قانونی گرفت کے ساتھ ساتھ اسلام نے امیر و غریب کو ایک دوسرے کے قریب تر کرنے اور ایک دوسرے کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے تمدنی ذرائع اور اخلاقی ضوابط تشکیل کیے ہیں عالم کی کوئی تقسیم اور دنیا کا کوئی آئین اس سے بہتر پیش نہیں کر سکتا مثلا ایک طرف امراء کو تکبر اور برائی سے اجتناب کرنے کی دعوت دی تو دوسری طرف غرباء طبقہ کو خود داری اور خود اعتمادی کا جذبہ تعلیم کرتے ہوئے ان کو امراء کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے منع فرمایا اسی طرح امراء کو غرباء پر صدقہ کرنے کا حکم دیا ان سے خمس زکوۃ خیرات وغیرہ کی ادائیگی کو واجب قرار دیا اورغرباء کو امراء کے مال پر للچائی نظریں ڈالنےسے گریز کرنے کی دعوت دی اور مال حرام سے بچتے ہوئے اپنے تھوڑے حلال پر قناعت کے کرنے کا سبق دیا ایک طرف امراء کو غریب طبقہ کے لوٹنے سے منع کیا تو دوسری طرف غرباء کو امراء کا مال چرانے سے باز رکھا ۔
جہاں ایک طرف امراء کو ظلم سے منع کیا وہاں دوسری طرف ان کو صبر اور سکون حوصلہ کی تلقین فرمائی اسی طرح مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا کر امیر و غریب کوایک سٹیج پر کھڑا کیا اور ایک دوسرے سے محبت کے برتاؤ کو ایمان کی علامت قرار دیا اور تشدد سے منع فرمایا تو دوسری طرف تجاوز اور چشم پوشی کا حکم دے کر انسانیت کے لیے روحانی جنت کا سامان مہیا فرما یا مسلمانوں کو صحیح اسلامی جذبہ سے سرشار ہونے کی توفیق دے تاکہ امیر و غریب اور حکمران و رعایا سب اللہ کی زمین میں امن و سکون کا سانس لے