاں اورتیسرے طبقہ میں چچا کی موجود گی میں متوفی کے چچے کی اولاد (ہذاالقیاس )وارث قرار دئیے جائیں گے۔
بہر کیف اس قسم کی متعدد جزئیاں پیدا ہوسکتی ہیں جن کو کوئی صاحب عقل سلیم تسلیم نہیں کرتا تو صرف پوتے کی محرومی وراثت کا ڈھنڈورا پیٹنا محض خواہش کا بھوت سیدھا کرنے کےلئے ہی ہے پس مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن مجید کے احکام کو بسر وچشم تسلیم کریں اوران کے خلاف ہنگامہ آرائی کی بدعات کو خیر باد کہہ دیں اورسچے مسلمانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے
علمی نکتہ آیت مجیدہ میں طبقہ اوٰلی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے بعض کے حقوق تصریحاًذکر فرمائے اوربعض ورثاءکے لئے تلویح سے کام لیا گیا۔
تصریح ماں اورباپ کے حقوق انفرادی صورت میں اور اولاد کی موجود گی کی صورت میں جداجدامعین فرمادئیے اسی طرح ایک لڑکی اورمتعدد لڑکیوں کے حقوق فرضیہ کی تصریح فرمادی ہے لیکن اگر صرف ایک لڑکا ہو یامتعدد لڑکے ہوں تو ان کو تصریحابیان نہیں فرمایا۔
تلویح ایک لڑکا یا متعددلڑکے ہوں تو ان کا حق تلویحاً بیان فرمایا ہے چنانچہ ایک مقام پر لڑکے اورلڑکیوں کی تقسیم میں فرمایا مرد کو عورت سے دوگنا دیاجائے لِلذَّکَرِمِثْلَ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ اوردوسری جگہ صرف ایک لڑکی کے متعلق فرمایا اِنْ کَانَتْ وَاحِدَ ةً فَلَھَا النَّصْف یعنی اگر ایک ہو تو اسے نصف دیا جائے تو چونکہ پہلے فرماچکا ہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دیا جائیگا تو صاف نتیجہ نکلا کہ صرف ایک لڑکا ہوگا تو پوری جائداد کا وارث ہوگا اورنیز چونکہ یہ فرمایا کہ لڑکے اورلڑکیاں وراثت میں ایک اوردو کی نسبت رکھتے ہیں تو معلوم ہوگیا کہ صرف لڑکیاں ہوں گی تو آپس میں مساوی ہوں گی اورصرف لڑکے ہوں گے تو وہ بھی آپس میں مساوی طور پر تقسیم کریں گے۔
یُوْرَثُ کَلاَلَةًکلالہ کا لغوی معنی احاطہ ہے چنانچہ تاج کو اکلیل اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ سر پر محیط ہے اوراس بنابر کل کو کل کہا جاتا ہے کہ و ہ تمام عدد پر محیط ہے پس کلالہ ان رشتہ داروں کو کہا جائے گا جو اصل نسبت کے محیط ہیں اورچونکہ اصل سلسلہ نسب ہوتا ہے دادا پھر باپ پھر بیٹا پوتا تو پس جو اس سلسلہ طولی کے گرد وپیش رشتہ دار ہوتے ہیں جو ا س کو محیط ہوتے ہیں ان کو کلالہ کہاجاتا ہے پس طولی قرابت کے علاوہ جس قدر عرضی قرابت ہوگی ان سب پر کلالہ کا اطلاق ہوگا۔
ائمہ معصومین سے مروی ہے کہ کلالہ سے مراد بھائی بہنوں کا رشتہ ہے نیز کلالہ مرنے والے کو بھی کہہ سکتے ہیں جبکہ اس کاطول رشتہ مغفور ہو یعنی اس کے باپ دادا اوربیٹے پوتے موجود نہ ہوں اوراس کے وارثوں کو بھی کلالہ کہہ سکتے ہیں اوراس کا اطلاق واحد وجمع اورمذکرومونث سب پر صحیح ہے کیونکہ یہ مصدر ہے نیز آیت مجیدہ میں جوکلالہ کی وراثت کا تذکرہ ہے اس سے مراد صرف مادری بھائی بہنیں ہیں اوراسی سورہ کے آخر میں جہاں کلالہ کا ذکر آیا ہے وہاں پدری ومادری یاصرف پدری بھائی اوربہنیں مراد ہیں۔
غَیْرَ مُضَآر یعنی اس کی وصیت وارثوں کےلئے باعث ضرر نہ ہویعنی تہائی ترکہ سے زیادہ نہ ہویاایسے قرضہ کا اس نے اقرار نہ کیا ہو جودرحقیقت اس پر نہ تھاکیونکہ وہ بھی وارثوں کےلئے باعث ضرر ہے۔
رکوع 13 سورہ النساء - قانون وراثت -زوج وزوجہ کی وراثت
وَلَکُمْ نِصْفُ ماَتَرکَ یعنی اگر عورت مرجائے اوراس کی اولاد نہ ہوتو شوہر کو اس کے کل ترکہ سے نصف ملے گا اوراگر عورت کی اولاد موجود ہو تو شوہر کو اس کے ترکہ سے ایک چوتھائی دیاجائے گا (عورت کی وصیتوں اورقرضوں کیادائیگی کے بعد)۔
وَلَھُنَّ الرُّبُعُ اوراگر مرد مرجائے اوراس کی اولاد نہ ہوتو عورت کو ایک چوتھائی اوراولاد کی صورت میں اٹھواں حصہ اس کو ملے گا۔
مسئلہ مرد کی منکوحہ عورتیں اگر ایک سے زیادہ ہوں تو وہ سب اس چوتھائی یا اٹھوں حصہ میں برابر کی شریک ہوں گی
روایات
- استبصار میں باسناد خود حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ عورت مرد کے مکان کی لکڑیوں وغیرہ کی وارث ہوگی اس کی زمین کی وارث نہ ہوگی تو محمد بن مسلم راوی حدیث نے وجہ پوچھی کہ یہ کیسے فرع کی وارث ہے اوراصل کی نہیں تو آپ نے فرمایا کہ وہ نسب کے لحاظ سے مرد کی وارث نہیں ہے بلکہ و ہ تو دوسری قوم سے ائی ہوئی ہے لہذا وہ فرع کی وارث ہوگی نہ کہ اصل کی کیونکہ وہ خود اس کے اصل سے نہیں بلکہ اس کی قرابت فرعی ہے لہذااسکی وارثت بھی فرعی ہوگی اورفرمایا اس لئے تاکہ اس عورت کی وجہ سے کوئی دوسرا ان کی جائیداد میں حصہ دار نہ بن جائے۔
- بروایت حماد بن عثمان آپ نے فرمایا عورت مکان کی لکڑیوں وغیرہ کی قیمت سے وارث ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ کہیں اورجگہ شادی کرے تو پھر اس کی وجہ سے اس کے پہلے شوہر کے ورثاءکے مال میں اس کے پچھلے لواحقین شامل ہوکر ان کی میراث کو فاسد کردیں گے۔
- نیز آپ نے میسرہ کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورتوں کو مکان کی لکڑیوں اور دیگر آلات کی قیمت سے حصہ دیا جائے گا اور دیگر جائیداد (غیر منقولہ) سے اس کو وراثت نہ ملے گی سائل نے پوچھا کہ کپڑے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کپڑے ان کےلئے ہیں پھر سائل نے پوچھا کہ یہ کیسے حالانکہ ان کےلئے ۴/۱ یا ۸/۱ مقرر شدہ ہے تو فرمایا کہ ان کی وراثت نسب کی طرف سے تو فرمایا کہ ان کی وراث نسب کی طرف سے تو ہے نہیں بلکہ وہ تو باہر سے آئی ہے اور یہ میں اس لئے کہا کہ ہے وہ بعد میں شادی کرے گی تو اس کا شوہر یا اس کی اولاد آکر اس کے سابق شوہر کے ورثا کےلئے رکاوٹ کا باعث بن جائیں گے
- موسٰی بن بکر کہتا ہے میں نے زرارہ سے دریافت کیا کہ بکیر سے روایت ہے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا عورت اپنے شوہرکی گھر کی زمین بلکہ جملہ زمینوں کی وارث نہیں ہوسکتی ہاں اگر مکان یا درخت یا لکڑیاں ہوں تو اس کو اپنا حصہ ان کی قیمت سے دیاجائے گا اورنفس زمین سے اس کو کچھ بھی نہ دیا جائے گا یہ سن کر زرارہ نے کہا واقعی ایسا ہی ہے اورا س میں شک نہیں بہرکیف اس قسم کی روایات بہت زیادہ ہیں کہ عورت مرد کے ترکہ سے زمین کی وارث نہیں ہو سکتی باقی تمام اس کی مترد کہ چیزوں کی وارث ہوتی ہے البتہ مکانات اوراشجار یا زمین کے علاوہ جس قدر غیر منقولہ اشیاءہیں ان کی قیمت سے اس کو حصہ دیاجائیگا اوراس کی وجہ خود آئمہ طاہرین نے بیان فرمادی ہے اورجن بعض روایات میں عورت کا ہر چیز سے وارث ہونا مذکور ہے ان کو علمائے امامیہ نے تقیہ پر محمول کیاہے احادیث معصومین میں مطلقاً عورت کو شو ہر کی زمین کی وراثت سے محروم کیاگیا ہے اس میں فرق نہیں کہ عورت صاحب اولاد ہو یا نہ ہو پس قرآن مجید میں لَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّاتَرَکْتُمْ یعنی ان کو چوتھائی ہے تمہارے ترکہ سے اولاد نہ ہونے کی صورت میں وَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّاتَرَکْتُمْ یعنی ان کےلئے اٹھواں حصہ ہے تمہارے ترکے سے اولاد ہونے کی صورت میں ان مقامات پر ترکہ سے مراد زمین کے علاوہ باقی متردکہ اشیاءمیں اورچونکہ احادیث متواترہ اس باب میں وارد ہو چکی ہیں لہذا قرآن کے عمومی حکم کے لئے یہ باعث تخصیص ہوں گی اوردوسری طرف مرد عورت کے تمام ترکہ سے اپنے مقرر حصہ کا وارث ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے لئے تخصیص کہیں وارد نہیں لہذا قرآنی حکم اپنے عموم پر باقی رہے گا اورعورت کا مرد کی زمین سے وارث نہ ہونا یہ صرف مذہب شیعہ کا فتویٰ ہے اوراس کے مختصات میں سے ہے
مسئلہ نمبر 1 : عورت ومرد کی وراثت تینوں طبقوں کےساتھ چلی جاتی ہے صرف اولاد کی موجود گی میں ان کو ادٰنی حصہ یعنی مرد کو چوتھائی اورعورت کو آٹھوں حصہ دیا جاتا ہے اورباقی ہر صورت میں ان کو اعلٰی حصہ یعنی مرد کو نصف اورعورت کو چوتھائی دیا جاتاہے
مسئلہ نمبر 2 : وارث اگر زوجہ اوراولاد ہو تو زوجہ۸ / ۱ اورباقی سب اولاد کو ملے گا اگر صرف لڑکا ہو تو وہ ساری باقی جائیداد کا مالک ہو گا اوراگر ایک لڑ کی ہوتو۳/۲ باقی بطور رولین گی بہر کیف ساری جائیداد ان کو ملے گی اوروہ برابر تقسیم کریں گے۔
مسئلہ نمبر 3: وارث اگر شوہر اوراولاد ہو تو شوہر کو ۴/ ۱ حصہ اورباقی کی وارث حسب سابق اولاد ہو گی۔
مسئلہ نمبر 4 : وارث زوجہ اورماں ہو تو زوجہ کو۴/ ۱ حصہ اورباقی سب ماں کو ملے گا۳/ ۱ حصہ فرض سے اورباقی بچا ہوا حق قرابت سے اس کو دیا جائے گا۔
مسئلہ نمبر 5 : وارث زوجہ اورباپ ہو ں تو۴/ ۱ زوجہ کو اورباقی سب باپ کو بحق قرابت ملے گا۔
مسئلہ نمبر 6 : وارث زوجہ اورماں باپ دونوں ہوں تو۴/ ۱ زوجہ کو۳/ ۱ ماں کو اورجو باقی بچے گا یعنی۲۱/ ۵ حصہ وہ باپ کو دیا جائے گا بشرطیکہ ماں کے حاجب یعنی میت کے دو سے زیادہ بھائی موجود نہ ہوں ورنہ ماں کو صرف۶/ ۱ دیا جائے گا اورباقی سب باپ کو ملے گا
مسئلہ نمبر 7 : وارث شوہر اورماں ہوں تو شوہر کو۲/ ۱ اورباقی ماں کو یعنی۳/ ۱ حق فرض اورباقی ۶/ ۱ بحق قرابت ملے گا
مسئلہ نمبر 8 : وارث شوہر اورباپ ہوں تو شوہر کو۲/ ۱ اورباقی سب باپ کو بحق قرابت ملے گا
مسئلہ نمبر 9 : وارث شوہر اورماں وباپ دونوں ہوں تو شوہر کو۲/ ۱ اورماں کو۳/ ۱ اورباقی سب باپ کو یعنی ۶/ ۱ حصہ بحق قرابت ملے گا بشر طیکہ متوفی کے کم ازکم دوبھائی یا ایک بھائی اوردوبہنیں یا چار بہنیں پدری مادری یا صرف پدری پیچھے موجود نہ ہوں کیونکہ میت کے باپ کی موجود گی میں یہ جب ہوں گے تو ماں کےلئے ۶/ ۱ حصہ سے زائد کے حاجب ہوں گے لہذا وہ اس صورت میں رو کے حصہ سے بھی محروم رہے گی
مسئلہ نمبر 10 : وراث شوہر ماں وباپ دونوں ہوں اورمتوفی کے دوبھائی یا ایک بھائی اوردونہنیں یاچار بہنیں پدری مادری یا صرف پدری موجود ہوں تو اس صورت میں شوہر کو۲/۱ اورماں کو۶/۱ اورباقی یعنی کل جائداد کا۳/۱باپ کو ملے گا کیونکہ میت کے بھائی بہنوں کے اخراجات کی کفالت صرف اس کے باپ کے ذمہ ہی ہے یہی تو وجہ ہے کہ اگر میت کے مادری بھائی بہنیں موجود ہوں تو ماں کے حصہ میں کمی نہیں پڑتی
مسئلہ نمبر 11 : وارث زوجہ اورلڑکے لڑکیاں یا صرف لڑکے اورماں باپ دونو ہوں تو زوجہ کو۸/۱ ماں یا باپ کو۶/۱ اورباقی اولاد کوملے گا جس کو حسب سابق تقسیم کریں گے
مسئلہ نمبر 12 : وارث زوجہ لڑکے لڑکیاں یا صرف لڑکے اورماں باپ دونوہوں تو زوجہ کو۸/۱ ماں کو۶/۱ باپ کو۶/۱ اورباقی اولاد کو بدستور سابق ملے
مسئلہ نمبر 13 : مسئلہ وارث زوجہ لڑکی اورماں یا باپ ہوں تو زوجہ کو۸/۱ لڑکی کو۲/۱ اورماں یا باپ کو۶/۱ ملے گا اورباقی بحق قرابت ماں یا باپ اورلڑکی پر ان کے حصص کے مطابق رو ہوگا یعنی 24میں سے ۳ حصے زوجہ کو ۲۱ حصے لڑکی اور۴ حصے ماں یا باپ کو دیئے جائیں گے باقی پانچ حصے بچے ہیں اورماں یا باپ اورلڑکی کے حصوں میں ایک اورتین کی نسبت ہے پس یہ پانچ ماں یا با پ اورلڑکی پر ایک اورتین کی نسبت سے تقسیم ہوں گے کل جائداد 94حصوں پر تقسسیم ہوگی زوجہ کو ۲۱ لڑکی کو ۳۶ اورماں یا با پ کو ۱۲ملیں گے۔
مسئلہ نمبر 14 : وارث زوجہ لڑکی اورماں با پ دونوں ہوں زوجہ کو۸/۱ لڑکی کو ۲/۱ اوربا پ کو۶/۱ اورماں کوبھی۶/۱ اورباقی ماں باپ اورلڑکی پر رو بحق قرابت ہوگا کل جائداد کے 120حصے ہوں گے 15زوجہ کو 23لڑکی اور21 ماں کو اور21باپ کو ملیں گے کیونکہ حق قرض سے کل پانچ بچے تھے جو حسب حصص لڑکی کو تین اورماں اوربا پ کے حصوں میں ایک ایک کا بحق قرابت رد کا اضافہ ہوا بشرطیکہ ماںکے لئے ۶/۱ سے زائد کے حاجب موجود نہ ہو۔
مسئلہ نمبر 15 : وارث شوہر لڑکے لڑکیاں یا صرف لڑکے اورماں یا باپ ہو تو شوہر کو۴/۱ ماں یا باپ کو۶/۱ اورباقی اولاد کوبادستورسابق۔
مسئلہ نمبر 16 : وارث شوہر لڑکے لڑکیاں یا صرف لڑکے اورماں باپ دونوں تو شوہر کو ماں کو باپ کو اورباقی اولاد کو حسب دستور سابق۔
مسئلہ نمبر 17 : وارث شوہر لڑکی اورماں یا باپ ہوں تو شوہر کو۴/۱ ماں یا باپ کو۶/۱ اورباقی بحق قرابت لڑکی اورماں باپ پر حسب حصص رو ہوگا کل بارہ حصوں میں سے شوہر کو ۳لڑکی کو ۶ اورماں یا با پ کو ۲ ملیں گے اورایک باقی کو ماں یا باپ اورلڑکی اپنے حصوں کی نسبت سے تقسیم کریں گے
مسئلہ نمبر 18 : وارث شوہر لڑکی اورماں باپ دونوں ہوں تو شوہر کو۴/۱ ماں کو۶/۱ باپ کو۶/۱ اورجو بچے گا وہ لڑکی کو ملے گا اس صورت میں لڑکی پر نقص وارد ہوگا کیونکہ اس کافرضی حصہ۲/۱ تھا لیکن اسے اس صورت میں بارہ حصوں میں سے پانچ مل رہے ہیں جو۲/۱ سے کم ہے۔
مسئلہ نمبر 19 : وارث زوجہ دو یا دو سے زائد لڑکیاں اورماں یا باپ ہوں تو زوجہ کو۸/۱ ماں یا باپ کو۶/۱ اورلڑکیوں 2 بٹا 3کو ملے گا اورجو باقی بچے گا وہ سابق حصص کے مطابق لڑکیوں اورماں یا باپ کو حق قرابت سے رد میں ملے گا گویا 120میں سے 15زوجہ کو اور80بحق فرض لڑکیوں کو اور20 بحق فرض ماں یا باپ کو ملیں گے اورباقی ایک اورچار کی نسبت سے چار لڑکیوں کو اورایک ماں یا باپ کو دیاجائے گا پس لڑکیوں کا کل حصہ 84اورماں یا باپ کا حصہ 21ہوجائے گا
مسئلہ نمبر 20 : وارث زوجہ دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں اورماں اورباپ دونوں ہوں کل 24حصوں میں سے ۳زوجہ کو اور۴باپ کو ملیں گے اورباقی 13لڑکیوں کو ملیں گے اس صورت میں لڑکیوں کا حصہ فرضی 16ہونا چاہیے تھا لیکن ان کو اپ نے حصے فرضی سے کم مل رہاہے
مسئلہ نمبر 21: وارث شوہر دویا دو سے زیادہ لڑکیاں اورماں یا باپ ہوں تو شوہر کو۴/۱ ماں یا باپ کو۶/۱ یعنی 24میں سے ۶ شوہر کو اور۴ ماں یا باپ کو اورباقی ۴۱لڑکیوں کو ملیں گے جو فرضی حصے سے ۲کم ہوتے ہیں
مسئلہ نمبر 22 : وارث شوہر دویا دو سے زیادہ لڑکیاں اورماں باپ دونوں ہوں تو شوہر کو 24 میں سے ۶ اورماں کو ۴ اورباپ کوبھی ۴ باقی ۰۱حصے لڑکیوں کو ملیں گے جو ان کے فرضی حصہ سے ۶کم ہیں
مسئلہ نمبر 23 : عورت ومرد ایک دوسرے کے وارث ہوں گے خواہ نکاح کے بعد ان کی رسم شادی ادانہ بھی کی گئی ہو اوردخول بھی نہ ہوا ہو البتہ اگر مرد مرض موت میں کسی سے شادی کرلے اوربلادخول مرجائے تو عورت اس کی وارث نہ ہوسکے گی لیکن اگر تندرست ہو کر پھر کسی حادثہ سے اس کی موت بلادخول واقع ہوئی تو عورت اس کی وارث ہو گی اورعورت کی موت کی صورت میں یہ اس کا وارث ہوگا
مسئلہ نمبر 24: طلاق رجعی کی صورت میں عدت کے اندر اندر عورت ومرد ایک دوسرے کے وارث ہوں گے
طبقا ت وراثت کی تفصیل
قرآن مجید میں قانون وراثت کے متعلق چند آیات ہیں جن سے تمام فرعی جزی مسائل اخذکئے جاتے ہیں۔
- سورہ نساءکی آیت 7 لِلرّجَالِ نَصِیْب الخ
- اسی سورہ کی آیت 11یُوْصِیْکُمُ اللّٰہ الخ
- آیت 12 وَلَکُمْ نِصْفُ ماَتَرَکَ الخ
- اسی سورہ کی آخری آیت176 یَسْتَفْتُوْنَکَ الخ
- سورہ انفال کی آخری آیت 75 وَاُوْلُوْاالْاَرْحَامِ الخ
- سورہ احزاب آیت 6 وَاُوْلُوْالارْحَامِ الخ
طبقہ اوٰلی
جو سب سے زیادہ قریب ہیں ماں با پ اولاد اوراولاد کی عدم موجود گی میں اولاد کی اولاد جہاں تک چلے جائیں اورہر درجہ میں قریب کی موجود گی بعید کے لئے وراثت سے مانع ہوگی اوراولاد کی اولاد بھی اولادی کہلاتی ہے لہذا اسی پہلے طبقہ میں اس کا شمار ہے
دوسرا طبقہ
بھائی بہنیں اوردادا دادی اورنانا نانی اوران کی عدم موجود گی میں باپ کا دادا دادی اورنانانانی اورماں کا دادا دادی اورنانانانی وعلی ہذالقیاس ان کے اورمیت کے درمیان ایک ہی واسطہ ہے اوروہ ماں اورباپ ہیں ماں نانا اورنانی کو ملاتی ہے باپ دادا اوردادی کو ملاتا ہے اوریہی دونوں بھائی بہنوں کی کو میت سے ملاتے ہیں پس بھائی بہنوں کی عدم موجود گی میں ان کی اولاد اوران کے بعدانکی اولاد کی اوراولاد جہاں تک چلے جائیں بھائی بہنوں کے قائم مقام ہوں گے بھائی کی اولاد بھائی کا حصہ لے گی خواہ ایک کی ہو یا زیادہ کی خواہ ایک ہو یازیادہ خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اوراگر دونوں ہوں تو آپس میں ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے اوربہن کی اولاد بہن کا حصہ لے گی خواہ ایک ہو یا زیادہ اورخواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اورآپس میں ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے اوران کی عدم موجودگی میں ان کی اولاد کی بھی یہی صورت ہو گی لیکن ہر درجہ میں جو زیادہ قریب ہوگا وہ دور والے کےلئے وراثت سے مانع ہوگا اوراس طبقہ میں صرف مادری بھائی بہنیں یا ان کی اولاد میں اپنا حاصل شدہ حصہ برابر تقسیم ہو گا یہاں ایک اوردودو کی نسبت کالحاظ نہ ہوگا۔
تیسراطبقہ
چچے ماموں اوران کی بہنیں ان کو میت سے دوواسطوں کے ذریعے سے قرب خاص ہے ایک ماں وباپ کا واسطہ دوسرا دادا اوردادی یا نانا ونانی کا واسطہ اس طبقہ میں ماموں اوران کی بہنوں میں اپنا حصہ برابر تقسیم ہوگا اوراسی طرح ان کی عدم موجودگی میں ان کی اولاد لڑکے لڑکیاں اپنے حصے کو آپس میں برابر تقسیم کریں گے نیز وہ چچے اورپھوپھیاں جو باپ کے صرف مادری بھائی بہن ہوں وہ اوران کی اولاد بھی اپنے حصے کو برابر آپس میں تقسیم کریں گے یہاں ایک اوردو کی نسبت نہ ہوگی نیز ہر درجہ میں قریب کی موجودگی دور والے کے لئے وراثت سے مانع ہوگی۔
مسئلہ بھائی بہنوں کی چونکہ تین قسمیں ہیں ۱ مادری ۲پدری پدری ومادری پس جس مقام پر یہ تینوں قسمیں ہوں تو صرف پدری بھائی بہنیں وراثت سے محروم ہوں گے لیکن مادری بھائی بہنوں کو اپنا حصہ ملے گا اسی طرح پدری ومادری بھائی بہنوں کی اولاد کی موجودگی میں صرف پدری بھائی بہنوں کی اولاد محروم ہوگی لیکن مادری بھائی بہنوں کی اولاد کو اپنا حصہ ملے گا
مسئلہ اگر ایک قسم کے بھائی یا بہنیں موجود ہوں اوردوسری قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد موجود ہو تو وارث صرف بھائی بہنیں ہوں گے خواہ صرف مادری ہی کیوں نہ ہوں اوربھائی بہنوں کی اولاد محروم ہوگی خواہ وہ پدری ومادری بھائی بہنوں کی اولاد ہی کیوں نہ ہوں کیوں کہ قرب کی موجود گی میں بعد محروم ہو اکرتا ہے
مسئلہ تیسرے طبقہ میں بھی صرف پدری قرابت دار پدری ومادری قرابت داروں کی موجود گی میں محروم ہوا کرتے ہیں اوران کی عدم موجود گی میں ان کے قائم مقام ہوتے ہیں لیکن مادری قرابت دار محروم نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنا حصہ وصول کریں گے اوران کی اولاد کی بھی یہی کیفیت ہوگی۔
مسئلہ اقرب کی موجود گی میں بعد کو وراثت نہ ملے گی مثلاً چچا کی موجود گی میں کسی چچا یا موں یا ان کی بہنوں کی اولاد وارث نہ ہوگی خواہ چچا باپ کا صرف مادری بھائی ہی کیوں نہ ہو اورجن چچوں اورماموں کی اولاد محروم ہے خواہ وہ پدری و مادری کیوں نہ ہوں بلکہ ماموں یا اس کی بہن کی موجود گی میں چچے کی اولاد محروم ہوگی خواہ وہ صرف مادری رشتہ رکھتے ہوں اوراس کا رشتہ پدری ومادری ہو کیونکہ و ہ اقرب ہے اور یہ اس سے دور ہیں البتہ اس مقام پر صرف ایک مسئلہ ہے جو اجماعاً اس قاعدہ سے خارج ہے اوروہ یہ کہ اگر میت ایک چچازاد بھائی اورایک چچاچھوڑ جائے جبکہ چچاصرف اس کے باپ کا پدری بھائی ہو اورچچا زاد پدری ومادری بھائی کا بیٹا ہو تو کہتے ہیں وارث چچازاد ہو گا اورپدری چچا محروم ہوگا اس ایک مسئلہ کے علاوہ باقی ہو مقام پر یہ قاعدہ جاری وساری ہے کہ اقربہ کی موجود گی میں ا بعد کو کچھ نہ دیاجائے گا۔
مسئلہ اگر میت کے چچے وماموں اوران کی بہنیں اوران کی اولاد موجود نہ ہوتو پھر میت کے ماں باپ کے چچے ماموں یا ان کی اولاد ان کے قائم مقام ہوں گے اوریہ سلسلہ اوپر کی طرف چلاجائے گا اورقریب کی موجود گی میں بعید محروم ہوگا۔
مسئلہ شوہر وبیوی ہر طبقہ والوں کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں اوراولاد کی عدم موجود گی میں ان کو فرض اعلٰی ملے گا یعنی شوہرکو1/4 اورزوجہ کو1/4
مسئلہ تیسے طبقہ کی وراثت آیت مجیدہ واُو لُوْالْاَرْحَامِ کی رو سے ہے اورپہلے دونوں طبقوں میں اس آیت مجیدہ کے علاوہ خصوصی نصوص بھی وارد ہیں چنانچہ پہلے طبقہ کےلئے آیت یُوْصِیْکُمُ اللّٰہ اوردوسرے طبقہ کےلئے اس سے بعد کی آیت اورسورہ نساءکی آخری آیت موجود ہیں۔
وراثت کے طریقے
وراثت پانے کے چار طریقے ہیں
- فرض ان کے حقدار وہی ہیں جن کے حقوق خداوند کریم نے اپنی پاک کتاب میں معین فرمادئیے ہیں اوروہ چار ہیں پہلی ماں اس کا فرض۶/۱ حصہ ہے اولاد کی موجود گی میں اور۳/۱ حصہ ہے جبکہ میت کی اولاد نہ ہو بشر طیکہ اس کے ۶/۱ سے زیادہ کے مانع موجود نہ ہوں اوروہ میت کے پدری ومادری یا فقط پدری دو سے زیادہ بھائیوں کی موجود گی یا ایک بھائی اوردوبہنیں یا چار بہنیں ہیں اوردوسرے صرف فرض کے حقدار ہیں میت کے مادری بھائی جبکہ پہلا طبقہ موجود نہ ہو پس یہ ایک ہو تو اس کا فرض ۶/۱ اورزیادہ ہوں تو ان کا فرض ہے۳/۱ جس کو وہ زن ومرد آپس میں برابر تقسیم کریں گے چنانچہ فرماتا ہے۔ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ ٱمْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ فَإِن كَانُوۤاْ أَكْثَرَ مِن ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِى ٱلثُّلُثِ یعنی اگر وہ شخص کلالہ ہے یعنی اس کا وارث طولیٰ رشتہ میں یعنی پہلے طبقہ میں کوئی نہیں خواہ وہ مرنے والا مرد ہو یا عورت اوران کا ایک بھائی یاایک بہن ہو ماردری تو ان میں سے ہر ایک کو۶/۱ حصہ دیاجائے گا اوراگر بھائی یا بہنیں ایک سے زیادہ ہوں مادری وہ سب کے سب ۳/۱میں شریک ہیں گویا ان کی باہمی تقسیم زن ومردکے لئے ایک اوردو کی نسبت کا لحاظ نہیں بلکہ وہ سب برابر کے شریک ہیں اس مقام پر بھائی یا بہنیں صرف مادری مراد ہیں کیونکہ اسی سورہ کے آخر میں بھی کلا لہ کی وراثت کا ذکر ہے اوروہاں فرمایا ہے کہ اگر ایک بہن ہو تواس کا فرض ۲/۱ اورزیادہ ہوں تو ان کا فرض۳/۲ اوراگر زن ومرد ہوں تو آپس میں ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے اوروہاں بھائی بہنوں سے مراد ہے پدری ومادری یا ان کی عدم موجود گی میں صرف پدری اورتیسرے فرض کی حقدار زوجہ اورچوتھا شوہر ہے۔
- وراثت کا دوسرا طریقہ قرابت ہے جن کی وراثت اُولُوالْاَرْحَامِ والی آیت سے ثابت ہے۔
- وراثت کا تیسراطریقہ کسی وقت فرض اورکسی وقت قرابت یہ باپ بیٹوں اورپدری ومادری یا صرف پدری بہنوں کے لئے ہے مثلاً باپ اولاد کی موجود گی میں فرض کا مالک یعنی ۶/۱ حصہ کا اوران کی عدم موجود گی میں وہ قرابت سے وارث ہوتا ہے اوربیٹیاں میت کے ماں باپ کی موجو دگی میں فرض کی مالک ہیں اوراپنے بھائیوں کی موجود گی میں قرابت سے وراثت پاتی ہیں اسی طرح مادری پدری بہنیں صرف مادری بہنوں کی موجود گی میں فرض کی مستحق ہوتی ہیں اوراپنے بھائیوں کی موجودگی میں قرابت سے حصہ لیتی ہیں
- چوتھا طریقہ فرض اورقرابت دونو وہ صاحبان فردض ہیں جن کو فروض سے بچا ہوا بطور رو کے تقسیم ہوتا ہے پس وہ فرض کے حقدار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے حصے قرآن مجید نے معین فرمادئیے ہیں اورباقی بطور رو ان کو ملتا ہے آیت اُولُوالْاَرْحَامِ کی روسے کیونکہ آیت مجیدہ میں یہ نہیں کہ رشتہ میں قرب وبعد کا لحاظ فروض کے نہ ہونے کی صورت میں ہے بلکہ آیت مطلق ہے اورہر قریبی پر صادق ہے اورجو افراد قرابت میں اولی ہوں گے وہ اس آیت کی روسے حصہ دار بنیں گے خواہ اس سے پہلے وہ فرض سے لے چکے ہوں یانہ لے چکے ہوں بنابریں علمائے امامیہ کے نزدیک تعصیب باطل ہے یعنی یہ کہ فروض سے بچا ہوا مال ان کے بعد والے موجودہ طبقہ میں حصب قرابت تقسیم ہو۔
مسئلہ عول کا بطلان
جس طرح ہمارے نزدیک تعصیب کا قول باطل ہے اسی طرح عول کا قول بھی باطل ہے یعنی جب معین شدہ فروض قرآنی اصل ترکہ کے واجب التقسیم عدد سے بڑھ جائیں جسطرح سائل گزشتہ میں مسئلہ نمبران 18، 20، 21، 22 کی مثالوں میں ہے تو عول کے قائل یہ کہتے ہیں کہ عدد واجب التقسیم پراسی قدر حصص بڑھا دئیے جائیں جتنوں کی کمی پڑتی ہے پھر ہر صاحب کو اپنا معین حصہ دیاجائے اوراس اعتبار سے کمی تمام وارثوں پر اپنے اپنے حصص کے مطابق وارد ہوگی مثلاً مسئلہ 18 میں شوہر ماں باپ اورلڑکی موجود ہے تو شوہر۴/۱ کا ماں۶/۱ کی باپ۶/۱ کا لڑکی ۲/۱ کی وارث تھی اور۴/۱پر۶/۱ اور۲/۱ کےلئے واجب التقسیم عدد ہے 12لیکن وارثوں کے حصے شوہر کو۳ ماں کو۲ باپ کو۲ اورلڑکی ۶ اگر دئیے جائیں تو ناممکن ہے کیونکہ یہ بنتے ہیں 13اورعدد وا جب التقسیم میں ایک کی کمی ہے لہذا وہ کہتے ہیں کہ اسی کمی کو عددواجب التقسیم پر بڑھاکر عدد واجب التقسیم13 قرار دیاجائے اور ۲/۱ ۶/۱ اور۴/۱کی نسبت کا حساب 12سے کیا جائے اوراسی لحاظ سے اس جائداد کے۳۱ حصوں میں اپنا اپنا حصہ ہر ایک کو دیا جائے اس صورت میں ہر وارث پر اپنی حثییت سے کمی وارد ہوگی اوراسی طرح مسئلہ نمبران 20، 21، 22 میں بھی عددواجب التقسیم پر کم ہونے والے عدد کو جمع کرکے ہر وارث کو اپنا فرض حصہ عدد واجب التقسیم کی نسبت سے دیا جائے گا لیکن اس صورت میں خدائے دانا وبینا کے علم پر اعتراض وارد ہوگا کہ اس نے اپنی کتاب میں ایسے حصے کیوں مقرر فرمادئیے جبکہ حساب کے لحاظ سے عد واجب التقسیم میں گنجائش ہی نہیں تھی۔
اسی بناءپر علماءامامیہ کے نزدیک عول کا قول باطل ہے اورآئمہ طاہرین علیہم السلام نے اس کا حل یہ فرمایا ہے کہ اس قسم کے فروض کے جمع ہونے کی صورت میں فروض کا جائزہ لیا جائے پس جن قرضوں کا خداوند حکیم نے دوسرا بدل مقرر فرمایا ہے وہ اپنے بدل سے پیچھے نہ ہٹیں گے اورجن فرضوں کا بدل مقرر نہیں فرمایا وہ ہٹائے جائیں گے۔
مثلاً شوہر کے لئے ۲/۱حصہ مقرر ہے لیکن اگر میت کی اولاد موجود ہو تو اس کا فرض پیچھے ہٹا کر۴/۱ کردیا جاتا ہے جو پہلے فرض کا بدل ہے اب اس کے کم ازکم حصے کی حد مقرر ہو گئی جس سے اسے پیچھے نہیں ہٹا یا جاسکتا اسی طرح عورت کا ہے لیکن اولاد کی موجود گی اسے پیچھے ہٹا کر ۸/۱ تک کر دیا جاتا ہے اوریہ اس کا کم ازکم حصہ ہے کہ اس کو اس سے پیچھے نہیں ہٹایا جاسکتا۔
وعلی ہذاالقیاس ماں کے ۳/۱ کابدل۶/۱ اولاد کی موجود گی میں ہے اورباپ کےلئے اولاد کی موجود گی میں حصہ مقرر ہے جسے اورکم نہیں کیا جاسکتا اسی طرح مادری بھائی بہنوں میں سے ایک کے لئے ۶/۱اورزیادہ کے لئے ۳/۱کی حدود مقرر ہیں جن سے کم نہیں کیا جاسکتا۔
بخلاف اس کے ایک لڑکی یا چند لڑکیا ں ان کےلئے انفرادی صورت میں ۲/۱ یا۳/۲ کی زیادہ سے زیادہ فرضی حدیں بتائی گئی ہیں لیکن طبقہ میں ورثاءکی کثرت کے بعد یقیناً ان کو کل جائیداد سے یہ حصہ نہیں مل سکتا اورانہیں اس حق سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اورخداوند کریم نے اپنی مقدس کتاب میں ان کے کم ازکم حصہ کی حدمقرر نہیں فرمائی اس طرح پدری مادری یا صرف پدری بہنیں ان کا بھی۲ /۱ یا۳/۲زیادہ سے زیادہ حصہ انفرادی صورت میں مقرر کیا گیا ہے لیکن ورثاءکی کثرت کے بعد کم ازکم حصہ قرآن مجید نے بیان نہیں فرمایا پس معلوم ہوا کہ جب فروض زیادہ ہوجائیں اورعدد واجب التقسیم میں سے پورے نہ ہوسکیں تو کمی انہیں پر وارد ہوگی جن کےلئے کم ازکم مقدار مقرر نہیں کی گئی۔
چنانچہ منقول ہے ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص چاہے میں اس کے ساتھ حجراسود کے پاس جاکر مباہلہ کرنے کےلئے تیار ہوں اورمیرا دعوی ہے کہ خدانے اپنی کتاب میں ۲/۱ ۲/۱ اور۳/۱ کو کہیں جمع نہیں فرمایا اورنیز کہتے تھے کہ سبحان اللہ وہ اللہ جو ریگ صحراءکے ذرات کو جانتا ہے کیاوہ ایک عد دمیں ۳/۱اور۲/۱۳/۱ کے جمع ہو جانے کو کہتا ہے ۲/۱۲/۱ سے تو مال پورا ہوگیا ۳/۱پھر کہاں جائے گا اس پر زفر نے سوال کیاکہ فرائض میں سب سے پہلے عول کا قائل کون ہوا تو ابن عباس نے جواب دیا کہ وہ حضرت عمر تھے کہ جب فرائض جمع ہوگئے تو کہنے لگے خداکی قسم میں نہیں سمجھ سکتا ہے کہ تم میں سے خدانے کس کو مقدم اورکس کو موخر کیا ہے پس اس کا علاج میرے نزدیک یہ ہے کہ حصص کے لحاظ سے مال کو سب پر تقسیم کردوں اس کے بعد ابن عباس نے فرمایا خداکی قسم اگر اللہ کے مقدم کئے ہوئے کو تم لوگ مقدم کرتے اوراس کے موخر کئے ہوئے کو تم لوگ موخر کرتے تو عول کی نوبت نہ آتی زفر نے پوچھا کہ کون مقدم اورکون موخر ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا ہر وہ فریضہ جس کو خدانے کم کرکے ایک دوسری حد تک پہنچا دیا ہے وہ ہے مقدم اورہر وہ فریضہ جس کے لئے اپنی جگہ سے ہٹنے کے بعد دوسری حد معین نہین بلکہ وہ باقی رہی ہوئی چیز کا حقدار ہے تو وہ ہے موخر مثلا شوہر کا فریضہ مقدم ہے کیونکہ معارض کے وقت اپنی جگہ سے ہٹ کر اپنا دوسرا معین مقام لے لیتا ہے اوراسی طرح زوجہ اورماں کا فریضہ لیکن بیٹیوں اوربہنوں کے لئے ۲/۱اور۳/۲ کے فریضے ہیں اورجب دوسرے فروض ان کو اپنا جگہ سے ہٹادیں تو ان کی کمی کا آخری مقام معین نہیں بلکہ جوکچھ بچے گا لیں گی اوریہ ہیں موخر۔
پس جس مقام پر فروض اکٹھے ہو جائیں اوران میں سے بعض مقدم ہوں اوربعض موخرہوں تو پہلے مقدم فریضے نکال لئے جائیں گے اورمال میں سے جو کچھ بچے گا وہ موخر فریضے والوں کا ہوگا( شرح لمعہ ج۲ وتفسیر میزان نقلاً عن الکافی )۔
نیزصاحب میزان نے درمنثور سے بروایت حاکم وبہقی وغیرہ اس مضمون کی روایات نقل کی ہیں۔
افسوس کہ لوگوں نے قرآن کی تفسیر وتاویل کے لئے اہلبیت عصمت کا دروازہ چھوڑ دیا ورنہ اگر بفرمان رسول اُمت کا تمسک ثقلین سے ہو تا تو قرآن میں ان غلط تاویلات اورالٹے معانی کا سد باب ہوجاتا اورمت اسلامیہ کا شیرازہ منتشرنہ ہونے پاتا۔
روایت مذکور ہ میں ۲/۱اور۲/۱ اور۳/۱ حصص کے جمع ہونے کی صورت سے مراد ہے مثلاً میت کی پدری مادری یا فقط پدری ایک بہن اورایک شوہر اوردویا دوسے زیادہ مادری بھائی بہنیں ہوں تو پدری بہن کو۲/۱ اورشوہر کو۲/۱ اورمادری بھائی بہنوں کو۳/۱ ملنا چائیے لیکن واجب التقسیم عدد میں ان حصص کی گنجائش نہیں ہوسکتی کیونکہ۲/۱اور۲/۱سے مال پورا ہوجائے گا اوراگر صورت مذکورہ میں پدری بہنیں ایک سے زیادہ ہوں تو ان کا فرض ۳/۲ہے مادری بہنوں کے حصہ۳/۱سے ملا کر مال پورا ہو جائے گا پھر شوہر کے ۲/۱کی گنجائش نہ ہوگی نیز اگر مادری بہن صرف ایک بھی ہو تو ۶/۱حصہ ہوتا ہے اوروہ بھی زائدازمال بنتا ہے اوراگر شوہر کی بجائے زوجہ فرض کی جائے تو پدری بہنوں کے ایک سے زیادہ ہونے اورنیز مادریوں کے زیادہ ہونے کی صورت میں اس کے حصہ کی گنجائش بھی نہ رہے وعلی ہذالقیاس پس ان سب صورتوں میں حل کی صورت یہی ہے کہ جن کا قرآن میں کم ازکم حق مقرر شدہ ہے وہ مقدم ہیں اوران کو اپنا حق مقرر شدہ ہے وہ مقدم ہیں اوران کو اپنا حق پورا دیاجائے گا اورجن کے کم حصہ کی کوئی حد مقرر نہیں نقص ان پر داخل کیا جائے گا اورجن کے کم حصہ کی کوئی حد مقرر نہیں نقص ان پر داخل کیاجائے گا لہذاان صورتوں میں نقص صرف پدری بہنوں پر وارد ہوگا ورمادریوں کو اورشوہر یا زوجہ کو اپنا حصہ پورا دیا جایئکا۔
رکوع 13 سورہ النساء - قانون وراثت - طبقہ ثانیہ کی وراثت
اس مقام پر قرآن مجید نے طبقہ ثانیہ میں سے صرف مادری کلالہ کا ذکر فرمایا ہے اوراسی سورہ کے آخر میں پدری کلالہ کو ذکر کیا ہے اوراسی طبقہ ثانیہ میں دادا دادی اورنانا نانی اوران سے اوپر کا جدی سلسلہ اُوْلوالْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ کے قاعدہ کی روسے داخل ہے پس مناسب ہے کہ مختصر طور پر ان کی وراثت کاذکر کیا جائے تاکہ آخر سورہ میں پھر اس تفصیل کا اعادہ نہ ہو
مسئلہ۱) اگر وارث دادا یا دادی یا نانا یا نانی ہو تو سب مال اسی کو ملے گا اوراگر اکٹھے ہو جائیں تو باپ کے نسبت داروں کو۳/۲ اورماں کے نسبت داروں کو ملے گا۳/۱ پس باپ کے نسبت داراگر دونوں یعنی دادا اوردادی موجود ہوں تو آپس میں ایک اوردو کی نسبت سے لیں گے اور ماں کے نسبت دار آپس میں برابر تقسیم کریں گے اوراگر دادا یا دادی میں سے ایک ہو اور نانا یانانی میں سے بھی ایک ہوتو دادا یادادی کو۳/۲ اورنانا یا نانی کو۳/۱ دیا جائے گا
مسئلہ۲) اگر بھائی یا بہن تنہا ہوتو سب مال اسی کو ملے گا خواہ پدری مادری ہو یا مادری اوراگر تینوں قسمیں جمع ہو جائیں تو صرف پدری محروم ہوں گے اورمادری ایک بھائی یابہن کو۶/۱ اورباقی سب مال پدری مادری بھائی یابہن کو ملے گا صرف ایک بہن ۲/۱ حصہ فرض کے ساتھ اورباقی رو کے ساتھ لے گی جس طرح لڑکی کے لئے مذکور ہو چکا ہے اسی طرح صرف مادری بھائی یا بہن تنہاوارث ہونے کی صورت میں فرضی حصہ کے علاوہ باقی بطور رولیں گے
مسئلہ۳) اگر تینوں قسموں کے بھائی بہنیں متعدد ہوں تو صرف پدری محروم ہوں گے اورمادریوں کو ۳/۱ دیا جائے گا جو ان پر زن ومرد میں برابر تقسیم ہوگا اورمادری پدری بھائی بہنوں کو باقی دیا جائے گا جس کو وہ آپس میں عورت ومرد ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے
مسئلہ ۴) اگر ایک بہن پدری ومادری اورایک بہن صرف مادری موجود ہوں تو پدری کو۲/۱ اورمادری کو۶/۱ اورباقی بحق قرابت صرف پدری بہن پر رد ہو گا کیونکہ قرابت میں مادری وپدری اولیٰ ہے اوررد میں صرف قرابت کی اولویت کا لحاظ ہوتا ہے اسی طرح اگر مادری کلالہ متعدد ہو تو وہ۳/۱ کو آپس میں تقسیم کریں گے لیکن رد ان پر نہ ہوگا بلکہ باقی بچا ہوا صرف پدری بہن پر ردہو گا علی ہذالقیاس۔
مسئلہ ۵)اگر پدری ومادری بہن کی بجائے صرف پدری بہن اوراس کے ساتھ صرف مادری بھائی یا بہن ہوں تو کیا فرض سے بچا ہو ابحق قرابت فریقین پر تقسیم ہو گا یا صرف پدری پر تقسیم ہوگا اس میں اختلاف ہے لیکن قوت اس قول میں ہے کہ صرف پدری کو رو ملے کیونکہ فروض کی زیادتی کے وقت نقص بھی صرف پدری رشتہ پر وارد ہوا کرتا ہے اورامام محمد باقر علیہ السلام سے منقولہ روایت بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔
مسئلہ۶) اگر دادا دادی نانا نانی اورتینوں قسم کے بھائی بہنیں موجود ہوں تو صرف پدری بھائی بہنیں محروم ہوں گے اوراس کے بعد ترکہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا مادری قرابت کو۳/۱ دیاجائے گا جس کو نانا نانی اورمادری بھائی بہنیں آپس میں برابر تقسیم اورپدری قرابت کو ۳/۲حصہ ملے گا کہ دادا دادی اوربھائی بہنیں مذکرومونث ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے گویا نانا نانی مادری بھائی بہنوں کے برابر اوردادا دادی پدری بھائی بہنوں کے برابر شمار ہیں
مسئلہ ۷) دادا دادی اورنانا نانی موجود نہ ہوں تو پر دادوں اورپر نانوں کو اسی دستور سے حصہ دیا جائے گا لیکن قریبی کی موجود گی دور والے کے لئے مانع ہوگی یعنی دادا کی یا دادی کی موجود گی میں پر نانا اورپر نانی محروم ہوگی اورنانا یا نانی کی موجود گی میں پر دادا اورپردادی محروم ہوں گے لیکن اگر دادے یا نانے قریب کے نہ ہوں بلکہ دور کے ہو ں مثلاً پر دادے یا پر نانے تو میت کے بھائیوں کے ساتھ وہ شریک ہوں گے اورمیت کے بھائی ان کے لئے مانع نہیں ہوسکتے
مسئلہ ۸) اگر بھائی موجود نہ ہوں تو ان کی اولاد ان کی قائمقام ہوگی اوراولاد میں سے ہر کو وہی حصہ ملے گا جو اس کے ماں باپ کی موجود گی میں ان کو ملنا چائیے تھا اوران کی تقسیم باہمی بھی اسی رشتہ کے لحاظ سے ہوگی یعنی اگر پدری بھائی بہنوں کی اولاد میں تو حاصل شدہ حصہ ایک اوردو کی نسبت سے زن ومرد میں تقسیم ہوگا اوراگر مادریوں کی اولاد میں تو برابر تقسیم ہوگی۔
مسئلہ۹)قریب کی موجود گی میں بعید محروم ہوگا یعنی بھائی یا بہن کی موجود گی میں کسی بھائی کی اولاد حصہ وار نہ ہوسکے گی خواہ موجود ہ بھائی مادری ہو اوراولاد پدری کی ہو ہاں دادا دادی اورنانی کا قرب بھائیوں کی اولاد کے لئے مانع نہیں ہو سکتا اس قاعدہ سے صرف ایک مسئلہ مستثنی ہے جو ص 127کے شروع میں درج کیاجاچکا ہے۔
مسئلہ 10) اگر اس طبقہ میں زوج یا زوجہ بھی شامل ہوجائیں تو ان کو اصل جائیداد سے اپنااعلیٰ حصہ دیاجائے گا اوربعد میں دوسرے وارثوں پر تقسیم ہوگی یعنی۲/۱شوہر۴/۱زوجہ ملے گا کیونکہ اولاد کی موجود گی میں ان کا فرضی حصہ یہی ہے۔
مسئلہ۱۱) فروض کی زیادتی کی صورت میں نقص پدری قرابت پر وارد ہوگا جس طرح ایک پدری بہن ایک مادری بہن اورایک شوہر کی صورت میں مادری بہن اورشوہر اپنا اپنا حصہ پورا لیں گے اورکمی پدری بہن پر پڑے گی اسی طرح ایک دادی ہو اورایک نانی ہو اورشوہر بھی ہو تو ایک نانی کو ۳/۱ اورشوہر کو ۲/۱ دیا جائے گا جو باقی بچے گا وہ دادی کا ہو گا کلیات بیان کردیئے گئے ہیں اسی کے ماتحت جزئیات کو دریافت کیاجاسکتا ہے
رکوع 13 سورہ النساء - قانون وراثت - طبقہ ثالثہ کی وراثت
اس سے وہ وارث مراد ہیں جوآیت اولوالارحام کے حکم سے استحقاق رواثت رکھتے ہیں اگر چہ اس مقام پر ان کا بیان بے ربط ہے لیکن تتمہ کے طور پر ان کا ذکر خالی ازفائدہ نہیں
مسئلہ ۱)جب میت کے بھائی بہنیں وغیرہ موجود نہ ہوں تو اس کے باپ کے بھائی بہنیں اوراس کی ماں کے بھائی بہنیں اوران کی عدم موجود گی میں ان کی ادلاد وارث قرار دی جائے گی اوراگر یہ بھی نہ ہوں تو پھر دادا دادی اورنانا نانی کے بھائی بہنیں یاان کی اولاد وارث ہوگی اوربالترتیب یہ سلسلہ آگے جائے گا لیکن قریب کی موجود گی میں بعید ہر سلسلہ میں محروم قرار دیاجائیگا۔
مسئلہ ۲)چچے پھوپھیاں میت کے باپ کے بھائی بہنیں ہیں اورماموں ہو یا خالہ ہو میت کی تمام جائیداد کی حسب سابق وارث ہو گی خواہ باپ کا پدری بھائی یا بہن ہو یا مادری اوراسی طرح ماں کا پدری بھائی یا بہن ہو یا مادری۔
مسئلہ ۳)اگر صرف میت کے چچے پھوپھیاں تینوں قسم کے جمع ہوجائیں یعنی میت کے باپ کے پدری مادری بھائی بہنیں اورصرف پدری اورسرف مادری تو صرف پدری محرروم اورپدری مادریوں کو۳/۲ زن ومرد کو ایک اوردو کی نسبت سے اورصرف مادریوں کو ۳/۱دیا جائے گا لیکن یہ سب کے سب خواہ پدری ہوں خواہ مادری ہو ں زن ومرد کی تقسیم میں برابر حصہ لیں گے مادری قرابت میں ایک وردو کی تقسیم نہیں ہوا کرتی۔
مسئلہ ۴) اگر میت کے تینوں قسموں کے چچے پھوپھیاں ماموں اوران کی بہنیں جمع ہو جائیں تو دونوقرابتوں میں سے صرف پدریوں کو محروم کیا جائے گا اس کے بعد جائداد تین حصوں میں تقسیم ہو گی ۳/۲چچے اورپھوپھیاں لیں گی اور۳/۱ماموں اوران کی بہنیں لیں گی پھر چچوں اورپھوپھیوں میں سے جوصرف مادری ہیں اس حاصل شدہ میں سے ۳/۱لیں گے اوربرابرآپس میں تقسیم کریں گے اورباقی ۳/۲ پدریوں کےلئے ہو گا جو ایک اوردو کی نسبت سے تقسیم کریں گے وراصل جائیداد سے جو ماموں کو ۳/۱ملاتھ اس میں سے صرف مادری قرابت کو ۳/۱ملے گا جو آپس میں برابر تقسیم کریں گے اوراس میں سے ۳/۲ پدری قرابت کو دئیے جائیں گ ے 24سے 16میت کے باپ کے پدری بھائیوں کو اور۸مادری بھائیوں کو او12میں سے ۸میت کی ماں کے پدری بھائیوں اور۴مادریوں کو دئیے جائیں گے۔
مسئلہ ۵)پدری ومادری قرابت کی عدم موجودی میں صرف پدری قرابت ان کے قائم مقام ہوگی۔
مسئلہ ۶)اگر زوج یا زوجہ اس طبقہ میں آجائیں تو ان کو اپنا اعلٰی حصہ شوہر کو ۲/۱ یا زوجہ کو ۴/۱دیا جائےگا۔
مسئلہ ۷)اس طبقہ میں بھی اگر فرض زیادہ ہوجائیں تو کمی پدری قرابت پر وارد ہوگی مثلا چچے ماموں اورزوج یا زوجہ موجود ہو تو ماموں ارزوج یا زوجہ کو اپنا فرض دیا جائے گا اوراباقی جو بچے گا وہ چچوں کےلئے ہوگا اوروہ آپس میں بدستور سابق تقسیم کریں گے۔
مسئلہ ۸)طبقہ ثالثہ کی وراثت کے کلیات بیان ہوچکے ہیں اورہر جزی مسئلہ کو ان سے معلوم کیا جاسکتا ہے اگر ہر ہر جزی کو بمعہ مثال درج کیاجائے تو ایک بڑی کتاب بن جائے گی جس کا ہمارے موضوع سے ربط نہیں ہے۔
مسئلہ ۹)وراثت کی مانع تین چیزیں ہیں ایک کفر ، دوسرا قتل اورتیسرے غلامی پس کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا اوراسی طرح قاتل جس نے عمداً ظلما قتل کیا ہو وہ اپنے مقتو ل کا وارث نہیں ہو سکتا خواہ بیٹا ہی کیوں نہ ہواورنیز غلام آزاد کا وارث نہیں ہوسکتا۔
تنبیہ قانون وارثت میں بعضوں کو زیادہ اوربعضوں کو کم دینا اس میں ہماری قیاس آرائیاں بے سود ہیں پس خداوندکریم نے جو حصص مقرر فرمائے اورجناب رسالتمابؐ اوران کے اوصیائے طاہرین علیہم السلام نے ان کی جو جو تفاصیل بیان فرمائی ہیں ہمیں ان کو تسلیم کرنا چائیے یہاں ہمارے جذباتی خیالات کو کوئی دخل نہیں ہے چنانچہ خداوند کریم نے ارشاد فرمایا: اٰبَآوُکُمْ وَاَبْنَآوُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَةً مِّنّ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمً حَکِیْمً یعنی تمہارے باپ اوربیٹوں کے رشتوں میں تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے لئے دنیا میں یا عقبی میں کون نفع رساں ہے تاکہ حقوق وراثت میں ان کے حصص کی کمی بیشی کے متعلق سوچو یہ اللہ کی طرف سے فریضہ اوراللہ ہی علیم وحکیم ہے یعنی ان حصص کے مصالح کو اللہ ہی جانتا ہے اوراس نے اپنے علم وحکمت کے پیش نظر ان کے حصص میں فرق اورکمی وزیادتی مقرر فرمائی ہے پس صاحب ایمان کو صرف تسلیم کرنا چائیے اوراس کی حکمت ومصلحت کو علم خدا پر چھوڑ دینا چائیے وراس کی حکمت ومصلحت کو علم خدا پر چھوڑ دینا چائیے اوریہی طریق نجات ہے۔
وراثت ازروئے عقل
اس میں شک نہیں کہ انسان کی اجتماعی تمدنی زندگی کی تنظیم میں قانون وراثت ایک اہم حیثیت رکھتا ہے ہم جب تاریخ عالم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وراثت انسانی زندگی میں ایک قدیم ترین سنت ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے اوراگر فطرت وجبلت انسانیہ کا جائزہ لیا جائے تو نظر غائر اس نظریہ تک پہنچی ہے کہ تمدن انسانی اورناموس بشریٰ کی حفاظت قانون وراثت کے بغیر ممکن ہی نہیں کیونکہ مال اورجملہ ضروریات زندگی فطری طور پر انسان کے لئے جاذب طبع چیزیں ہیں اورجس چیز کو انسان غیر مملوک اورآوارگی کے عالم میں دیکھے اس پر اپنے اولین لمحات فرصت میں اپنی ملکیت کی مہر لگانا چاہتا ہے بلکہ جلب منفعت کا جذبہ تو اس حد تک کار فرما ہے کہ ہر محبوب شئے کو اپنی طرف کھینچنے کی کو شش کرتا ہے اورکسی صورت میں اس پر کسی غیر کے قبضہ کو پسند یدہ نگاہوں سے نہیں دیکھ سکتا اورمملوکات کے ایک سے دوسرے کیطرف انتقال کے بغیر بھی تمدن انسانی برقرار نہیں رہ سکتا پس دوران زندگی میں ملکیتوں کی تبدیلی کے ذرائع موجود ہیں لیکن کسی فرد انسانی کی موت کے بعد جب اس کی مملوکہ اشیاءسے اس کا حق ملکیت سلب ہو جاتا ہے تو اس صورت میں اگر اس کے متبادل مالک بالکل قرار نہ دئیے جائیں تو انسانوں میں جنگ وجدال کا ایک طوفان برپا ہو کر انسانیت کی ناؤ کو ڈبو کر رکھ دے گا اورمیزان عقل سے جب متبادل وارثوں کے انتخاب پر رائے زنی کی جائے تو جو لوگ متوفی کی زندگی میں اس کے اموال سے منتفع ہونے کے حقدار تھے یا جن لوگوں سے اس کا خونی یا سببی رشتہ قائم تھا وہ سب سے زیادہ اس کے اموال کے حقدار نظر آئیں گے اورانسان جب کسی کی زندگی میں اس کی ملکیت پر قبضہ جمانے کا خواہاں ہوتا ہے وہ اس کی موت کے بعد کیونکہ اس خوہش سے دست بردار ہوگا لہذا ضروری ہے کہ جو لوگ ایک شخص کی زندگی میں اس کے مال سے منتفع ہونے کا حق رکھتے تھے انہیں اس کے مرنے کے بعد سب انسانوں سے زیادہ حق دار سمجھاجائے تاکہ انسانیت باہمی فسادات کا شکار نہ ہونے پائے اورفطری طور پر قرابت میں بھی قرب وبعد کا فرق اوریگانے وبیگانے میں امتیاز ضروری ہے لہذاوراثت انہیں کا حق ہے جو زیادہ سے زیادہ قریب ہوں اس مٰں شک نہیں خہ قانون وراثت انسان کی زندگی کا جزواعظم ہے اوراسے عالم کے انسانوں نے دامن قبولیت میں جگہ دی ہوئی ہے اورجو لوگ اشتراکیت کا علم اٹھا کر حقوق ملکیت کے خلاف نعرہ لگاتے پھرتے ہیں وہ درحقیقت فطرف کے اصولوں سے بغاوت کا اعلان کرتے ہیں بہر کیف ہر قوم وملت مٰں قانون وراثت جاری رہاہے البتہ جزئیات مسائل میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں اورانسانی وضع شدہ قوانین ظلم واستبداد سے تو بری ہو نہیں سکتے لہذا اس مسئلہ میں کمزور طبقہ عورتیں یتیم اوربے طاقت لوگ ہمیشہ ظلم کے شکنجہ میں کچلے جاتے رہے روم کی قدیمی تاریخ اوراسی طرح یونان وہند کے حالات قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت کےلئے حق وراثت کے قائل نہیں تھے خواہ زوجہ ہو یا ماں یا بیٹی تاکہ ان کی جائیداد اوروارثت کے ذریعے سے دوسرے قبائل میں کہیں نہ چلی جائے ایران کی رسوم جداگانہ تھیں ان کےنزدیک محارم سے نکاح کرنا بھی جائزتھازوجات میں سے جو شوہر کی زیادہ محبوب ہوتی تھی اس کو بیٹے کی طرح وراثت کا حقدار سمجھا جاتا تھا اورباقیوں کو محروم کیا جاتا تھا اسی طرح شادی شدہ لڑکی محروم اورکنواری لڑکیوں کو لڑکوں سے نصف دیا جاتا تھا عرب جاہلی میں مطلقاً عورت کو محروم ازوارث کرنے کا رواج تھا( میزان)۔
اسلام کا احسان عظیم ہے انسانیت پر اورخصوصاً صنف نازک پر کہ اس نے ان کو مردوں کی طرح وراثت کا حقدار بنایا اوراس کے وقار کی سطح کو بلند کیااوریہ ثابت کیا کہ جس طرح انسانی تمدن میں مرد حصہ دارہے اس میں عورت بھی اس کےدوش بدوش ہے ہاں مرد کو اگر عورت سے دگنا حصہ دیا ہے یعنی مرد کے لئے ۲ اورعورت کےلئے ایک تو پھر عورت کے اخراجات بھی اس نے مرد کے سر پر رکھ دئیے ہیں گویا مرد خا حق ملکیت دوحصوں پر ہے لیکن ان کو کھانے اورتصرف میں لانے کےلئے اس کیعورت پر نظر کی جائے تو مرد کی ملکیت عورت سے دگنی ہے لیکن عورت کا تصرف مرد کے تصرف سے دگنا ہے ایک مرد کے حصے کے نصف میں اوردوسرا اپنے ملکیتی حصے میں پس عورت ومرد میں اس طرح یکسانیت ہوگئی
گویا خانگی زندگی کو کنٹرول میں لانے اوربرقرار رکھنے کےلئے چونکہ خدانے مردوں کو عوتوں کا حاکم قرار دیا الرجال قوامون الخ
تو اس کا حق ملکیت بھی دوگنا قرار دیا لیکن چونکہ یہ دونوں کتاب انسانیت کے دواہم باب ہیں تو عورت کو تصرف میں دگنا حصہ دے دی ااوریہ عدل خداوندی ہے جو اس کے حکیمانہ تدبر کا نتیجہ ہے اسی طرح عورت کو اطاعت شوہر کا حکم دے دیا تاکہ نظام زندگی درہم برہم نہ ہو تو اس کے بدلہ میں اس کو ازدواجی زندگی میں حق مہر کا مالک بنادیا۔
بہر کیف یہ قانون وراثت تمام انسانوں پر حاوی ہے اوراس سے کسی کو مستثنا نہیں قرار دیا گیا خواہ رئیس ہوں یا رعایا اورخواہ امتی ہوں یا نبی ہاں اسلام میں سابق تاریخ جاہلی کو دہراتے ہوئے پہلے پہلے جناب رسالتمابؐ کی دختر نیک اختر کو اپنے باپ کا وراثت سے محرومی کا منصوبہ تیار کیا گیا جس کی بناپر آج تک مسلمانوں کے دلوں پر لڑکیوں کی وراثت کا مسئلہ ایک سنگ گراں کی حیثیت رکھتا ہے۔