جس طرح حضرت محمد مصطفیٰ تمام صاحبانِ شریعت
انبیائے سابقین سے افضل ہیں اسی طرح ان کے اوصیائے طاہرین جو مروّجِ شریعت اور
مبلّغین احکامِ قرآن ہیں انبیا ٔ کے قائم اوصیا ٔ سے افضل ہو نگے اور جس طرح یہ
قرآن کتب ِسابقہ اور صحائف ِگذشتہ پر حاکم ہے اسی طرح اس کے مبلّغین (اوصیائے رسالت)ان
کتابوں اور صحیفوں کے مبلّغین پر حاکم ہونگے، بلکہ اس قاعدہ سے اوصیائے جناب محمد
مصطفیٰ گذشتہ صاحبان شریعت انبیا ٔ سے بھی افضل ہوں گے کیونکہ حضرت آدم ؑ سے لے
کر حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیا ٔ حضرت رسالتمآبؐ کے سامنے رعا یا کی حیثیت رکھتے
ہیں تو ان کے اوصیائے طاہرین ؑ کے سامنے بھی وہ بحیثیت رعایا کے ہوں گے۔
مثال کے طور پر ایک ملک میں ہر ضلع و ریاست کا
حکمران جس طرح پورے ملک کے بادشاہ کی رعایا میں شمار ہوا کرتا ہے اسی طرح
ملک کے بادشاہ کے وزرا ٔ کا بھی وہ محکوم اور فردِ رعیت شمار ہو تاہے ہر ضلع یا
صوبہ ریاست کا حاکم اپنے ماتحت پر حاکم ضرور ہے لیکن اپنے ملکی بادشاہ یا اس کے
وزرا ٔ کا ماتحت ہونا بھی اس کی کسرشان بلکہ اس کے لئے مقام فخر ہوا کرتا ہے، یہاں
بھی اپنے اپنے حدود ِشرع کے اندر ہر نبی اپنی امت کا حاکم اور بادشاہ ہے لیکن حضرت
محمد مصطفیٰ کی عالمی نبوت کے مقابلہ میں چونکہ وہ بحیثیت امت اور رعایا کے ہے
لہذا آنحضرتؐ کے اوصیأ و خلفائے طاہرین ؑ بھی ان کے سردار اور حاکم ہیں۔
بلکہ جہاں تک جناب رسالتمآبؐ کا دائرۂ نبوت ہے
وہاں تک ان کا دائرۂ خلافت ہے اگر وہ عالمین کے لئے بشیر و نذیر ہیں تو یہ بھی
عالمین کے امام و امیر ہیں، لہذا تحتُ الثریٰ سے عرشِ عُلا تک اگر محمد مصطفیٰ کی
حکومت ہے تو ساری کائنات میں آنحضرتؐ کے اوصیائے طاہرین کی خلافت و ولایت ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جناب رسالتمآب ؐکے بعد
ظاہری مسندِ اقتدار خواہ کوئی سنبھال لے حقیقت میں مسندِ رسالت کا اہل اور ملکِ
خلافت کا تاجدار وہی ہوگا جس کا اقتدار عرش سے لے کر فرش تک مسلّم ہو اور جس کی
غلامی میں انبیا ٔ و معصومین ؑ اور ملائکہ مقربین سب داخل ہوں اور اس عہدہ جلیلہ
کا اہل غیر معصوم ؑ تو یقینانہیں ہوسکتا، پس حضرت (محمدؐ) ہی اس عہدہ پر فائز ہو
سکتے ہیں اور چونکہ جناب رسالتمآب کی شریعت کی حدود قیامت سے جاملتی ہیں تو ان کے
اوصیائے طاہرین ؑ کا سلسلہ بھی قیامت تک قائم رہنا ضروری ہے اور وہ سب کے سب آل
محمدؐ ہی سے ہیں اس وقت سرکارِ رسالت کے آخری جانشین۔۔۔ خلافت ِالٰہیہ کے آخری
تاجدار۔۔۔ مسلکِ امامت کے بارہویں درّشہوار۔۔۔ حضرت حجۃُ العصر۔۔۔ صاحب الامر۔۔۔
امام زمان۔۔۔ مہدی ؑ وہادی علیہِ و علٰی آبائہٖ السَّلام عجّل اللّٰہ فرجہ موجود
ہیں جو قرآن و شریعت کے حقیقی محافظ و نگہبان ہیں اور انہی کے وجودِ مسعود کی
برکات سے وجودِ کائنات باقی ہے، ایک وقت مقرر تک اللہ کی حکمت و مصلحت سے غائب ہیں
جب پردۂ غیبت اُٹھے گا عالمِ ظاہر میں تشریف فرما ہو کر عالمی مسندِ اقتدار پر
متمکن ہوں گے اور قرآن و شریعت کو نئی زندگی بخش کر پورے روئے زمین کو عدل و
انصاف سے بھر دیں گے جس طرح کہ ظلم و جور سے بھر چکی ہے اور انکے وجودِ غائب سے
دنیا اس طرح استفادہ کر رہی ہے جس طرح بادلوں میں چھپ جانے کے بعد سورج سے کیا
جاتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ خدا کی طرف سے قرآن کا آجانا
کافی ہے اور اس کے سمجھانے کیلئے صرف حضرت محمد مصطفیٰ کافی ہیں اور ان کے
گزر جانے کے بعد ان کے جانشین کے تقرر کا اختیار تمام اُمت ِاسلامیہ کو حاصل ہے وہ
جسے منتخب کردے بس درست ہے کیونکہ سب امت باطل پر جمع نہیں ہو سکتی، تو اس صورت
میں وسعت ِنظری اور بلند حوصلگی سے یہ خیال کرنا ہوگا کہ کیا حضوؐر کی حدودِ رسالت
صرف مدینہ یا مکہ یا اطرفِ حجاز و عرب تک محدود تھیں؟ اگر جواب نفی میںہے تو پھر
دامنِ انتخاب کو بھی حدودِ مملکتِ نبوت کی وسعتوں تک پھیلانا پڑے گا کیونکہ محدود
علاقہ اور محدود اقوام تک اگر ان کی نبوت ہوتی تو انتخاب کو بھی اسی قدر محدود
ہونا چاہے تھا لیکن اگر حدودِ مملکتِ نبوت عرش سے فرش تک اور ناسوت سے لے کرملکوت
تک پھیلی ہوئی ہو تو انتخابات کو صرف مدینہ تک بلکہ وہاں کے بھی گنے چنے چند افراد
تک محدود کیوں کر دیا جائے؟
تاریخ بتلاتی ہے کہ بہت سے صحابہ اس انتخاب پر
راضی نہیں تھے جنہوں نے پُر زور احتجاجات بھی کئے۔۔۔ آواز بھی اٹھائی لیکن دبا دی
گئی، چنانچہ انصار نے سقیفائی اجتماع میں کھلا نعرہ لگایا تھا: لا
نُـبَایِعُ اِلَّا عَلِیًّا یعنی ہم علی ؑ
کے علاوہ کسی دوسرے کی بیعت نہ کریں گے (تاریخ طبری)
اب کسی کا برسرِ اقتدار آجانا اور اس کی حکومت کا
مضبوط ہو جانا اور مخالف آواز کا مرعوب ہو کر دَب جانا اور بات ہے اور اس کو صحیح
اور قانونی طور پر منتخب ماننا اور شئے ہے، اربابِ تاریخ و سیر نے مسئلہ انعقاد
اجماع اور کیفیتِ خلیفہ سازی کا کافی بسط و تفصیل کے ساتھ معتبر ذرائع سے اپنی
تصانیف میں مبر ہن اور مدلّل طور پر محقّقانہ انداز کے ساتھ ایسا واضح و عیان کیا
ہے کہ منصف طبائع کو تلاش حق میں زرّہ بھر دقت نہیں رہتی، چنانچہ آغا سلطان مرزا
کی کتاب ’’البلاغ المبین‘‘ جو بلند پایہ مصنف کی ایک قابلِ قدر تصنیف ہے اس موضوع
پر ہر پہلو سے تحقیقی بحث کرنے میں اپنی نظیر آپ ہے اور مصنف کے تاریخی معلومات
میں یدِطولیٰ کا پتہ دیتی ہے اور اگر بنأ بر تسلیم اس انتخاب کو درست مان لیا
جائے تو پھر سوا ل پیدا ہو گا کہ دوسری خلافت کے تعین کیلئے اس طرزِ عمل کو کیوں
ترک کر دیا گیا؟ اور بطورِ نامزدگی کے تقرری عمل میںکیوں آئی؟
اگر پہلا طریق تعین (انتخابات) درست تھاتو اس کو
ترک کرنا ناجائز تھا پس دوسری خلافت غیر قانونی ہو گی اور اگر دوسرا طریقہ درست
تھا (یعنی نامزدگی) تو دونوں خلافتیں غلط ٹھہریں۔۔۔۔۔ پہلی اس لئے کہ وہ نامزد
نہیں تھے اور دوسری اس لئے کہ جس نے نامزد کیا وہ غلط جانشین تھا۔۔۔ لہذا۔۔۔اس کو
نامزدگی کا حق ہی حاصل نہیں تھا۔
لطف یہ کہ تیسرے دورِ خلافت میں نامزدگی بھی نہ
رہی بلکہ ایک شورائی کمیٹی بنا کر تقررِ خلیفہ کا حق ان کو دے دیا گیا، اب اگر اس
کو درست کہا جائے تو پہلے ہر دو طریق غلط تھے اور اگر پہلے غلط تھے تو یہ خود بخود
غلط تھا۔۔۔ کیونکہ انہی کا ایجاد کر دہ تھا اب کوئی خاک سمجھے کہ نبی کی خلافت کا
تعین کیسے ہونا چاہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گو یا خلافت ِنبویہ بااقتدار طبقہ کے
ذاتی رجحانات کے ماتحت نئے نئے طریق بدل کر نئے روپ میں نئے جنم لیا کرتی ہے اس کا
نہ کوئی قاعدہ ہے اور نہ قانون۔۔۔ بلکہ جو جس طریق سے اور جس طرزِ عمل سے مسند
نشین ہو جائے درست ہے، اس بحث کو ہماری کتاب ’’امامت و ملوکیت‘‘ میں مفصل ملاحظہ
فرمایئے۔
بالفرض اگر یہ کہا جائے کہ اپنے اپنے مقام پر وہ
سب طریق درست تھے اور سب پر اجماعِ امت کا اطلاق ہو گیا تو سوال یہ ہے کہ اس سلسلہ
کو نبی علیہ السلام کے بعد تھوڑے عرصہ تک محدود کیوں کر دیا گیا؟ جب نبوت کی حد
قیامت ہے تو تقررِ خلافت بھی قیامت تک ہے، لہذا اس طرزِ عمل کو قیامت تک جاری
رکھنا چاہیے۔۔۔ اگر عذر پیش کیا جائے کہ خلافت بعد میں اقتدار کا تختۂ مشق بن گئی
اور اقتداری رکاوٹیں انتخاباتِ صحیح کی راہ میں حائل ہو گئیں تو ہم پوچھیں گے کہ
یہ اقتدار جو عام انتخابات کی راہ میں روڑا بن گیا کیوں نا جائز ہے؟ اور وہ اقتدار
جو عام انتخاب نہ ہو نے کے باوجود اجماع کا ڈھنڈ ورا پیٹتا رہا کیوں جائز ہے؟ یا
ان دونوں میں فرق کی کیا وجہ ہے؟
بہر حال یہ سوال اپنے مقام پر باقی ہے کہ دورِ
اوّل کے اقتدار نے حدیث غدیر مَنْ کُنْتُ مَولاہُ فَعَلِیّ مَوْلاہ کے سننے کے بعد
نیز علی ؑ کو رسالتمآبؐ کا اپنا عمامہ (سحاب) بطورِ رسم تاج پوشی بندھانے اور
صحابہ کے رسوم مبارک باد۔۔ ادا کرنے کے بعد عہد رسالت کوکیوں چھوڑا اور ولایت علی
ؑ سے منہ کیوں موڑا؟
اگر بنفس نفیس خود حضرت رسالتمآبؐ اپنے ولی عہد
کو لاکھوں کے مجمع میں نامزد فرمادیں تو خلافت کے انعقاد کیلئے ناکافی ہے اور امت
بعد میں انتخاب سے تقرر کرے (اور وہ بھی چند آدمیوں کا) یا نامزدگی کو طریق تقررِ
خلافت قرار دے یا شورائی کمیٹیاں تشکیل دے کر کام نکال لے تو سب کچھ درست اورکافی
ہے (عجب ہے معیارِ خلافت) اگر جناب رسالتمآب کی طرف یہ نسبت دی جائے کہ انہوں نے
فرمایا تھا میرے صحابہ کا اجماع یا میری امت کا اجماع حق ہے یہ کہ میری امت باطل
پر کبھی جمع نہ ہوگی یا یہ کہ میرے صحابہ واجبُ الاتباع ہیں و غیرہ، تو ہمیں
دریافت کرنے کا حق حاصل ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں بعض صحابہ کا اجتماع یا بنأ بر
تسلیم تمام اہل مدینہ کا اجماع (گو حضرت علی ؑ اور بعض دیگر اکابر صحابہ شریک نہ
ہوئے تھے) اگر حق اور واجبُ الا تباع ہے تو میدانِ غدیر میں ایک لاکھ سے زائد
لوگوں کا اجماع جن میں مکی۔۔۔ مدنی۔۔۔ طائفی۔۔۔ یمنی۔۔۔ مصری۔۔۔ بصری۔۔۔ کوفی۔۔۔
شامی وغیرہ اطرافِ مملکتِ اسلامیہ کے افراد موجود تھے اور خود بنفس نفیس حضرت
رسالتمآبؐ بھی تشریف فرما تھے اور شریکِ اجماع بلکہ محرکِ اجماع تھے اور تحریک
اجماع بحکم آیت یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ
مِنْ رَّبِّکَ واقع ہوئی اور جناب رسالتمآبؐ نے اپنی زبانِ وحی ترجمان سے اس کی
ابتدا فرمائی اور تمام صحابہ نے برضائے تام بلا پس و پیش فرائضِ بیعت و مبارکباد
ادا کئے، رسم تاج پوشی بھی ادا ہوئی۔۔۔۔۔ تو بتایئے۔۔۔۔۔ اتنا زبردست اجماع کیوں
ٹھکرادیا گیا؟
سب کچھ سہی لیکن اب جبکہ ممالک اسلامیہ دینی مقاصد
سے دور جا رہے ہیں۔۔۔ قرآن کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔۔۔ اسلام پر مخالفینِ اسلام
آوازیں کس رہے ہیں۔۔۔ تمام عالم اسلامی نہایت بے چینی سے وجود حضرت قائم آل
محمد۔۔۔ صاحب الزمان۔۔۔ امام العصر۔۔۔ مہدیؑ و ہادی عَلَیْہِ السَّلام عَجَّلَ
اللّٰہ فَرَجَہ کی انتطار میں ہے، ذرائع نقل و حرکت، آمد و رفت نہایت آسان ہیں
اور اجماع کی حجیت بھی قیامت تک کے لئے ہے۔۔۔ تو دریں صورت تمام عالم اسلامی کو
بجائے انتظار کے ایک عالمی مجلس مشاورت قائم کر کے کسی ایک کو عہدہ مہدویت سپرد
کرنا چاہیے جو کفیل نظام اسلامی ہو اور مژدہ امن ہو کر فسق و فجور اور ظلم و جور
کا قلع و قمع کردے۔۔۔ پس وہ مہدیؑ ہو گا اور اس صورت میں تمام عالم مزید خطرات سے
دور اور محفوظ ہو جائے گا۔۔۔ دنیا آرام و اطمینان کا سانس لے گی، جب اپنے بس کی
بات ہے تو خدا سے مزید دعا مانگنے کی اور انتظار کی صعوبتیں برداشت کرنے کی کیا
ضرورت ہے؟
یہی جواب ہوگا کہ دور حاضر میں تمام ممالک اسلامیہ
کے اَربابِ بست و کشادہ جمع ہو کر اگر کوشش کریں بھی تو حضرت مہدیؑ نہیں بن سکتے،
لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ دور حاضر کے اعلیٰ دماغ مفکرین تمام اطرافِ عالمِ
اسلامی سے جمع ہو کر مہدیٔ امت نہیں بنا سکتے، یعنی جناب رسالتمآبؐ کا آخری
جانشین معین نہیں کر سکتے اور اگر بالفرض جرأت کریں بھی تو وہ ان کا بنایا ہوا
ہوگا خدائی مہدی نہ ہوگا، تو ایک محدود خطہ زمین کے چند عمر رسیدہ مل کر پہلا
جانشین بنا لینے میں کیونکر کامیاب ہو گئے؟ تو اب سمجھ لیجئے کہ جس کو انہوں نے
بنایا تھا وہ ان کا تھا لیکن خدائی عہدہ دار خلافت نہ تھا؟ کہنے کو دنیا کہہ دے گی
کہ دور حاضر میں ہمارا انتخاب ناقص ہے اور عقلائے زمانہ بارہا تجربہ کر چکے ہیں کہ
ہمارا منتخب شدہ لیڈر چند روز بعد ناقابل انتخاب قرار پاجاتا ہے اور قہرا ً اسے
مسند اقتدار سے اتارنا پڑجاتا ہے جب ہمارے انتخاب کی یہ حالت ہے تو انتخاب مہدیؑ
ہم سے کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ اللہ ہی کا منتخب کردہ ہونا چاہیے۔
اب انصاف طلب بات ہے کہ جب عقلائے عالم کا انتخاب
ناتسلی بخش ہے اور وہ بھی دور حاضر میں جب کہ انسان ذہنی اور دماغی صلاحیتوں میں
ترقی کے بلند ترین زینہ پر پہنچ چکا ہے تو بھلا آج سے چودہ سو برس پہلے کے
انسانوں کا انتخاب اور وہ بھی تمام ممالک کا نہیں۔۔۔ ایک پورے ملک کا نہیں۔۔۔ ایک
صوبہ یا ضلع کا نہیں۔۔۔ حد یہ کہ ایک پورے شہر کابھی نہیں (صرف چند آدمیوں کا
انتخاب) کیسے خالی از خطرہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور ایسے منتخب لیڈر کو کس طرح
ایک ناقابل تنسیخ پوری ملت کا مذہبی و دینی پیشوا یا خدائی فرمانروا مانا جا سکتا
ہے؟
اس مقام پر تین باتیں سامنے آتی ہیں:
٭ یہ
کہ جانشین رسالت کا انتخاب ہمیشہ امت کے ہاتھ میں ہے۔
٭ یہ
کہ جانشین رسالت کے انتخاب کا امت کو کوئی حق نہیں بلکہ خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔
٭ یہ
کہ دورِ اوّل میں جانشین رسالت کے انتخاب کا حق امت کو تھا اور بس۔
پہلی صورت میں اگر پہلے زمانہ کی امت پہلے زمانہ
کے خلفأ کا انتخاب کرنے میں کامیاب تھی تو اب بھی اسی طرح اصول کے ماتحت رسول کے
آخری جانشین بنانے میں کامیاب انتخاب ہوجانا چاہیے۔۔۔ ورنہ ماننا پڑے گا کہ یہ
طریق کار اللہ کی طرف سے نہیں۔۔۔ وگرنہ ناکام ہوتا۔
تیسری صورت میں اگر کہا جائے کہ پہلے لوگوں کو حق
انتخاب حاصل تھا کیونکہ وہ نیک تھے اور اب چونکہ باطل پرستی کا دور دورہ ہے لہذا
اختیار امت سے سلب کر کے خدا نے اپنے لئے مخصوص فرما لیا، تو ہم کہیں گے کہ حکیم
مطلق نے ایک پائیدار ملت کے لئے شروع سے ایک ناپائیدار قانون کیوں وضع فرمایا؟ جب
اس کو معلوم تھا کہ انتخابی طرز عمل ایک وقت کے بعد بیکار ہو جائے گا تو ایسے چند
روزہ طرز عمل کو قیامت تک باقی رہنے والی ایک ملت کا اصل و اساس کیوں قرار دیا؟
نیز اسلامی احکام میں مساوات اور یکسانیت کہاں گئی؟ خدا نے جنبہ داری روا کیوں
رکھی؟
پس وہ درمیانی صورت ہی بالکل درست اور قرین عقل
ہے، یعنی جانشین رسول کے انتخاب کا حق پہلے بھی اور اب بھی سوائے خدا کے اور کسی
کو حاصل نہیں، نہ اب کا انتخاب بارہواں اور آخری جانشین بنا سکتا ہے اور نہ پہلے
کا انتخاب پہلا جانشین رسول اور امام اوّل بنا سکتا ہے، اگر امت جرأت کرے بھی تو
وہ امت کے بنائے ہوئے ہوں گے خدائی عہدہ دار خلافت نہ ہوں گے۔۔۔۔۔پس۔۔۔۔۔ ثابت ہوا
کہ جس طرح قرآن مجید اللہ کی جانب سے ہمارے اعمال و افعال کے لئے ایک مستقل اور
ناقابل تردید ضابطہ ہے اسی طرح اس کا مدرّس و مبلّغ بھی ہر دور میں اللہ کی جانب
سے ہی ہوا کرتا ہے، جس طرح ہمیں کتاب کے بنانے کا حق نہیں اسی طرح ہمیں اس کے
مدرّس و مبلّغ کے انتخاب کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے، جس طرح دور اوّل میں نبض
رسول قرآن کے معلّم حضرت علی ؑ تھے اسی طرح ہر زمان میں یکے بعد دیگرے آئمہ
طاہرین نبض رسول چلے آئے اور دور حاضر میں حضرت حجت عجل اللہ فرجہ بھی بفرمانِ
رسالت مبلّغ قرآن ہیں۔
نہ اب ہمارے بنانے سے بن سکتا ہے اور نہ اس دور
میں لوگوں کے بنانے سے بن سکتا تھا۔
جس طرح آج کا انتخاب غلط اور خلاف حکم خدا ہے اسی
طرح اس زمانہ کا انتخاب بھی غلط اور خلاف حکم خدا تھا، نہ آج کا بنایا ہوا خدائی
فرمانروا بن سکتا ہے اور نہ اس دور کا لوگوں کا بنایا ہوا خدائی خلیفہ و جانشین
رسول بن سکتا ہے، پس رسول جو مَایَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ (خواہش نفسانی سے
کلام نہیں کرتے) اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُوْحٰی (ان کا کلام تو وحی خدا سے ہی
ہوا کرتا ہے) اپنی امت کو کسی سرپرست کے بغیر قطعاً چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ کیسے ہو
سکتا ہے کہ تمام احکام قرآنیہ بیان کر کے جائیں اور اتنا بڑا مسئلہ جس پر بعد میں
قیامت تک کے لئے پوری امت کے دینی مسائل کے حل کا دارومدار ہے اس کو بغیر بیان کے
چھوڑ جائیں!؟
انہوں نے کھلے الفاظ میں صریح اور غیر مبہم بیان
میں صاف طور پر ثقلین کے ساتھ تمسک کا حکم فرما دیا، زبان سے بھی سنایا اور ہاتھوں
پر بلند کر کے دکھایا بھی۔۔۔ اور سنایا بھی اور عملی طور پر تاج پوشی کر کے بھی۔۔۔
آنے والے خطرات کا سدّباب کیا اور یہ سب کچھ اللہ ہی کی جانب سے تھا انہوں نے صرف
پہنچا دیا۔
اگرچہ قوم طالوت نے طالوت کے منتخب من اللہ ہونے
پر اس کی مالی کمزوری کا اعتراض کیا تھا لیکن خدا کے نزدیک چونکہ معیار انتخاب پر
پورا اترنے والا صرف وہی تھا اس لئے وہی منتخب ہوا اور وہی خدائی عہدہ دار رہا
خواہ کسی نے مانا یا نہ مانا، خدائی عہدہ جس کے پاس ہو کسی کے تسلیم نہ کرنے سے
چھین نہیں سکتا، جس طرح خدا کو نہ ماننے والے اس کی خدائی میں موجب نقصان نہیں ہو
سکتے۔۔۔۔۔ اسی طرح رسول کو رسول نہ تسلیم کرنے والے آنحضرؐت کی رسالت کا کچھ نہیں
بگاڑ سکتے، اسی طرح حضرت علی ؑ اور اولاد علی ؑ سے منہ موڑنے والے ان سے نہ عہدہ
ولایت و امامت چھین سکتے ہیں اور نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، وہ قرآن کے ساتھ
ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے وہ نہ قرآن سے جدا ہیں اور نہ قرآن ان سے جدا ہے
خواہ کوئی تسلیم کرلے یا نہ کرے۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ
بِالثَّقَلَیْنِ کِتَابَکَ وَ عِتْرَۃِ نَبِیِّکَ الطَّاہِرِیْن