اقتدار کی منتقلی میں بے راہ راوی کی جو ابتداء مسلمانوں میں روز اول سے ہوئی اس کا خمیازہ ان کو ہمیشہ بھگتنا پڑا اگر رسالت مآبؐ کی وصیت کے پیش نظر حضرت علی کی نامزدگی پر اکتفا کیا جاتا اور اس کے مقابلہ میں جمہوری طریق کار کو رائج نہ کیا جاتا تو ایک طرف امت اسلامیہ دور اول کے گھناؤنے واقعات سے دامن بچا لیتی اور دوسری طرف اقتدار کی منتقلی کے پر امن ذرائع ہاتھ سے نہ چھوٹتے ۔
اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ دور حاضر میں اسلامی
حکومت کونسی تصور ہو گی تو اس کا جواب صرف یہ ہی ہو سکتا ہے کہ جمہوری تقاضوں کے
پیش نظر اگر حکومت اسلامیہ کے قیام کا نعرہ بلند کر کے عام رجحانات کو اپنے ساتھ
ملا کر کوئی شخص یہ خدمت انجام دینا چاہے تو موجود طریق کار اور اسلامی اقدار کی
کسمپرسی اور ساتھ ساتھ قیود و مذہب سے آزادی کا عام تصور قطعاً اسے پنپنے نہ دے گا کیونکہ دور حاضر میں اقتدار
حاصل کرنے کے لئے ہر رائج الوقت ذریعہ کو اپنائے بغیر چارہ نہیں پس اقتدار کی کرسی
سنبھال لینے کے بعد جس کسی کو خدا توفیق دے اور انسانی اقدار کا قدر دان بن کر خدمت
خلق کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرے پس خدائی اصولوں کو اپناتے ہوئے اسلامی طریق کار
کا مشعل راہ بنائے اور رعایا کے لئے عدل و انصاف کی راہیں ہموار کر کے اسلامی و
شرعی آئین کو رائج کرنے کی جرات کرے تو ایسا شخص اپنی ذات کے لئے بھی صحیح خیر
خواہ ہو گا اور افرادرعایا کی بھلائی کی توقع بھی اس سے ہو سکے گی اور یقیناً ایسا
کرنے والا اپنے اندر رعایا کی جانب سے اطمینان محسوس کرے گا اور رعایا کو بھی اس
کی حکومت میں امن و سکون کا سانس لینا نصیب ہو گا اور ہر دو طرف سے جب بے چینی ختم
ہو جائے گی تو مملکت چین و اطمینان کا گہوارہ ہو گی پس ایسی حکومت یقیناً اسلامی حکومت
کہلانے کی مستحق ہو گی اور اس میں آباد معاشرہ اسلامی معاشرہ متصور ہو گا خدا کرے
ایسا دن بہت جلد آئے جب حکمران طبقہ میں یہ احساس پیدا ہو اور ملک آئے دن کے
فسادات و بے چینیوں سے پاک و صاف ہو کر اچھے اور ستھرے ماحول کو جنم دینے کے قابل
ہو۔