التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

موت اوروفات میں فرق

موت اوروفات میں فرق
موت اوروفات میں فرق
سب سے پہلے وفات اورموت تَوَفِّیْ اور اِمَاتَہ کے معنی میں فرق سمجھنا ضروری ہے اوراس مسئلہ کا حل بھی اسی پر ہی موقوف ہے۔
تَوَفِّیْکامادہ اشتقاق وَفی وَفَا ًئہے اوراس کا معنی ہے پورا دینا مثلاً کہا جاتاہے فلاں نے فلاں سے وفا کی یعنی اس کو اپنا حق پورا دے دیا یا اس کا حق پورا ادا کردیا اورتَوَفّی کا معنی ہے پورا لے لینا جیساکہ اس کی مطاوعت کا تقاضا ہے جس طرح کہا جائے وَفَا لَہ فَتَوَفّی یعنی اس نے اس کو پورا حق دے دیا پس اس نے پورا لے لیا۔
امَاتہ موت سے اوراحیاحیات سے ہے اورموت وحیات میں تقابل ہے پس موت کا معنی ہے عدم الحیات (زندگی کا سلب ہونا ) قرآن مجیدمیںتَوَفِّیْ اورموت ہر دولفظیں استعمال کی گئی ہیں لیکن ان کے محل استعمال میں غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ان کے معانی الگ الگ ہیں اورتَوَفِّیْ کا معنی موت سے عام ہے کیونکہ اس کامعنی ہے پورا لے لینااورموت میں بھی چونکہ نفس انسانی کو خدااس کے بدن سے پوری طرح نکال لیتا ہے اس لئے موت پر بھی تَوَفِّیْ کا اطلاق کردیا جاتا ہے جس طرح انہی مناسبات وخصوصیات کی بناپر ارتحال اورقضاکی لفظٰیں بھی موت کے معنی میں استعمال ہوتی ہیں حالانکہ معنی کے لحاظ سے اس سے عام ہیں اور ہماری زبان میں بھی یہ استعمال بعینہ موجودہے مثلاً کہا جاتا ہے فلاں کی موت آگئی قضا آگئی اجل آگئی پوری ہوگئی ختم ہو گئی، لیکن ان استعمالات سے ہرگز یہ دھوکا نہیں کھایا جاسکتا کہ قضا اجلپوری رحلت اور ختم وغیرہ کی لفظیں جہاں بھی استعمال ہوں گی ان سے مراد موت لی جائے گی اب قرآن مجید میں تَوَفِّیْ کے استعمالات ملاحظہ فرمائیے:
تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا (سورہ انعام ) ہمارے فرستادہ (ملائکہ ) اس کو پورا لے لیتے ہیں یعنی اس کی روح کو قبضہ میں کر لیتے ہیںاور ملائکہ کے روح کو قبضہ میں لینے سے چونکہ قوائے جسم سے حیات رخصت ہو جاتی ہے بنا بریں اسے موت کی جگہ پر استعمال کیا گیا۔
قُلْ یَتَوَ فّٰکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِلَّ بِکُمْ (سورہ سجدہ) تمہیں پوری طرح لے لیتا ہے یعنی تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے وہ موت کا فرشتہ جو تمہارے اوپر وکیل ہے تَوَفِّیْ کو موت سے کنایہ کیا گیا ہے۔
اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا فَیُمْسِسْکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُ خْرٰیٰ ( سورہ زمر) اللہ پوری طرح لے لیتاہے (محفوظ کرلیتا ہے ) نفسوں کو جن کی موت آچکی ہے اورجن کو موت نہیں آئی (نیند میں ) پس اپنے پاس روک لیتا ہے ان کو جن کی موت کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے اوردوسروں کو چھوڑ دیتا ہے اس آیت میں صاف ظاہر ہے کہتَوَفِّی موت سے عام ہے یعنی بوقت نیند تمام نفسوں کی وفات ہو جاتی ہے یعنی تمام نفسوں کو قبض کرلیا جاتا ہے اورمحفوظ کر لیا جاتا ہے پس جن کی موت آچکی ہو ان کو روک لیا جاتا ہے اورجن کی اجل باقی ہو ان کی واپس بھیج دیا جاتاہے اس سے معلوم ہوا کہتَوَفِّیْ کو قرآن مجید میں جس مقام پر موت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے وہاں اسے پورا لینے اورمحفوظ کرنے کے معنی کو ملحوظ رکھ کر کنایہ موت سے کیا گیا ہے اوراس میں تنبیہ ہے کہ اس جگہ موت کا معنی بالکل فنا اورباطل ہوجانا نہیں بلکہ اللہ اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہے اورجب چاہے اسے واپس بھی بھیج سکتا ہے بہر کیف جہاں بھی قرآن میں تَوَفِّیْ کامعنی موت لیا گیا ہے وہ صرف کنایہ ہے کیونکہ موت میں بھی نفس کو پورا لے لیا جاتا ہے اورتَوَفِّیْ کامعنی بھی یہی ہے ورنہ درحقیقت تَوَفِّیْ کامفہوم موت سے عام ہے۔
 پس اس مقام پر ترجمہ آیت ےہ ہے کہ ارشاد قدرت ہوا: اے عیسیٰؑ! میں تجھے پورا لینے والا اور محفوظ کرنے والاہوں اوراپنی طرف اٹھالینے والاہوں اور تجھے کافر لوگوںسے پاک ومنزہ کرنے والا (یعنی نجات دینے والا ہوں) اور ےہودیوں کے ادّعا وقتل کو دوسرے مقام پر اس طر ح ردّ فرماتا ہے چنانچہ ارشاد ہے:
ترجمہ: ان کا کہنا ہے ہم نے مسیح عیسیٰؑ بن مریم ؑرسول اللہ کو قتل کردیا ہے حالانکہ نہ انہوں نے ان کوقتل کیا ہے نہ سولی چڑھایا ہے لیکن ان کو شبہ دیاگیااوروہ لوگ جو اس بارے میں اختلاف کرتے ہیںان کواشتباہ ہے ان کے پاس کوئی علمی خبر نہیں سو ائے اطاعت ظن کے اور یقینا انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اس کو خدا نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ عزیز و حکیم ہے اور کوئی اہل کتاب نہیں جو ان کی موت سے قبل ان پر ایمان نہ لائے اور وہ بروز قیامت ان پر گواہ ہو گا (سورہ نساء)
پس قرآن مجید واضح اور غیر مبہم الفاظ میں حیات حضرت مسیح کا اعلان کر رہا ہے اور جو لوگ ان کی موت کا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں وہ صرف اپنے مسیح موعود ہونے کے دعویٰ کی تصدیق کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں اور عوامِ جہلاکی آنکھوں میں دھول جھونک کر قرآن مجید کے بعض الفاظ کو اپنے استشہاد میں لاتے ہیں خدا وند کریم جملہ مومنین کو ان کی تسویلاتِ باطلہ و تاویلاتِ عاطلہ کی گرفت سے محفوظ و مصون فرماوے ۔
موتِ مسیح ثابت کرنے کے لئے یہ لوگ کشمیر میں ایک مفروضہ قبر پیش کر کے جہلا کو اس دھوکا میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہی حضرت عیسیٰؑ کی قبر ہے جو یہودیوں کے ڈر سے یہاں بھاگ آئے تھے اور پھر اسی جگہ دفن ہوئے حالانکہ یہ صرف فرضی افسانہ اور من گھڑت ترشی ترشائی ہوئی بے بنیاد اور بے سرو پا داستان ہے جس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں اور مدعی مسیحیت کے دعویٰ کی تکذیب کےلئے یہی کافی ہے کہ دنیا بھر کے اہل کتاب اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان لانا تو در کنار اس کو جانتے تک نہ تھے کہ یہ کس باغ کی مولی ہے، ہاں بعض شاذ و نادر افراد سے اس کے راہ و رسم اِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ کے استغراقی مفہوم کی خانہ پری نہیں کر سکتے پس معلوم ہو اکہ وہ مسیح جس کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب اس پر ایمان لائیں گے وہ ابھی زندہ موجود ہیں اور وہ حضرت مہدی علیہ السلام کی معیت میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور ان کی تشریف آوری کے بعد آیت مذکورہ کی عملی تصدیق ہو گی اور خدا کا وعدہ سچا ثابت ہو کر رہے گا۔
وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ: خدا وند کریم نے حضرت عیسیٰؑ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تیرے تابعداروں کو کافروں پر فوقیت دوں گا قیامت تک کےلئے اور تابعدارانِ حضرت عیسیٰؑ جناب رسالتمآب کی اطاعت کا حکم دے گئے تھے پس مطلب یہ ہو اکہ قبل بعثت کے اطاعت گزار عیسائی اور بعد بعثت کے اطاعت گزار مسلمان کافر لوگوں پر قیامت تک فوقیت رکھنے والے ہوں گے اور فوقیت سے مراد نہ ملکی و سیاسی فوقیت بلکہ روحانی و علمی بلندی ہے لیکن یہ توجیہ دو وجہ سے درست نہیں ہے:
اولاً :  تو خدا وند کریم یہودیوں کی ایذارسانی کے مقابلہ میں فر ما رہا ہے کہ تجھے محفوظ کر کے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تیرے اطاعت گزاروں کو غلبہ عطا کروں گا اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو بالفعل یہودیوں سے مغلوب ہونے کی وجہ سے جو کوفت و تکلیف تھی اس کے بدلہ میں خدا ان کے اطاعت گزاروں کے غلبہ کی خوشخبری سے ان کی تالیف خاطر فرمارہا ہے تاکہ ان کا رنج خوشی سے اور غم سرور سے متبدل ہو جائے تو حضرت عیسیٰؑ کی مغلوبیت جس نوع کی ہو گی یہ غلبہ بھی اسی قسم کا ہوگا جس کی بشارت دی جا رہی ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی مغلوبیت روحانی و علمی قسم کی نہ تھی بلکہ اس حیثیت سے تو وہ یقینا غالب تھے تو یقینا ان کی مغلوبیت یہی ظاہری قسم کی تھی جو قوت و طاقت کے فقدان کا نتیجہ ہواکرتی ہے لہذا ان کی تالیف قلبی و تسکین خاطر کے طور پر ان کے اطاعت گزاروں کے روحانی و علمی تفوق کی خوشخبری سنانا بے محل اور بے معنی ہے۔
ثانیاً : روحانی و علمی غلبہ یعنی دلیل و برہان کا تفوق ایک ایسی بلندی ہے جو ناقابل زوال ہے پس تا قیامت کی قید لگانا خلافِ بلاغت ہے پس بنا بریں زیادہ موزوں و مناسب یہی ہے کہ اس فوقیت سے مراد سطوت ظاہری و سلطنت ملکی ہو ۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے اطاعت گزار قبل از بعثت تو عیسائی لوگ تھے لیکن بعد از بعثت ان کے اطاعت گزاروں سے مراد مسلمان ہیں اور مسلمانوں کو بہ نسبت کفار کے تفوق ملکی کب حاصل ہے؟ بلکہ دیکھنے میں تو کفار کو بدرجہا تفوق و غلبہ حاصل ہے؟
تو اس کا حل یہ ہے کہ اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے مراد یہودی ہیں اور اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ سے مراد نصاریٰ ہیں اور گرچہ موجودہ نصاریٰ لوگ حضرت عیسیٰؑ کے صحیح اطاعت گزرا نہیں ہیں لیکن چونکہ ان کے گزشتہ آباجو بعثت سے پہلے تھے حضرت عیسیٰؑ کی شریعت پر صحیح طور پر گامزن تھے اور یہ لو گ ان لوگوں کی اطاعت پر راضی ہیں بلکہ فخر کرتے ہیں لہذا ن کو بھی اس خطاب میں متّبعینِ حضرت عیسیٰؑ سے شمار کر لیا گیا جس طرح قوم یہود کو اپنے آباکے افعال شنیعہ پر راضی ہونے کی وجہ سے مورد طعن و تشنیع قرار دیا گیا پس آیت مجیدہ میں خوشخبری ہے حضرت عیسیٰؑ کو کہ ان کے تابعدار جو اپنے تئیں عیسائی کہلوانے والے ہوں گے ان کافر لوگوں پر تسلط و اقتدار کے مالک ہوں گے اور ان کا اقتدار تا قیامت رہے گا اور قوم یہود پر مغلوبیت کا عذاب دائمی رہے گا اور سب سے انسب یہی ہے کہ اس سے مراد زمان ظہور حضرت قائم آل محمد عج اللہ فرجہ لیا جائے کیونکہ ان کی معیت میں حضرت عیسیٰؑ بھی دوبارہ اٹھیں گے پس ان کے اطاعت گزاروں کا بول بالا ہو گا اور پوری دنیا پر وہ اقتدار کے مالک ہو گے واللہ اعلم
نَتْلُوْہُ عَلَیْکَ: کتاب سے مراد مطلق وحی اور ذکر سے مراد قرآن اور حکیم بمعنی محکم اس کی صفت ہے پس کتاب کے بعد ذکر حکیم تخصیص بعد تعمیم ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں