التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اسلام کے اصُولِ حکمرانی اور خلافت راشدہ کی خصوصیات پر دعوت فکِر islam ky asol e hukmrani or khilafat rashida ki khsosiyat par dawat e fiker | khilafat o malookiat

اسلام کے اصُولِ حکمرانی اور خلافت راشدہ کی خصوصیات پر دعوت فکِر ISLAM KY ASOL E HUKMRANI OR KHILAFAT RASHIDA KI KHSOSIYAT PAR DAWAT E FIKER | khila

اسلام کے اصُولِ حکمرانی اور خلافت راشدہ کی خصوصیات پر دعوت فکِر  islam ky asol e hukmrani or khilafat rashida ki khsosiyat par dawat e fiker |   khilafat o malookiat


اسلام کے اصُولِ حکمرانی اور خلافت راشدہ کی خصوصیات پر دعوت فکِر  islam ky asol e hukmrani or khilafat rashida ki khsosiyat par dawat e fiker |   khilafat o malookiat

اسلام کے اصول حکمرانی

 جناب مودودی صاحب نے اسلام کے اصول ِ حکمرانی 9 بیان فرمائے ہیں۔ ہم مختصراً وہ گنوادیتے ہیں تاکہ اسلامی حکومتوں کے کردار کے سمجھنے میں آسانی ہو 61 تا 82

1۔قانون خداوندی کی بالاتری

 اس ریاست کا اولین بنیادی قاعدہ یہ تھا کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اہل ایمان کی حکومت دراصل خلافت ہے جسے مطلق انصافی کے ساتھ کام کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ اس کو لازماً اس قانون خِدا وندی کے تحت رہ کر ہی کام کرنا چاہیے ۔

1 تاریخ طہری جلد 5 الامامتہ والیاستہ 42 (2) حش کو کب جنّت البقیع سے باہر ایک مقام تھا جہاں یہود اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے ۔ معاویہ نے اپنے دورِ حکومت میں اس کو بقیع میں شامل کر لیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس قبر (عثمان) کے اردگرد مسلمانوں کی قبریں بنائی جائیں ۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا پس وہ مقام مقابرِ مسلمین سے متصل ہوگیا ۔ تاریخ کا مل ج 70 تاریخ طبری ج 142 اصابہ ابن حجرج 224 ذیل ترجمہ جبلہ بن عمرو ز ملک النجاۃ)

جس کا ماخذ خدا کی کتاب اور اس کے رسول صہ کی سنّت ہے۔

2۔ عدل بین النّاس


دوسرا قاعدہ جس پر ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی یہ تھا کہ قرآن و سنّت ک دیا ہُوا قانون سب کےلئے یکساں ہے اور اس کو مملکت کے ادنیٰ ترین آدمی سے لے کر مملکت کے سربراہ تک سب پر یکساں نافذ ہونا چاہیے کسی کے لئے بھی اس میں امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

3۔ مساوات بین المسلمین


تمام مسلمانوں کے حقوق بلا لحاظ رنگ و نسل و زبان و وطن بالکل برابر ہیں کِسی فرد گروہ ، طبقے یا نسل و قوم کو اس ریاست کے حدود میں نہ امتیازی حقوق حاصل ہوسکتے ہیں اور نہ کسی کی حیثیت کسی دوسرے کے مقابلہ میں فروتر قرار پاسکتی ہے۔

4۔ حکومت کی ذمّہ داری وجوابدہی


چوتھا اہم قاعدہ جس پر یہ ریاست قائم ہوئی تھی یہ تھا کہ حکومت اور اس کے اختیارات اور اموال خدا اور مسلمانوں کی امانت ہیں جنہیں خداترس ایماندار اور عادل لوگوں کے سپرد کیا جانا چاہیئے اس امانت میں کسی شخص کو من مانے طریقے پر یا نفسیاتی اغراض کےلئے تصرف کرنے کا حق نہیں ہے اور جن لوگوں کے سپرد یہ امانت ہو وہ اس کے لئے جواب دہ ہیں۔



5۔ شوریٰ


اس ریاست کا پانچواں اہم قاعدہ یہ تھا کہ سربراہ ریاست مسلمانوں کے مشورے اور ان کی رضامندی سے مقرر ہونا چاہیے اور اُسے حکومت کا نظام بھی باہمی مشورے سے چلانا چاہیے۔

6۔ اطاعت فی المعروف


چھٹا قاعدہ جس پر یہ ریاست قائم کی گئی تھی یہ تھا کہ حکومت کی اطاعت صرف معروف میں واجب ہے معصیت میں کسی کو اطاعت کا حق نہیں پہنچتا ۔ دوسرے الفاظ میں اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور حکام کا صرف وہی حکمران کے ماتحتوں اور رعیت کے لئے واجب الاطاعت ہے جو قانون کے مطابق ہو قانون کے خلاف حکم دینے کا نہ انہیں حق پہنچتا ہے اور نہ کسی کو اس کی اطاعت کرنی چاہیئے۔

7۔اقتدار کی طلب وحرص کا ممنوع ہونا


یہ قاعدہ بھی اس ریاست کے قواعد میں سے تھا کہ حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب کے لئے عموماً اور خلافت کےلئے خصُوصا وہ لوگ سب سے زیادہ غیر موزوں ہیں جو خود عہدہ حاصل کرنے کے طالب ہوں اور اس کے لئے کوشش کریں۔

8۔ریاست کا مقصد ِ وجُود


اس ریاست میں حکمران اور اس کی حکومت کا اولین فریضہ یہ قرر دیا گیا تھا کہ وہ اسلامی نظامِ زندگی کو کسی ردّو بدل کے بغیر جوں کا توں قائم کرے اور اسلام کے معیار ِ اخلاق کے مطابق بھلائیوں کو فروغ دے اور برائیوں کو مٹا ئے۔

9۔ امر باالمعروف و نہی عن المنکر کا حق اورفرض


اس ریاست کے قواعد میں سے آخری قاعدہ جو اس کو صحیح راستہ پر قائم رکھنے کا ضامن تھا یہ تھا کہ مسلم معاشرے کے ہر فرد کا نہ صرف یہ حق ہے بلکہ یہ اس کا فرض بھی ہے کہ کلمہ حق کہے نیکی و بھلائی کی حمایت کرے اور معاشرے یا مملکت میں جہاں بھی غلط اور نا روا کام ہوتے نظر آئیں ان کو روکنے میں اپنی حد تک پُوری کوشش صرف کرے۔

دعوت فکر پانچواں اصل شوریٰ صرف اپنے مسلک کی اتباع میں شامل کرلی گی ہے۔ ورنہ قرآن مجید نے قطعاً کہیں بھی سربراہ ممکت کے انتخاب کو شوریٰ کے سپر د نہیں فرمایا اور نہ یہ عہدہ عوام کے انتخاب سے حاصل ہو سکتا ہے اور عوام جس کو چنیں گے وہ بادشاہ یا صد ر ہوگا لیکن خدا کی جانب سے واجب الاطات مملکت ِ اسلامیہ کا سربراہ نہ ہوگا بلکہ مملکت اسلامیہ کا واجب الاطاعت سربراہ وہی ہو سکتا ہے جسے خدا نامزد کرے اور وہ نبی و رسول ہوگا یا جسے رسول نامزد کر کے جائے اس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔

ساتویں اصل اقتدار کی طلب و حرص کا ممنوع ہونا" یہ بھی ایک ناقابل فہم بلکہ بعید از عقل بات ہے کیونکہ اگر ایک شخص اپنے اندر خدمت ِ قوم و ملک کا جذبہ رکھتا ہو اور اپنے اندر ملت اسلامیہ کے تقاضوں کو پُورا کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو اور اسی مخلصا نہ جذبہ کے تحت خلافت کے لئے یا کسی ذمہ دارانہ منصب کےلئے خود کر پیش کرے یا اس کے لئے کوشش کرے تو وہ کیوں کر غیر موزوں قرار دیا جائے۔ اگر وہ خود خاموشی اختیار کرے اور دوسروے لوگ اس کی خاموشی کو اس کی نا اہلیت کی دلیل سمجھتے رہیں کیونکہ وہ غیب دان تو ہیں نہیں پس دریں حالات کوئی نا اہل بر سراقتدار آجائے جو وقار ملک و ملت اور عزت قوم و مذہب کےلئے سخت مضر ہو تو کیا ایسے خاموشی رہنے والے انسان کو خدا کے ہاں جواب دہ نہ ہونا ہوگا؟ اور کیا ایسا شخص ضمیر فروش بلکہ اسلام دشمن نہ سمجھا جائے گا جس نے دیدہ دانستہ ملّت و ملک و ملک کو قعرِ ہلاکت میں گرنے سے بچا سکنے کے باوجود نہ بچا یا اور اپنی صلاحیتوں کو برورئے کار لاسکنے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہا۔

تیسری اور پانچویں اُصول کے پیش نظر حضرت عمر نے کس حیثیت سے حضرت ابوبکر کا نام پیش کر کے فوراً بیعت کرلی اور لوگوں کو بیعت کرنے پر مجبور کیا کیونکہ نام پیش کرنے سے نہ شوریٰ مکمل ہوتا ہے اور نہ خلافت بنتی ہے پس فوراً بیعت کا اقدام ایک سوچے سمجھے منصوبے کو ظاہر کرتا ہے جس پر عمل کر کے بعد والوں کے لئے حرام قرار دیا گیا۔ اس کو اگر اقتدار کی ہوس نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ اور کیا چوتھی اصل کی رُو سے اللہ مسلمانوں کی امانت کا پہلے دن سے ہی جنازہ نہیں نکلا؟ مودودی صاحب نے خلافت راشدہ کے سات خصوصیات شمار کئے ہیں۔

خلافت راشدہ کے خصوصیات


(1) انتخابی خلافت :۔ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کےلئے حضرت ابوبکر کو حضرت عمر نے تجویز کیا اور مدینے کے تمام لوگوں نے جو دور حقیقت اس وقت پورے ملک میں عملاً نمایندہ حیثیت رکھتے تھے ، کسی دباؤ یا لالچ کے بغیر خود اپنی رضا ورغبت سے انہیں پسند کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔84

دعوت فکر۔ سوچنے کے قابل بات ہے کہ حضرت عمر کو یہ حق کیسے پہنچا کہ ایک شخص کا ازخود نام تجویز کردیں نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو یہ اختیار دیا تھا اور نہ ان پر وحی اُتری تھی ۔ البتہ یہی ایک صورت ہے کہ سوچی کبھی اسکیم کے ماتحت یہ کھیل کھیلا گیا۔ اور مقصد براری کے بعد دوسرے لوگوں کے لئے اس طریق کار کو ناجائز قرار دیا گیا ۔ ا س کا صاف مطلب یہی نکلتا ہے کہ یہ طریقہ آئین اسلامی کے خلاف تھا ورنہ ہمیشہ کےلئے اس کو جائز ہونا چاہیے تھا پس خلافتِ راشدہ کے دیدہ زیب محل کی بنیادہی کھوکھلی نکلی نہ اس کا تیار شدہ نقشہ آئین اسلامی کے مطابق تھا اور نہ اس کے سنگ بنیاد کو حق طلبی و حق کوشی کی خاطر نصیب کیا گیا تھا۔

اجتماعی خلافت کے تحت میں فرماتے ہیں" اہل ایمان کی جماعت کا ہر فرد خلافت میں برابر کا حصہ دار ہے کسی شخص یا طبقہ کو عام مومنین کے اختیار ات خلافت سلب کر کے انہیں اپنے اندر مرکوز کر لینے کا حق نہیں ہے نہ کوئی شخص یا طبقہ اپنے حق میں خدا کی خصوصی خلافت کا دعوٰے کر سکتا ہے۔ یہی چیز اسلامی خلافت کو ملوکیت ۔۔۔۔ سے الگ کر کے اسے جمہوریت کے رخ پر موڑتی ہے۔36

اس قائدے کا صاف یہ مطلب ہے کہ حضرت عمر کو عام مومنین کے اختیار اتِ خلافت سلب کر کے اپنے اندر مرکوز کرتے ہوئے حضرت ابوبکر کا نام پیش کرنے کا کوئی حق نہیں تھا بنا بریں یہ قائم شدہ حکومت اسلامی خلافت نہیں تھی بلکہ ملوکیت ہی ملوکیت تھی جوڈکٹیٹر ی کے باوجود جمہوریت کا لبا س اوڑھے رہی۔

اگر ا س فعل میں ذرا بھر بھی خلوص ہوتا تو نام تجویز کرنے کے بعد رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا اور سقیفہ بنی ساعدہ کے بجائے اُمتِ اسلامیہ کے اس اہم کام کی انجام دہی کےلئے مسجد نبوی کو تجویز کیا جاتا جب رائے عامہ ہموار ہوجاتی خواہ اہل مدینہ کو ہی کافی سمجھ لیا جاتا۔ اس کے بعد اس کو خلیفہ سمجھتے ہوئے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائے جاتے کیونکہ نام تجویز ہوتے ہی خلیفہ نہیں بن جاتا بلکہ اہل حل وعقد کی رائے اور اتفاق کے بعد ہی وہ صحیح خلیفہ قرار پاسکتا ہے، بنا بریں حضرت عمرکا حضرت ابوبکر کے نام کو تجویز کرنے کے بعد فوراً اور سب سے پہلے بیعت کرلینا نساآئین اسلامی تھا اور دوسرے لوگوں کیو بیعت کی پیشکش کرنا کس اسلامی کے ماتحت تھا؟ منصف مزاج انسان اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اقتدار حاصل کرنے کا یہ ایک بہانہ تھا جب کامیابی ہوگئی تو مسجد نبوی میں اعلان کیا گیا اور عوام کو بیعت کی طرف کھینچ لایا گیا گویا رائے عامہ کے ہموار ہونے اور اہل حل وعقد کے اتفاق کر لینے کے بعد خلافت نہٰں نبی بلکہ خلافت (حکومت ) پر قبضہ کر لینے کے بعد رائے عامہ کو بھی ہموار کیا گیا اور اہل حل و عقد کو بھی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور کر لیا گیا ۔ کتب سیر میں اس قصہ کی افسوسناک تفصیل اب تک محفوظ ہے۔

مودودی صاحب تاریخ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ (مدینے کے تمام لوگوں نےکسی دباؤ یا لالچ کے بغیر خود اپنی رضا ور غبت سے انہیں پسند کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کی " حالانکہ کتب سیر میں اس دھاندلی کی عبرت ناک المناک اور افسوسناک داستان اب تک جوں کی توں موجود ہے اور منصف مزاج انسان اس فیصلے پر پہنچتا ہ کہ اس سے بڑھ کر دھونس دھاندلی شاید کسی جمہوری حکومت کے انتعقاد میں رونما نہیں ہوئی ہوگی جو سقیفائی جمہوری خلافت کے وقت ہوئی تھی۔ سعد بن عبادہ انصاری نے بیعت کرنے سے انکار کیا تو مودودی صاحب نے اسے قبائلی عصبیت کا نام دے دیا۔ حضرت علی اور جملہ خاندان بنی ہاشم نے بیعت سے انکار کیا اور سخت احتجاج بھی کی ااسی طرح حضرت زبیر نے بیعت سے انکار کیا لیکن مودودی صاحب نے ان کا ذکر تک نہیں کیا اور حکومت وقت نے انکار کرنے والوں کا سختی سے محاسبہ کیا اور بزور ان کو بیعت کے لئے لایا گیا ۔ (الامامت والسیاست)

مودودی صاحب نے اہل مدینہ کو پُوری ملک اسلامی کا نمایندہ قرار دے دیا حالانکہ نہ تو جناب رسالت مآب نے ان کی نمایندگی پر کوئی نص فرمائی اور نہ قرآں مجید میں کوئی اس قسم کا اشارہ موجود ہے۔ قرآن مجید میں کوئی اس قسم کا اشارہ موجود ہے ۔ قرآن صاف فرمان ہے کہ اِنَ اَکرَ مَکُم عنِدَاللہ القَاکُم اللہ کے نزدیک زیادہ عزت دار وہی ہےجو زیادہ متقی ہو۔ ا س قاعدے کے ماتحت خواہ کوئی مکی ہو یا مدنی ہو ۔ عربی ہو یا ایرانی ہو سیاہ ہو یا سفید سب برابر ہیں اور تقویٰ ہی بعض کی بعض پر بلندی کا سبب ہے اسی طرح احادیث نبویہ میں بھی سب انسانون کو اسلامی معاشرہ میں برابر کا شریک قرار دیا گیا ہے بلکہ خود مودودی صاحب اسلامی ریاست کے خصوصیات میں تحریر فرماتے ہیں کہ " وہ حدود ریاست میں رہنے والے تمام اہل ایمان کو خدا کی خلافت کا حامل قرار دیتی ہے اور حل وعقد کے آخری اختیارات مجموعی طور پر ان کے حوالہ کرتی ہے۔ 55 آبائی کورانہ تقلید کے شکنجے میں گرفتار محقق جس قاعدے کو ایک جگہ بختہ کرتا ہے دوسری جگہ خلافت راشدہ کے حرکات و سکنات اس کے قاعدے کی دھچیاں اڑا دیتے ہیں۔ وہ بے چارا نہ اپنے قائدے سے درست بردار ہوتا ہے اور نہ خلافت رشدہ کو چیلنج کرسکتا ہے چناچہ اس نے جمہور اہل اسلام کے مسلک کی تصیح کے فرائض کو انجام دیتے ہوئے جمہوری خلافتوں کے انعقاد کے وقت کی دھاندلیوں سے جان چھڑا نے اور سلاطین وقت کے اقتدار کو اسلامی خلافت ثابت کرنے کے لئے تاریخ کا منہ چڑا تے ہوئے یہ عذر لنگ پیش کیا ہے۔ خلافت و ملوکیت ۔پر ملاحظہ فرمائیے۔

اب نہ اسے ہم چھپا سکتے ہیں نہ لوگوں سے کہ سکتے ہیں کہ تم تاریخ اسلام کے اس دور کا مطالعہ کرو اور نہ خلق خدا کو اس پر کلام کرنے سے روک سکتے ہیں۔ اگر ہم صحت نقل اور معقول ومدلل اور متوازن طریقے سے اس تاریخ کو خود بیان نہ کریں گے تو مغربی متشرقین اور غیر معتدل ذہن و مزاج رکھنے ولاے مسلمان مصنفین جو اسے نہایت غلط رنگ میں پیش کرتے رہے ہیں اور آج بھی پیش کر رہے ہیں مسلمانوں کی نئی نسل کے دماغ میں اسلامی تاریخ ہی کا نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اسلامی نظام زندگی کا بھی غلط تصور بٹھا دیں گے ۔

مقصد یہ ہے کہ جب تک تاریخ کے چہرے کو مسخ کر کے جمہوری حکومتوں کو اسلامی خلافتیں ثابت کرنے کے لئے ہم خود نہ واقعات کو اپنی صوابدید سے مرتب کریں گے اور نہ گذشتگان کی غلط کاریوں پر لیپ پوت کی چادر چڑھاکر صحیح نہ ثابت کریں گے تو ممکن ہے مسلمانوں کی نئی پود حقیقت سے واقف ہوکر خلافت راشدہ کو باد شاہت و ملوکیت کا نام دے دے دے اور ار جمہور اہل اسلام کا سارا منصوبہ خاک میں مل جائے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ۔ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے۔

دوسری خصوصیت ۔

 شوروی حکومت۔ اس کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ چاروں خلفاء حکومت کے انتظام اور قانون سازی کے معاملہ میں قوم کے اہل الرائے لوگوں سے مشورے کئے بغیر کام نہیں کرتے تھے حالانکہ کتاب کی تفصیلی اسحاث میں اس کی کھلی تردید موجود ہے ۔ حضرت ابوبکر کا نام تجویز کرتے ہوئے حضرت عمر نے قطعاً اہل الرائے لوگوں سے مشورہ نہیں لیا تھا اور حضرت علی و عباس وزبیر وغیرہ جسیے اکابر کو بھی اس بارے میں نظر انداز کرتے ہوئے خلافت کی کھچڑی تیار ی کرلی تھی اس کے بعد حضرت ابوبکر نے برسر اقتدار ہوتے ہوئے بلا کسی مشورہ کے حضرت عمر کو نام زد کر کے اپنے اقتدار کے زیر سایہ لوگوں سے بیعت کر لی تھی ۔ اور لطف یہ کہ معاویہ نہ یزید کے لئے حکومت کی راہیں اسی طرح ہموار کیں تو وہ ملوکیت ہوگی اور حجرت ابوبکر نے عمر کے لئے وہ ہی طریقہ اختیار کیا تو خلافت راشدہ قرار پائی اور شوری حکومت بھی اُسی کہا گیا اور طرہ یہ کتاب کے اکثر و بیشتر حصہ میں حضرت عثمان کی اقر بانوازی کو بیان کیا اور جاکا یہ واضع کیا کہ اہل الرائے حضرات اس کے اس فعل سے ناراض تھے چناچہ صحابہ کبار کو مناسب حکومت سے بلاوجہ معزول کر کے اپنے خاندان کے نااہل افراد کو لوگوں کی گرد نوں پر سوار کر دیا اور قطعاً اس بارے میں اہل الرائے سے مشورہ لینا کبھی گوارہ نہ کیا ۔ بلکہ اہل الرائے کے ٹوکنے کے باوجود بھی وہ با ز نہ آئے حتی کہ ان کی اپنی بیوی بھی ان کی اس جنبہ دادری سے نالاں تھی اور صحابہ و صحابہ زادوں کی اکثریت اس سے متنفر ہوچکی تھی جو بالآخر اس کے قتل تک نتھہی ہوئی اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود یہ کہنا کہ اہل الرائے لوگوں کے مشورے کے بغیر کام نہیں کرتے تھے کس قدر جرات و جسارت ہے؟

تیسری خصوصیت ۔ 

بیت المال کے امانت ہونے کا تصور۔ اس ذیل میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر و حضرت علی کی مثالیں گنوائی ہیں اور حضرت عثمان کو چامل کرنے کی جراءت نہیں کی کی کیونکہ وہ صلہ رحمی کے نام سے بیت المال کے دروازے اہل خاندان کےلئے کبھی بند نہیں کرتے تھے۔ یہ صلہ رحمی بھی عجیب ہے کہ اپنی گرھ سے امداد کرنے کے بجائے بیت الامال (جو تمام مسلمانوں کا مشترکہ ہے اسے کنبہ پروی سے ہوتی ہے اور لطف یہ کہ اس صلہ رحمی کا معنی سوائے عثمان کے اور کسی صحابی یا صحابی زادے کے ذہن میں نہیں تھا ورنہ وہ قطعاً مترض نہ ہوتے۔

حضرت ابوبکر کی احتیاط کے متعلق فدک کے بارے میں رقمطراز ہیں (حضرت ابوبکر نے اسے حضور کی میراث میں آپ کی صاحبزادی تک کودینے سے انکار کردیا تھا مگر مردان بن الحکم نے اپنے زمانے خلافت میں اسے اپنی ملک اور اپنی اولاد کی میراث بنا لیا تھا۔162۔

مودودی صاحب نے بڑے اچھوتے انداز سے خؒیفہ کے غاصبانہ تصرف کو تقدس کا لباس دیا فرماتے ہیں بیت المال کا اسلامی تصور یہ تھا کہ وہ خلیفہ اور اس کی حکومت کے پاس خداور خلق کی امانت ہے 161 حضرت عثمان اور اس کی حکومت نے تو اس امانت خلق کو صلہ رحمی کے بہانہ سے اقر باء پروری کی بھینٹ چڑھادیا ۔ اور حضرت ابوبکر نےجناب فاطمہ کی ذاتی املاک کو جو نبی کریم صہ سے ان کو ورثہ میں پہینچی تھین بحق سرکار ضبط کر کے بیت المال میں شامل کر لیا ۔ اس بہانہ سے کہ نبیوں کا متروکہ مال صدقہ ہوا کرتا ہے۔

حالانکہ قرآن مجید کی آیات توریث میں نبیوں کا کوئی استثنا نہیں ہے اور خبرواحد قرآن کی ناسخ نہیں ہوسکتی بہر کیف اس مقام پر موضوع فدک پر مناظرہ مقصود ہے ۔ البتہ سوچنے کا مقام ہےکہ ایک طرف سخت گیری اور تنگ نظری کایہ عالم کہ ذاتی املاک کو بیت المال میں شامل کرتے ہوئے اولاد رسول کی رنجش کی پرواہ نہیں کی جاتی اور دوسری طرف دریا دلی کی یہ حد کہ اپنے اقرباء خاندان کےلئے صلہ رحمی کے بہانہ سے بیت المال کے دروازے کھلےہیں اور طرہ یہ کہ افراط و تفریط کے دونو پہلو خلافت رزادہ کی حدود کی وسعتوں میں بلا چون وچرا سما کستے ہیں اور سموئے جا سکتے ہیں ان میں سے کسی پہلو پر بھی زبان کثانی اسلامی نظام حکومت کی توہین سمجھی جاتی ہے پس جس کی لاٹھی اس کی بھینس محقق دوران کے نزدیک دونوں واہ دا کے مستحق ہیں۔

چوتھی خصوصیت ۔

 عصبیتوں سے پاک حکومت۔ کے متعلق ہمارا جی چاہ رہا تھا کہ کچھ کہ دیں لیکن بھلا ہو محقق دوران کا کردہ حضرت عثمان کے متعلق اتنا تو جرات سے کہ گئے مگر بدقسمتی سے خلیفہ ثالث حضرت عثمان اس معیار مطلوب کو قائم نہ رکھ سکے 99 ۔ ان کا یہ نطریہ بڑے رکھ رکھا ئو اور سچ بچائو کا غمارز ہے کیوں کہ یہاں تین مرحلے ہیں 1 انتخاب کے وقت کسی شخص میں معیار مطلوب کا لحاظ رکھنا ۔ 2 ۔ جس میں ایک معیار مطلوب کا لحاظ رکھا گیا۔ انتخاب کے بعد اس کا اس معیار پر پورا اترنا 3۔ معیار پر پُورا اترنے والے انسان کا معیار مطلوب کو قائم رکھنا ۔ اس مقام پر بنیاد کی خشت اول ہی غائب سے حضرت عثمان کا معیار پر پورا اترنا یا معیار کو قائم رکھنا تو درکنار انتخاب کے وقت روزاول سے اس معیار مطلوب کو سرے سے نظر انداز کیا گیا تھا ۔ چنانچہ مودودی صاحب اس سے پہلے حضرت عبداللہ بن عباس سے تبادلہ خیالات کرتے ہوئے حضرت عثمان کے بارے میں حضرت عمر کے الفاظ نقل کر چکے ہیں

"اگر میں ان کو اپنا جانشین تجویز کروں تو وہ نبی معیطہ بنی امیہ کو لوگوں کی گرد نوں پر مسلط کردیں گے اور وہ لوگوں میں اللہ کی نافرمانی کریں گے ۔ خدا کی قسم اگر میں نے ایسا کیا تو عثمان یہی کریں گے اور اگر عثمان نےیہ کیا تو لوگ ضرور مصیبتوں کا ارتکاب کریں گے اور عوام شرش برپا کر کے عثمان کو قتل کردیں گے اسی چیز کا خیال ان کو اپنی وفات کے وقت بھی تھا۔98۔99

حاشیہ پر رقمطراز ہیں۔

بعض لوگو اس جگہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا حضرت عمر کو الہام ہوا تھا جس کی بنا پر انہوں نے قسم کھا کر وہ بات کہی جو بعد میں جوں کی توں پیش آگئی اس کا جواب یہ ہے کہ ایک صاحب بصیرت آدمی بسا اوقات حالات کو دیکھ کر جب انہیں منطقی طریقہ سے ترتیب دیتا ہے تو اسے آئندہ رونما ہونے والے نتائج دو اور دوچار کی طرح نظر آنے لگتے ہیں اور وہ الہام کے بغیر اپنی بصیرت ہی کی بنا پر ایک صحیح پشن گوئی کر سکتا ہے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کو شوروی کمیٹی میں نازد کر تے ہُوئے ان کے اندر معیار مطلوب کو نظر انداز کر دیا گیا تھا اور بعض حاص جذبات ہی اس کے محرک تھے ورنہ اگر اُمت کی بہتری اور اسلامی بہبودی کا جذبہ اور خلوص دل میں ہوتا تو پوری اُمت کو آنے والے خطرات کے منہ میں نہ دھکیل دیا گیا ہوتا اور ایسے خطرناک شخص کے لئے اقتدار کا رستہ ہموار نہ کیا جاتا پس حضرت عثمان کےلئے نہ معیار کا لحاظ کرھا گیا اور نہ وہ معیار مطلوب پر پُورے اترے اس کا قائم رکھنا تو درکنار اور ذراسلام کے اُصول حکمرانی کو خلفاء کے کردار سے تطبیق دیجئے اور مودودی صاحب کو تحقیق و انصاف کی داد دیجئے چوتھے قائدے کے ذیل میں لکھتے ہیں کے حکومت اور اس کے اختیارات اموال ۔ اللہ کی اور مسلمانوں کی امانت ہیں لیکن حضرت عمر اللہ کی اور مسلمانوں کی امانت کو ایسے شخص کے حوالے کر رہے ہیں جن کے متعلق بطور پشن گوئی کے کہ رہیں کہ اس کا مال خدا کی نافرمانی ہوگا اور ان کو پورا خطرہ تھا کہ کنبہ پروری کرتے ہُوئے عدل و انصاف کے تقاضوں کو نطر انداز کریں گے۔ لیکن ساتویں خصوصیت روح جمہوریت کی بیان کر کے آخر میں ببانگِ دہل یہ بھی کہہ گذر ے کہ (خلافت راشدہ کا یہ دور ایک روشنی کا مینار تھا ، سنہ 102 یہ ہے آبائی کورا نہ تقلید کا روح فرسانتیجہ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں