بحارالانوار جلد ۱
دمیں احتجاج سے منقول ہے: ایک دفعہ ابو حنیفہ مدینہ میں حضرت امام جعفر
صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ؑ نے دریافت فرمایا کہ کیا تو مفتی ٔ عراق ہے؟
اس نے جواب دیا ہاں، پھر آپ ؑ نے پوچھا کہ کس چیز سے فتویٰ دیتا ہے؟ جواب دیا
کتاب اللہ سے، آپ ؑ نے فرمایا کیا تو کتاب اللہ کے ناسخ و منسوخ اور محکم و
متشابہ کو جانتا ہے ؟ کہا ہاں ! فرمایا کہ خدا فرماتا ہے: وَ قَدَّرْنَا
فِیْھَا السَّیْرَ لیَالِیَ وَ اَیَّامًا آمِنِیْنَ ہم نے اس میں چلنا مقدر کیا پس تم اس میں دن
رات امن سے سیر کرو ۔
فرمایا یہ
کس زمین کی طرف اشارہ ہے جس میں شب وروز انسان باامن سفر کرے اور کسی دشمن، چور،
ڈاکو بلکہ حشراتُ الارض یا درندوں وغیرہ کا کوئی خطرہ اس کو لاحق نہ ہو؟ کہنے لگا
حضور ! مکہ و مدینہ کے درمیان والی زمین مراد ہے، یہ سن کر حضرت امام جعفر صادقؑ
حاضرین مجلس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاخدا را سچ سچ کہو جب تم مکہ اور مدینہ کی
طرف سفر کرتے ہو تو تم کو جانی یا مالی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا؟ کہنے لگے کیوں
نہیں بڑے خطرے لا حق ہوتے ہیں، آپ ؑ نے ابو حنیفہ کو خطاب کر کے فرمایا وائے ہو
تجھ پر اے ابوحنیفہ خدا تو غلط بات نہیں کہتا!! ابو حنیفہ سے کوئی جواب نہ
بن سکا پس خاموش بیٹھا رہا، آپ ؑ نے فرمایا خدا فرماتا ہے: وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ آمِناً جو بھی اس میں داخل ہو گا باامن رہے گا۔
بتا اس سے کون سامقام مراد ہے؟ ابو حنیفہ نے جواب
دیا بیت الحرم (کعبہ) مراد ہے، آپ ؑ نے فرمایا (حاضرین سے متوجہ ہو کر) کیا
عبداللہ بن زبیر اور سعید بن جبیر کے متعلق تمہیں معلوم ہے کہ وہ دونوں اس مقام پر
قتل سے نہیں بچ سکے تھے! سب نے جواب دیا کہ ہاں بے شک وہ دونوں اسی مقام پر قتل کر
دئیے گئے! آپ ؑ نے پھر ابوحنیفہ کو خطاب کر کے فرمایا وائے ہو تجھ پر خدا تو سچ
ہی کہتا ہے (ابو حنیفہ خاموش رہا) پھر کہنے لگا کہ میں کتاب اللہ کو نہیں جانتا
بلکہ میں تو قیاس سے فتویٰ دیا کرتا ہوں!؟ آپ ؑ نے فرمایا کہ تیرے قیاس میں قتل
اور زنا میں سے کون سا گنا ہ زیادہ سخت ہے؟ جواب دیا کہ قتل سخت ترین گناہ ہے،
آپؑ نے فرمایا کہ پھر قتل کے لئے گواہ دو اور زنا کے لئے گواہ چار کیوں ضروری
سمجھے گئے ہیں؟ حالانکہ قیاس کے اعتبار سے معاملہ برعکس ہونا چاہیے یعنی قتل کے
لئے چار گواہ اور زنا کے دو گواہ ہوں، پھر آپ ؑ نے دریافت فرمایا کہ نماز افضل ہے
یا روزہ؟ جواب دیا کہ روزہ سے نماز افضل ہے، تو آپؑ نے فرمایا کہ حائض عورت پر
نماز کی قضا معاف اور روزہ کی قضا واجب کیوں ہے ؟ حالانکہ نماز افضل ہے اس کی قضا
معاف نہ ہوتی اور روزہ کی قضا معاف ہوتی؟ پھر آپ ؑ نے سوال کیا کہ پیشاب زیادہ
نجس ہے یا منی؟ تو ابوحنیفہ نے کہا پیشاب زیادہ نجس ہے، آپ ؑنے فرمایا قیاس کی
رُو سے پیشاب کے لئے غسل واجب ہو نا چاہیے اور منی کے لئے فقط استنجا کو ہی کو
کافی قرار دیا جاناچاہیے حالانکہ اللہ کے نزدیک معاملہ برعکس ہے!!
ان سوالات کے جوابات سے جب عاجز آگیا تو کہنے لگا
میں خود صاحب رائے ہوں، آپ ؑ نے پھر دریافت فرمایا: کہ ایک شخص نے اپنی اور اپنے
غلام کی ایک ہی دن میں شادی کی اور ایک ہی رات میں دونوں نے اپنی بیوی سے ہمبستری
کی پھر ہر دوسفر کو چلے گئے دونوں عورتیں ایک ہی مکان میں تھیں اور دونوں کے ہاں
ایک ہی دن میں لڑکے پیدا ہوئے اتفاق سے مکان کی چھت گری دونوں نیچے دَب کر مرگئیں
اور دونوں لڑکے بالکل بچ گئے اب یہ بتا کہ تیری رائے میں آقا کون ہے اور غلام کون
؟اور مالک کے مرنے کے بعد ان دونوں بچوں میں سے وارث کون ہو گا؟ اور ورثہ کون؟ یہ
سنتے ہی وہ (جھلّا کر ) بولا میں تو صرف حدود ہی کو جانتا ہوں، پس آپ ؑ نے پھر
استفسار فر ما یا کہ اگر نابینا کسی بینا کی آنکھ نکال دے یا اپاہج کسی تندرست کا
پائوں کاٹ دے تو تیری رائے میں مجرم پر حد کیسے جاری ہو گی؟جواب سے عاجز ہو کر
کہنے لگا کہ میں بعثت انبیا ٔ کے مسائل اچھی طرح جانتا ہوں اور بس، پھر آپ ؑ نے
ارشاد فرمایا کہ جب خداوندکریم نے حضرت موسیٰؑ اورہارون ؑکو فرعون کی طرف بھیجا تو
فرما یا: قُوْلا لَہُ قَوْلا لَیِّناً لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی
اس فرعون کے ساتھ نرم نرم باتیں کر نا شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا ڈر جائے۔
کیا لَعَلَّ کا استعمال مقام شک پر ہوتا ہے؟
جواب دیا ہاں! آپ ؑ نے فرمایا کیا خدا کو شک تھا؟ تو کہنے لگا جی مجھے اس کا علم
نہیں آپ ؑ نے فرمایا کہ تو نے قرآن سے فتویٰ دینے کا دعویٰ کیا حالانکہ تو وارث
کتاب نہیں اور تو اپنے آپ کو صاحب قیاس قرار دینے والا ابلیس ہے اور (یاد رکھ)
خدا کا دین قیاس کی بنیادوں پر قائم نہیں، پھر تو دعویٰ کرتا ہے کہ میں خود صاحب
رائے ہوں حالانکہ رائے کا حق صرف جناب رسالتمآب کو ہی حاصل تھا اور رائے صرف انہی
کی درست ہے باقی لوگوں کی رائے میں غلطی واقع ہو سکتی ہے چنانچہ ارشاد قدرت ہے:
اُحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَرَاکَ اللّٰہ اے رسول ان لوگوں کے درمیان اپنی
رائے سے فیصلہ کیا کرو جو خدا نے تمہیں عطا کی ہے۔
یہ بات صرف جناب رسالتمآبؐ کے لئے ہی ہے، پھر تو
اپنے تئیں خود کو خدا کی حدود کا عالم سمجھتا ہے!! حالانکہ ان کو کما حقہٗ وہی
سمجھ سکتا ہے جس پر نازل ہوئیں، نیز تو بعثت انبیا ٔ کے علم کا دعویٰ کرتا ہے
حالانکہ خود انبیا ٔ تجھ سے اس چیز کو بہتر جانتے ہیں اگر مجھے یہ ڈرنہ ہوتا{ کہ
لوگ کہیں گے ابو حنیفہ (جعفر صادقؑ) فرزند رسول کے پاس گیا اور انہوں نے اس سے کسی
بات کا سوال تک نہ کیا اس کے علمی وقار سے مرعوب ہو گئے} تو میں تجھ سے کچھ نہ
پوچھتا پس جا اور اگر قیاس کا عام ہے تو اس پرعمل کرتا رَہ، کہنے لگا اب خدا کے
دین میں قیاس ورائے کو دخل نہ دوں گا، آپ ؑ نے فرما یا حبّ ریاست ہرگز تیرا پیچھا
نہ چھوڑے گی جس طرح اس نے تجھ سے پہلے لوگوں کا پیچھا نہ چھوڑا۔
غرضیکہ ان
تمام سوالات کا مقصد صرف مسئول عنہ کی نااہلیت کا اظہار تھا اور درس دینا تھا کہ
مطالب ِقرآنیہ امامِ حق کی رانمائی کے بغیر قطعاً حل نہیں ہو سکتے۔
اہل بیت ؑ اطہار سے کلام اللہ کی تاویل وتفسیر
دریافت نہ کرنے سے اور اپنے ا ستحسانات عقلیہ اور آرائے مخترعہ پر عمل کرنے سے
بہت فرقے پیدا ہو گئے، بعض لوگوں نے بعض آیات کے ظاہر سے دھوکا کھا کر خدا کا جسم
مان لیا (مجسمہ) کہلائے اور بعض جبر کے قائل ہو گئے (مجبرہ)کہلائے، حالانکہ قرآن
مجید تو ایک سیدھی اور پختہ شاہراہ پرگامزن ہو نے کی دعوت دیتا ہے چنانچہ فرماتا
ہے: یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ۔