التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

راست گوئی اور راست بازی | rast goi aur rastbazi| khilafat o malookiat

راست گوئی اور راست بازی | rast goi aur rastbazi| khilafat o malookiat

راست گوئی اور راست بازی | rast goi aur rastbazi| khilafat o malookiat

راست گوئی اور راست بازی | rast goi aur rastbazi| khilafat o malookiat
مودودی صاحب کے نزدیک دونوں لفظوں کے معانی مفاہم میں کوئی فرق نہیں وہ راست بازی کا معنی راسست گوئی سمجھتے ہیں حالانکہ کہنے اور کرنے میں فرق نہ کرنے والے کو دماغی مریض ہی سمجھنا چاہیئے چناچہ خلافت وملوکیت کے ؃۳۰۳ پر ارشاد فرماتے ہیں۔

لیکن میں "الصحابۃ کلھم عدول" (صحابہ سب راستبازہیں) کا مطلب یہ نہیں لیتا کہ تمام صحابہ ؓ بے خطا تھے۔ اور ان کا ہر ایک ہر قسم کی بشری کمزوریوں سے بالاتر تھا اور ان میں سے کسی نے بھی کو غلطی نہیں کی ہے بلکہ میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ رسول اللہؐ سے روایت کرنے یا آپ کی طرف کوئی بات منسوب کرنے میں کسی صحابی ؓ نے کبھی راستی سے ہر گز تجاوز نہیں کیا ہے پہلا مطلب اگر لیا جائے تو تاریخ ہی نہیں حدیث کی مستند اور قومی روایات بھی اس کی تائید نہ کریں گی اور دوسرا مطلب لیا جائے تو وہ قطعی طور ثابت ہے۔ الخدیکھئے صحابہ کے عدول ہونے کا معنی راستباز ہونا بیان کیا ہے لیکن راستباز کا معنی راست گو ہے راست خونہیں ہے اورر فرماتے ہیں اگر اس کا معنی راست خولیا جائے تو تاریخ و حدیث کی مستبند روایات اس کی تائید نہیں کرتیں لیکن ان کا راست گو ہونا قطعی طور پر ثابت ہے گویا ان کا حق گو ہونا یقینی ہے لیکن حق خو ہونا ثابت نہیں۔

انہوں نے اپنے اس نظریہ کے ماتحت راستبازی کو اپنا مطمع نظر اور مآل تحقیق قراردیا ہے جس کا معنی راست گوئی تک ہی محدود چناچہ ماخذ کی بحث میں قاضی ابوبکر ابن تمیمہ اور شاہ عبدالعزیز کی کتابوں پر انحصار کرنے کی وج یہ لکھّی ہے۔

لیکن جس وجہ سے اس مسئلہ میں میں نے ان پر انحصار کرنے کے بجائے براہِ راست اصل ماخذ سے خو د تحقیق کرنے اور اپنی آزادانہ رائے قائم کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ ان تینوں حضرات نے دراصل اپنی کتابیں تاریخ کی حیثیت سے بیان واقعات کے لئے نہیں، بلکہ شیعوں کے شدید الزامات اور ان کی افراط تفریط کے رو میں لکھی ہیں جس کی وجہ سے عملاً ان کی حیثیت وکیل صفائی کی ہوگئی ہے اور وکالت خواہ الزام کی ہو یا صفائی کی اس کی عین فطرت یہ ہوتی ہے کہ اس میں آدمی اسی مواد کی طرف رجُوع کرتا ہے جس سے اس کا مقصد مضبوط ہوتا ہے اور اس مواد کو نظر انداز کردیتا ہے جس سے اس کامقصد کمزور ہوجائے









؃۳۲۰

اس میں شک نہیں کہ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی ہے اور وکیل صفائی کے کردار کی صحیح نشاندہی کی ہے لیکن ان کی اِس تحقیق اور کاوش کا نتیجہ سرف حق جوئی وحق گوئی تک ہی محدود ہے۔ اس کا حق خوئی سے دُور کا واسطہ بھی نہیں کیونکہ خلافت وملوکیت کا اول سے آخر تک مطالعہ کیجئے اور اس کے معانی ومطالب کو خوب سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔آپ یقیناً اس نتیجہ تک پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ پوری کتاب میں وکیل صفائی کاہی انہوں نے پاٹ ادا کیا ہے اور جمہوری مسلک اور جمہوری اسلامی نظام کو شرعی حیثیت دینے کے لئے انہوں نے جس قدر اندھیرے میں ہاتھ پوؤں مارے ہیں اس کے نتیجہ میں ہر ماخذ سے صرف اپنے مطلب کا مواد لیا ہے اور ایسے مواد کو نظرانداز کرتے رہے ہیں جس سے ان کا مقصد کمزور ہوتا تھا جیسا کہ وکیل صفائی نظریہ انہوں نے خود واضح کیا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کے سامنے دو نظریے تھے (۱) قائم شدہ حکومت سے رواداری اور ملک وملت کی فلاح وبقا کے لئے حکومت سے پُورا تعاون (۲) شرعی لحاظ اور آئین اسلام کی رُو سے طریق انتخاب پر تنقید اور مکمل اختلاف رائے جہاں تک پہلے نظریے کا تعلق ہے مودودی صاحب اُس کے نقل کرنے میں ذرا بھر بخل نہیں کرتے لیکن حضرت علی کا دوسرا نظریہ یہ چونکہ ان کے قصر جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا ہے۔ اسلام کے جمہوری عقیدے کو چیلینج کرتا ہے اس لئے کہیں بھی اس کے نقل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حالانکہ اب قتیبہ دینوری نے الامامۃ والسیاستہ میں صاف لکھا ہے کہ حضرت علی کے نزدیک ان کا خلیفہ رسول کہلانا اور امیر المومنین کہلانا شرعی لحاظ سے ناجائز تھا اور ابن قتیبہ کے مذہب کے متعلق لکھتے ہیں۔ابن قتیبہ کے متعلق یہ خیال غلط ہے کہ وہ شیعہ تھا وہ ابوحاتم سجتانی اور اسحٰق بن راہو یہ جیسے آمُہ کا شاگرد اور دنیور کا قاضی تھا۔ اب کثیر اس کے متعلق کہتے ہیں (ترجمعہ ) وہ ثقہ اور صاحب فضل وشرف آدمی تھا) حافظ ابن حجر کہتے ہیں "صدوق" (نہایت سچاآدمی ) خطیب بغدادی کہتے ہیں (ترجمعہ) (وہ ثقہ دینداراور فاضل تھا) ابن حزم کہتے ہیں (ترجمعہ) اپنے دین و علم میں بھروسے کے قابل) ابن حجرا اس کے مذہب پر روشنی ڈالتے ہوئے مذہب اس کے مخالف تھے۔۔۔ میرا خیال یہ ہے کہ مذہب سے سلفی کی مراد ناصبیت ہے کیونکہ ابن قتیبہ میں اہل بیت سے انحراف پایا جاتا تھا اور حاکم اسا کے برعکس تھے۔) اس سے معلوم ہوا کہ شیعی ہونا تو دور کنارا اب قتیبہ پر تو الٹا ناصبی ہونے کا الزام تھا"؃۹۰۳۔

رہی اسا کی کتاب الا مامتہ والسیاستہ اسا کے متعلق یقین کے ساتھ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کے وہ ابن قتیبہ کی نہیں ہے (آگے چل کر لکھتے ہیں ) میں نے خود یہ پُوری کتاب پڑھی ہے اور اس کی چندروایتوں کو میں بھی الحاق سمجھتا ہوں مگر ان کی بنا پر پوری کتاب کو رد کردینا میرے نزدیک زیادتی ہے اسا میں بہت سی کام کی باتیں ہیں ۔الخ؃۰۱۳

بقول خودش وکیل صفائی والی ہیرا پھیری ہے۔ ابن قتیبہ کا سنی ہونا مسلم ہے بلکہ اس کے ناصبی ہونے کا احتمال بھی ہے کیونکہ وہ احل بیت سے منحرف تھا اور پھر اس کی کتاب الامامتہ والسیا ستہ کی اس کی طرف نسبت بھی غلط نہیں بایں ہمہ اس کی بعض روایتوں کو الحاق کہہ دینا اور بعض کو کام کی باتیں کہنا وکیل صفائی والا کردار نہیں تو اور کیا ہے یعنی جو اپنے مطلب کی ہے وہ کام کی بات ہے اور جو آبائی تلقیدی عقیدہ کی اساس کو کمزور ثابت کرتی ہے وہ الحاق ہے۔مودودی صاحب ایک طرف تو اپنے آبائی جمہوری عقیدہ کی لاج رکھنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور روایات میں قطع و برید کرکے صرف "کام کی باتیں" صحیح 1۔ ماخذوں سے نقل کرنے میں۔

؎۱ مودودی صاحب کئ نزدیک صحیح اور متعمد ترین ماخذ وہی ہیں جن کے مصنفین شیعوں کے سخت دشمن اور متعصب ترین لوگ ہوں چناچہ فرماتے ہیں "میں نے خاص طور پر ان (حافظ اب کثیر اکی تاریخ پر زیاداہ تر اعتماد دووجود سے کیا ہے ایک یہ کہ وہ تشیع کی طرف میلان تو کیا درکنار اس کے سخت مخالف ہیں شیعی روایات کی بڑے زورشورسے تردید کرتے ہیں صحابہ میں سے کسی پر اپنی حدوسع آنچ نہیں آنے دیتے اور دَور فتنہ کی تاریخ بیان (با؃۶۶ پر)بڑے محتاط ہیں لیکن دوسری طرف محققین کے زمرہ میں شامل ہوکر اپنی شان اجتہادی سے ایسے نظریوں تک پہنچ جاتے ہیں جو ان کے آبائی عقیدہ سے متصادم ہونے کے علاوہ ان کی تضادبیانی کو منظر ِعام پر ظاہر کرتے ہیں چناچہ حضرت عثمان کے قتل کے متعلق قمطراز ہیں۔

"آخر کار ان لوگوں نے ہجوم کرکے ظلم کے ساتھ حضرت عثمان کو شہید کردیا ۔ تین دن تک ان کا جسد مبارک تدفین سے محروم رہا اور قتل کرنے کے بعد ظالموں نے ان کا گھر بھی لوٹ لیا۔۔۔۔۔ اُس( شکایت ) کو رفع کرانے کے لئے صرف اتنی بات کافی ہوسکتی تھی کہ یہ لوگ مدینہ طیبہ کے انسار ومہاجرین اور خصوصاً اکابر صحابہ سے مل کر ان کے ذریعے سے حضرت عثمان کو اصلاح پر آمادہ کرتے الخ"؃۸۱۱ آگے چل کر لکھتے ہیں۔ اس مقام پر کسی شخص کو یہ شبہ لاحق نہ ہوکہ اہل مدینہ ان لوگوں کے اس فعل پر راضی تھے واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اچانک مدینہ پہنچ گئے تھے اور انہوں نے اہم ناکوں پر قبضہ کرکے ایک حد تک اہل شہر کو بے بس کردیا تھا۔؃۹۱۱" دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ۔ مدینے کے مہاجر وانصار بھی جو دراصل اس وقت مملکت اسلامیہ میں اہل حل وعقد کی حیثیت رکھتے تھے ان کے ہمنواز بننے کے لئے تیار نہ ہوئے مگر یہ لوگ (شورشی) اپنی ضد پر قائم رہے اور بالاخر انہوں نے مدینے میں گھس کر حضرت عثمان کو گھیرلیا ۔؃۷۱۱

یہ بیان ان کے آبائی تقلید جمہوری مسلک پر لیپ پوت کے لئے ہے۔اس کے بعد ان کا تحقیقی بیان سنئے جو پہلے تقلیدی بیان کے بالکل متضاد ہے۔

حضرت عثمان کے خلاف جو شورش برپا ہوئی اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ کسی سبب کے بغیر محض سبائیوں کی سازش کی وجہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی یا وہ محض اہل عراق کی شورش پسندی کا نتیجہ تھی۔ تاریخ کا صحیح مطالعہ نہیں ہے اگر لوگوں میں ناراضی پیدا ہونے کے واقعی اسباب موجود نہ ہوتے اور ناراضی فی الواقع موجود ہوتی تو کوئی سازشی گروہ شورش برپا کرنے اور صحابیوں اور صحابی زادوں تک کو اس کے اندر شامل کرلینے میں کامیاب نہ ہوسکتا تھا ان لوگوں کو اپنی شرارت میں کامیابی صرف اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ اپنے اقرباء کے معاملہ میں حضرت عثمان نے جو طرز عمل اختیار فرمایا تھا اس پر عام لوگوں میں ہی نہیں بلکہ اکابرصحابہ تک ناراضی پائی جاتی تھی۔الخ"؃۸۲۳و ؃۹۲۳۔بقیہ حاشیہ ؃۵۶

کرتے ہوئے انہوں نے حضرت معاویہ ہی نہیں یزید کی صفائی پیش کرنے میں کسر نہیں اُٹھارکھی ہے الخ "؃۵۱۳۔

مدینہ میں جب حضرت عثمان پر ہر طرف نکتہ چینیاں ہونے لگیں اور حالت یہ ہوگئی کہ چند صحابہ (زید بن ثابت۔ ابواسید ساعدی۔ کعب بن مالک اور حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم کے سوا شہر میں کوئی صحابی ایسا نہ رہا جو حضرت والا کی حمایت میں زبان کھولتا ؃۰۳۳۔

حضرت طلحہ و زبیر اور حضرت عائشہ کے متعلق بھی ابن جویر نے روایات نقل کی ہیں کہ یہ حضرات بھی اس صورتِ حال سے ناراض تھے ؃۲۳۳ اور جب 1؎ حضرت عائشہ نے خون عثمان کا بدلہ طلب کرنے کا ارادہ کیا تو ایک شخص عبد بن ام کلاب نے کہہ دیا" خدا کی قسم سب سے پہلے تو آپ ہی نے ان کی مخالفت کی تھی۔؃۲۳۳

باہر سے آئے ہوئے دوہزار شورشی دارالخلافہ پر مسلط تھے خلیفہ وقت کو قتل تک کرگذرے تھے۔ خود دارالخلافہ میں بھی ایک اچھی خاصی تعداد ان کی ہم خیال موجود تھی ۔؃۵۳۳۔

اب ذرا بنظر انصاف مودودی صاحب کے پہلے بیان میں اور ان بیانات میں تقابل کیجئے ان کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان کی گلط کاریوں کی بدولت سب مسلمان حتی کہ چار آدمیوں کے علاوہ پورے مدینے میں اکابر صحابہ تک ان کی حمایت میں زبان کوئی کھولتا تھا۔ اور ان کا مقلد انہ رویہ یہ کہتا ہے کہ سازشی لوگ اچانک مدینہ میں گھس آئے تھے اور انہوں نے شہر کی ناکہ بندی کرلی تھی۔ حتیٰ کہ اہل شہر کو انہوں نے بے بس کردیا تھا؃۹۱۱ بے شک تاریخ کا منہ چھڑانا اسی کو ہی کہا جاتا ہے۔ ایک جگہ وکیل صفائی کی حیثیت سے کہہ دیا کہ شورشیوں کو چاہیے تھا کہ مدینہ طیبہ کے انصار و مہاجر اور خصوصاً اکبر صحابہ سے مل کر حضرت عثمان کو اصلاح پر آمادہ کرتے ؃۸۱۱ اور دوسری جگہ اپنے تحقیق کے قلم سے لکھتے ہیں کہ صحابہ سے چار آدمیوں کے سوا کوئی بھی ان کی حمایت میں زبان نہیں کھولتا تھا (گویا شورشیوا کے موید تھے )؃۰۳۳ صحابی و صحابی زادے شورش میں شامل تھے۔؃۳۲۹ دارالخلافہ میں اچھی خاصی تعداد اُن( شورشیوں) کے ہم خیال تھی ؃۵۲۳ اب ذرا گریبان میں جھانک کر فیصلہ کیجئے کہ جب صحابی زادے ۔

1۔ جب شورشیوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تو حضرت عائشہ لوگوں کو بھڑکاتی تھیں اُقْتُلّوْْ انَعْثَلاً فَاِن کَفَرَ اس نثل کو قتل کروکہ یہ کافر ہوگیا ہے (نثل ایک یہودی کا نام تھا جس سے ان کو تشبیہ دی گئی (تذکرۃ الخواص سبط بن الجوز)۔

مودودی صاحب نے حضرت عثمان کے متعلق اپنی عقیدتمندی کی لاج رکھتے ہوئے لیپ پوت سے کام لے کر حضرت عائشہ کے نظریہ کو قطع و برید سے پیش کیا ہے تاکہ صورت حال پر حتی الامکان پردہ ڈالا جاسکے حقیقت یہ ہے کہ مدینے کی اکثریت حضرت عثمان کے رویے سے نالاں تھی اور سوائے چند آدمیوں کے اس کا حامی کوئی نہ تھا جیسا کہ اکابر صحابہ طلحہ زبیو عائشہ اور دارالخلافہ مدینہ میں ان کی اچھی خاصی تعداد تھی بلکہ چار آدمیوں کے سوا تمام اہل مدینہ شورشیوں کے ہم خیال تھے یاکم ازکم شورشیوں کے فعل پر راضی تھے کیونکہ ان کی حمایت میں زبان کھولنے والا کوئی نہ تھا تو ایسی صورت میں حضرت عثمان کی اصلاح کون کرواتا؟ واقعات تاریخ یہ بتلاتے ہیں ۔

مودودی صاحب نے باوجود کافی پردہ ڈالنے کے اس امر کا انکشاف کرہی دیا اور حضرت عائشہ بھی بلوائیوں اور شورشیوں کی ابتدائی کاروائی کے دوران میں مدینے میں تھی اور ان کے اس فعل پر راضی تھی ورنہ ان کو اگر روکتی تو کسی تاریخ میں اس کا کہیں نشان ہوتا اور بلوائیوں کا سرکردہ اس کا سگا بھائی محمد بن ابوبکر تھا جس سن وسال میں اس سے چھوٹا تھا اور اپنی بڑی بہن کا بہت احترام کرتا تھا اور تو اور اگر اپنے بھائی کو بلاکر اس شورش سے باز رہنے کی اس کو فہمائش کرتی تع یقیناً وہ مان لیتا اور اگر نہ بھی مانتا تو کم از کم حضرت عثمان کے ساتھ ان کی خیرخواہی تو منظر عام پر آجاتی۔ برکیف مورخین کانکتہ نگاہ یہ ہے کہ لوگوں کو حضرت عثمان کے قتل پر اکسا بھڑکا کر خود حج کے لئے مکہ چلی گئی اور جب اس کو عثمان کے قتل کی خبر ملی اور یہ کہ حضرت علی کو لوگوں نے چوتھا خلیفہ بنالیا ہے تو اس نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ اس موقعہ پر عبدبن ام کلاب بنے کہا خدا کی قسم تو ہی تو لوگوں کو اس کے قتل پر اکساتی تھی اور کہتی تھیاُقْتُلُوْانَعْثَلاً قَاتَلَہُ اللہُ اِنَّہٗ قَدْ کَفْرَاس نعثل (عثمان) کو قتل کرو خدا اس کو مارے تحقیق یہ کافر ہے (مودودی صاحب نے لیپ پوت سے کام لے کر اس جملہ کونرم کرکے پیش کیا ہے) حضرت عائشہ نے جواب دیا "ان لوگوں نے حضرت عثمان سے توبہ کرالی تھی پھر ان کو قتل کرڈالا " خدا جانے حضرت عثمان کی توبہ کو جناب عائشہ کو غائبانہ کیسے پتہ چل گیا۔ حالانکہ اگر حضرت عثمان نے اپنی ان غلطیوں سے توبہ کی ہوتی جو تمام مسلمانوں کے لئے ناراضگی کا باعث بنی ہوئی تھیں تو یقیناً ان کو قتل نہ کیا جاتا اور قاتلین میں حضرت عمر بن الحمق خزاعی بھی تھے جو صحابی رسولؐ تھے اور صحابیت کے شرف اور بلند مرتبہ کے پیش نظرناممکن ہے کہ توبہ کر لینے کے بعد بھی وہ اپنے اقدام سے باز نہ آئے ۔ ان کے متعلق خود مودودی صاحب رقمطرازہیں"عمر وبن الحمق رسولؐاللہ کے صحابیوں میں سے تھے مگر حضرت عثمان کے قتل میں انہوں نے بھی حصہ لیا تھا" ؃۷۷۱ اور جب حضرت عائشہ نے حضرت عثمان کی توبہ کا بہانہ پیش کیا تو عبدبن کلاب نے اس کو تسلیم نہ کیا بلکہ جواب میں یہ اشعار پڑھے۔

مِنْکِ الْبُکَاءُ وَمِنْکِ الْعَوِیْل اب رونا اور واویلا کرنا تجھ سے ظاہر ہے

وَ مِنْکِ الرِّیاحُ و مِنْکِ الْمَطَر حالانکہ آندھیاں اور بارش تجھ سے ہی ہوئی

وَاَنْتَ اَمَرْتِ بِقَتْلِ الْاِمَامِ اور تونے ہی امام (عثمان) کے قتل کا حکم دیا تھا

وَقَلْتِ لَنَا اِنَّہٗ قَدْ کَفَر اور تونے کہا تھا کہ وہ کا فر ہو چکا ہے۔

کہ اصلاحی اقدامات سے بالکل مایوسی ہوگئی تھی تب یہ آخری قدم اٹھایا گیا۔ اور خود مودودی صاحب نے دبے لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے کہ حضرت علی صلح و صفائی میں آخر تک کوشاں رہے اور شورشی لوگ بھی حضرت علی کے فیصلےکو مان جاتے تھے لیکن حضرت عثمان آخر تک اپنی پالیسی کو نہیں بدل سکے تھے ۔ ملا حظہ ہو۔

لوگوں نے حضرت علی سے کہا کہ آپ حضرت عثمان سے مل کر ان معاملات پر بات کریں چناچہ وہ ان کی خدمت میں تشریف لے گئے اور ان کو وہ پالیسی بدل دینےکا مشورہ دیا جس پر اعتراضات ہورہے رتھے ۔حضرت عثمان نے فرمایا کہ جن لوگوں کو میں نے عہد ے دئے ہیں انہیں آخر عمر بن الخطاب نے بھی تو عہدوں پر مامور کیا تھا پھر میرے ہی اُوپر لوگ کیوں معترض ہیں؟ حضرت علی نے جواب دیا" عمر جس کو کسی جگہ حاکم مقرر کرتے تھے اس کے متعلق اگر انہیں کوئی قابل اعتراض بات پہنچ جاتی تھی تو وہ بُری طرح اس کی خبر لے ڈالتے تھے مگر آپ ایسا نہیں کرتے آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نرمی برتتے ہیں اور حضرت عثمان نے فرمایا " وہ آپ کے بھی تو رشتہ دار ہیں" حضرت علی نے جواب دیا (ترجمہ) بے شک میرا بھی اُن سے قریبی رشتہ ہے لیکن دوسرے لوگ اُن سے افضل ہیں " حضرت عثمان نے کہا" کیا عمر نے معاویہ کو گورنر نہیں بنایا تھا " حضرت علی نے جواب دیا عمر کا غلام یرفأ بھی ان سے اتنا نہیں ڈرتا تھا جتنے معاویہ ان سے ڈرتے تھے اور اب حال یہ ہے کہ معاویہ آپ سے پوچھے بغیر جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ عثمان کا حکم ہے مگر آپ انہیں کچھ نہیں کہتے "؃۱۳۳

اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی کی باتوں کا اس پر ذرہ بھر اثر نہ ہوتا تھا بلکہ وہ اپنی غلط پالیسیوں کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک دوسرے موقعہ پر آپ نے فرمایا ۔

یہ سب کچھ مروان بن الحکم ، سعد بن العاص، عبداللہ بن عامر اور معاویہ کی بدولت ہورہا ہے آپ ان لوگوں کی بات مانتے ہیں اور میری نہیں مانتے" حضرت عثمان نے فرمایا" اچھا اب میں تمہاری بات مانوں گا" اس پر حضرت علی انصارومہاجرین کے ایک گروہ کو ساتھ لے کر

بقیہ حاشیہ ؃۸۶

فَھَبْنَااَطَعٌناكِ فیِ قَتْلِہ پس سمجھ لیجئے کہ ہم نے تو اس کے قتل میں تیرے حکم کی اطاعت کی ہے

وَقَاتِلُہٗ عِنْدَ نَامَنْ اَمَر اور حقیقت اس کا قاتل وہی ہے جس نے حکم دیا تھا (یعنی تو ہی اسکی قاتل ہے)

(الخ (تذکرہ الخواص سبط بن الجوزی) تاریخ طبری ج۵ ؃۲۷۱

مصر سے آنے والے شورشیوں کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو واپس جانے کے لئے راضی کیا ۔؃۲۳۳

اس سے مودودی صاحب کی اس لیپ پوت کا پردہ بھی چاک ہوگیا کہ شازشی لوگ میدہ مین اچانک گھس ائے تھے اور انہوں نے شرکی ناکہ بندی کرلی تھی اور اہل شہر کو بے بس کردیا تھا ؃۹۱۱ حقیقت یہ ہے یہ لوگ شورش کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ اپنے مظالم کی فریاد لے کرپہنچے تھے، جو بنی اُمیہ کے ناخدا ترس ظالم حکام کی طرف سے ان پرڈھا ئے جاتے تھے اور حضرت عثمان ان لوگوں کی شکایات پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے اور مودودی صاحب خود اس کے معترف ہیں چناچہ الریاض النصر سے سعید بن مسیب کا قول نقل کرتے ہیں ۔" آپ(عثمان اسے ان (حکام) کی شکایت کی جاتی مگر آپ ان کی شکایت کو دورنہ فرماتے )؃۴۳۳ الا صابہ (ابن حجر) سے نقل کرتے ہیں (حضرت عثمان )اپنے بعض امراء کو تبدیل کرکے لوگوں کو راضی کردیتے اور پھر انہیں دوبارہ مقرر کردیتے تھے " ؃۴۳۳ اور فیض الباری سے انورشاہ صاحب کا قول نقل کیا ہے۔

پھر ان فتنوں کے بھڑکنے کا سبب یہ ہوا کہ امیرالمومنین عثمانؓ اپنے رشتہ داروں کو مناسب حکومت پر مقرر کرتے تھے اور ان میں سے بعض کا طرز عمل اچھا نہ تھا اس پر لوگ معترض ہوئے اور ان کی شکایات لوگوں نے حضرت عثمانؓ تک پہنچائیں مگر حضرت نے ان کو سچ نہ سمجھا اور خیال کیا کہ یہ لوگ میرے رشتہ داروں سے خوامخواہ جلتے ہیں اور شاید انہیں میرے رشتہ داروں کا مناسب پر مقرر کیا جا ناگوار ہے اس لئے یہ ان کی شکایتیں کرتے ہیں۔۔۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اگرچہ رشتہ داروں کو لوگوں کی شکایتوں پر معزول نہیں کیا مگر آپ نے ان کی حمایت بھی نہیں کی۔؃۵۳۳

خدا اس اندھی تقلید کا ستیاناس کرے جب ان ظالم حکمرانوں کو معزول نہیں کیا جاتا ، بلکہ ویسے کا ویسا ان کو ان کی گردنوں پر سوار رکھا جاتا ہے اور عہدۂ گورنری پر ان کو برقرار کیا جاتا ہے وہ جس طرح چاہیں ان کا خون چوستے رہیں تویہ ان ظالم گورنروں کی حمایت نہیں تو اور کیا ہے۔

حضرت عثمان خویش نوازی اور کنبہ پروری میں وہ اس بہانہ سے اُن کی حمایت کریں لیکن حضرت علی علیہ السلام نے رشتہ داری کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا " دوسرے لوگ اُن سے افضل ہیں" اور وہ اِن مناسب کے زیاداہ سزاوار ہیں۔

بہر حال یہ لوگ اچانک مدینہ میں نہیں گھسے تھے بلکہ اصلاح طلنی کی خاطر آئے تھے اور کافی دیر تک انصار و مہاجرین کے ذریعے سے کوششیں جاری رہیں جس کا مودودی صاحب کو اعتراف ہے؃۱۳۲

؃۲۴۲ لیکن حضرت عثمان نے آخر تک اپنی پالیسی نہ بدلی جس کے نتیجے میں سوائے چار آدمیوں کے حضرت عثمان کا پُورے مدینے میں کوئی بھی حامی نہ رہا۔ اور حضرت علی علیہ السلام نے بھی ان اصلاحی کوششوں کی ناکامی کا شکوہ کیا ہے چنانچہ خلافت وملوکیت میں اس کا اعتراف موجود ہے حضرت علی علیہ السلام عثمان سے بات چیت کرنے کے بعد مہاجرین و انصار کی ایک جماعت لے کر شورشیوں کے پاس گئے اور ان کو واپس جانے پر رضامند کیا لیکن حضرت عثمان پھر بھی اپنی سابق پالیسی پر برقرار رہا۔ ملاحظہ ہو۔

اس زمانہ فتنہ میں ایک اورو موقعہ پر حضرت علی سخت شکایت کرتے ہیں کہ میں معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہوں اور مروان ان کو پھر بگاڑ دیتا ہے آپ خود منبر رسولؐ پر کھڑے ہوکر لوگوں کو مطمئن کردیتے ہیں اور آپ کے جانے کے بعد آپ ہی کے دروازے پہ کھڑا ہوکر مروان لوگوں کو گالیاں دیتا ہے اور آگ پھر بھڑک اٹھتی ہے۔؃۲۳۳

اب ان حقائق کا اعتراف کر لینے کے بعد بھی یہ کہنا کہ شورشی اچانک گھس آئے تھے الخ لیپ یوت نہیں تو اور کیا ہے؟ اور یہ دعویٰ کہ "چاروں خلفاء حکومت کے انتظام اور قانون سازی کے معاملے میں قوم کے اہل الرائے لوگوں سے مشورہ کئے بغیر کام نہیں کرتے تھے ؃۷۸ صرف عقیدہ کو آنکھیں بند کرکے قائم رکھنے کے لئے ہی ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں