خا لق و مخلوق کے درمیان انبیائے طاہرین علیم
السلام کا سلسلہ اس لئے ہے کہ ہر انسا ن براہِ راست اللہ سے احکام حا صل کر نے کا
اہل نہیں۔۔۔ انسا ن ما دی چکر میں اس قدر پھنسا ہے کہ صرف عقلی ہد ایت پر قطعاً
توجہ ہی نہیں دیتا جب تک کہ باہر سے کوئی طا قت اس کو اس طرف متوجہ کر نے وا لی نہ
ہو۔
بے شک خا لق کا ئنات کا عین لطف ہے کہ ہمیںعقل عطا
فر ما کر اور اس کو خیر وشرّ کے ادراک کے اہل قرار دے کر باقی موجو دات پر افضلیت
و کر امت عطا فر مائی۔۔۔ پس انسان اپنی اس عقل کے ذریعہ اطرافِ عالم میں غوروفکر
کر کے اور اپنے نفس و بد ن میں توجہ کر کے اوران تما م چیزو ں کے مصا لح و مفا سد
پر تبصرہ کر کے اس نتیجہ تک تو ضرو ر پہنچ جاتا ہے کہ میرا خا لق ضرو ر موجود ہے
جومجانست ومماثلت مخلو قا ت سے بلند و با لا ہے۔۔۔ لیکن اتنی فرصت کہاں کہ عقل کو
ان اشیا ٔ میں غو ر کر نے کا مو قعہ دیا جائے، محبت دنیا۔۔ خو ا ہش نفسیہ۔۔ حر ص و
ہو س وغیرہ کا بھوت کسی وقت سر سے اُترے تو کسی دو سری طر ف تو جہ کی جا سکے۔۔۔
اور یہ با ت بھی ساتھ ساتھ ہے کہ عمر میں جس قدر اضا فہ ہوتا جاتا ہے خو اہشا ت
واَ غرا ض میں اسی قدر زیا دتی ہو تی جاتی ہے۔۔۔ پس انسا ن کا دما غی کارخانہ صرف
ایک ہی رُخ کی طر ف استعما ل ہو تا رہتا ہے یعنی منا فعِ دنیاویہ کی سو چ بچا ر۔
عوا ر ضِ مادّیہ اور اَغرا ضِ نفسیہ اس کو غرضِ
خلقت کی طرف متو جہ ہو نے ہی نہیں دیتے تا کہ چشمِ بصیر ت کھلے اور خالق کی معر فت
اور اس کی خو شنو دی کے ذرا ئع کی طر ف دھیا ن کیا جائے۔۔۔ اور تنہا عقل اگر چہ
صلاحیت رکھتا ہے کہ معرفت کے اسبا ب پر غو ر کر کے اللہ کی ذات کو پہچا ن لے۔۔۔
لیکن موا نعِ مذکورہ کی موجودگی میں ان منازل کا طے کر سکنا بہت گراں ہے۔
اللہ نے کمالِ لطف وعنایت سے عقل کی رہبری
اورتقویت کے لیے سلسلۂ انبیا ٔ جا ری فر ما دیا تا کہ انسا ن آسانی سے اس طر ف
آ سکے اور پھر اُس کو فر ائضِ عملیہ سے آگاہ کیا جائے۔۔۔ پس ایک لا کھ چو بیس ہز
ار ا نبیا ٔ کا یہی کا م تھا کہ عقولِ انسا نیہ کی رہبری فر ماکر انسان کو
ورطۂ ظلماتِ نفسانیہ سے نکا ل کر احاطۂ قدسِ روحانیہ میں لا کھڑا کریں اور
دنیاوی منافع کی ناپائیداری۔۔ زند گی کی فنا اور دنیا کی عدمِ وفا وغیر ہ پر متوجہ
کر کے اس کو آخرت کے منافع کی طرف راغب کریں اور اس کی اس اَبدی زندگی کے لیے جن
جن اعمال کی ضرورت ہے ان سے ان کو روشناس کرائیں۔
پس اس سلسلہ میں حضرت ر سالتمآبؐ کا وجودِ ذی جود
سید الانبیا ٔ کی حیثیت رکھتا ہے اور جس قدر اُن کا حلقۂ تبلیغ زیادہ اُسی قدر
باقی انبیا ٔ کے مقابلہ میں اللہ کے نزدیک اُن کی توقیر و اِجلال بھی زیادہ ہے۔۔۔
کیونکہ اگریہ نہ ہوتے تو وہ ہر گز نہ ہوتے، اور جس طرح نبی کی رہبری کے بغیر خدا
کی طرف متوجہ ہونا ہمارے لئے دشوار تھا اسی طرح توجہ ہوجانے اور معرفت حا صل کر
چکنے کے بعد احکامِ خدا اور اس کی ذات کی طرف تقر ّب کے ذرائع واسباب کا معلوم
کرنا ہماری عقلوں کی رسائی سے بالاتر تھا، ان میں از خود یہ استعداد ہرگز نہیں کہ
خدائی احکام واجبات و محرما ت کو خود سوچ کر پیدا کر سکیں۔
پس تمام مسلمانوںپر جناب رسا لتمآبؐ کا ا حسانِ
عظیم ہے کہ ظلمت کدۂ کفرو شرک سے نجات دِلا کر انہوں نے ہم کو توحید کی معرفت اور
اس کی لذاتِ روحانیہ سے ہمکنار کیا، اور قربِ خدا حاصل کرنے کے وہ زرّین اصول
تعلیم فرمائے جو رہتی دنیا تک نوعِ انسانی کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں،
اگر انسان ان کے تعلیم کر دہ اصول و فروغ کو اپنا کر قربِ خدا وندی کا جو یا ہو تو
اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ جنابِ رسالتمآب کی معرفت حا صل کر کے ان کی محبت و
اطاعت کو اپنا شعار قرار دے۔۔۔ کیونکہ خا لق کا ئنات کے بعد یہ محسنِ کا ئنات ہیں
اس کی ذات نے ان کو خلعتِ وجود سے آراستہ کیا اور ان کی ذات سے اس کی معرفت اور
قرب کا درس ملا۔۔۔ بلکہ خالق کو اگر اس ذاتِ مقدسہ کی تخلیق مقصود نہ ہوتی تو کا
ئنات نعمتِ وجود سے ہم آغوش نہ ہوتی۔
اسی بنا ٔ پر تو حضوؐر کا ارشادہے کہ کوئی شخص
مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ مجھے اپنی جان و ما ل اولاد سے محبوب ترین نہ قرار
دے۔۔۔ پس انسان ہزاروں اعمالِ صالحہ بجا لائے لیکن جب تک اس محسنِ انسانیت سے قلبی
محبت نہ رکھتا ہو۔۔۔ اس کی اطاعت کو فرض نہ سمجھتا ہو۔۔۔ اس کے تمام اعمال اکارت
جانے کے قابل ہیں، اور اسی طرح ان کی محبت واطاعت کے سا تھ ان کی عترتِ طاہرہ جو
اُن کی صحیح قائم مقام ہے ان کی معر فت اور محبت و اطاعت بھی ویسے ہی فرضِ عین
ہے۔۔۔ ورنہ رسالتمآب کی خوشنودی قطعاً حا صل ہو نہیں سکتی، کیونکہ ان کے بعد ان
کی صحیح تعلیمات کے امت تک پہنچانے کے یہی ذمہ دار ہیں اور قرآن و احکام ان ہی کی
بدولت ہم تک پہنچے ہیں۔۔۔پس قربِ خدا وند جناب رسالتمآبؐ کے قرب پر مو قوف ہے کیو
نکہ حضوؐر کی اطاعت ہی محبت پر ورگار کا زینہ ہے اور قربِ رسا لتمآبؐ ان کے قرب
پر مو قوف ہے پس تمام اعمالِ صالحہ کی مقبولیت اور خدا و رسول کی خوشنودی انہی کی
اطاعت و معرفت پر منحصر ہے۔
چنانچہ مقدمہ تفسیر مرأۃ الانوار میں حضرت
امیرالمومنین ؑ سے منقول ہے کہ جناب رسا لتمآب ؐ سے ایک شخص نے عرض کیا:
(۱)
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔۔ کُلُّ مَنْ قَالَ لا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُوْمِنٌ؟ قَالَ عَدَاوَتُنَا تُلْحِقُ بِالْیَھُوْدِ وَالنَّصَاریٰ انَّکُمْ لا
تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُحِبُّوْنِیْ وَکَذِبَ مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ
یُحِبُّنِیْ وَ یُبْغِضُ ھٰذَا یَعْنِیْ عَلِیّا عَلَیْہِ السَّلام۔
ترجمہ: حضوؐریہ فر مائیے جو بھی لا اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہ پڑھے وہ مومن ہے؟ آپؐ نے
فر ما یا کہ ہماری عداوت یہود و نصاریٰ کے ساتھ ملحق کر دیتی ہے۔۔ تحقیق تم لوگ
ہرگز جنت میں دا خل نہ ہو گے جب تک مجھ سے محبت نہ کرو گے اور جو شخص علی ؑ سے بغض
رکھتا ہو اور میری محبت کا عویٰ کرتا ہو وہ جھوٹا ہے۔
پس اس روایت سے معلوم ہو ا کہ لا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہ پڑھنا اور جنت میں جا نے کی آرزو رکھنا فضول ہے جب تک محبت رسول نہ ہو اور
محبت رسول کا دعویٰ غلط اور بے بنیاد ہے جب تک محبت علی ؑ نہ ہوگویا رضائے خا لق
دخولِ جنت اور محبت رسول کا مدار و محور علی ؑ ہے۔
(۲)
مسند احمد بن جنبل سے منقول ہے کہ جب یہ آیت قُلْ لا
اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمُوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی نا زل
ہوئی تو بروایت ابن عباس لوگوں نے حضوؐر سے دریا فت کیا کہ کون لوگ آپؐ کے قرابت
دار مراد ہیں؟ جن کی مودّت فر ض کی گئی ہے؟ تو آپؐ نے فر ما یا علی ؑ و فا طمہ ؑ
اور اُن کے فرزند۔
دلائل
الصدق میں ینابیع المودۃ صواعق محرقہ درّ منثور وغیرہ متعدد کتابوں سے اس روایت کو
مختلف الفاظ سے نقل کیا گیا ہے۔۔۔ مقصد سب یہی ہے کہ اس آیت وافی ہدایہ میں جن لو
گوں کی مودّت فر ض کی گئی ہے وہ حضرت امیرالمومنین علی ؑ بن ابی طالب اور جناب
بتولِ معظمہ حضرت فا طمۃ الزہر ؑا اور ان کی اولادِ طاہرین ہیں، اور مقدمہ تفسیر
کبیر امام رازی سے بھی اس طرح منقول ہے گویا جناب رسالتمآب کی تعلیمات کا اَجر ہے
مودّتِ آلِ رسول۔۔۔ تو جب تک مو دّتِ اہل بیت نہ ہو گی تعلیماتِ قرآن پر عمل
کرنا ہی تصرفِ غاصبانہ ہو گا اور حرام ہو گا، جس طرح کہ عام کسی اجیر کی اُجرت ادا
کئے بغیر اس چیز کا استعمال نا جائز و حرام ہوتا ہے جس سے اس اُجرت کا تعلق ہو۔
معرفت ِ امام
(۳)
جا مع الاخبار (فصل الموت) میںحضرت رسالتمآب ؐ سے محبت آل محمد
پرمرنے والے اور بغضِ آلِ محمد پر مرنے والے لوگوں کے متعلق ارشاداتِ ذیل منقول
ہیں:
(۱)
مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَھِیْداً ۔
ترجمہ: جوآلِ محمد کی محبت پر مر تا ہے وہ شہید
مرتا ہے۔
(۲)
اَلا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوْرًا۔
ترجمہ: آگاہ رہو۔۔۔ جو بھی آلِ محمد کی محبت پر
مرے وہ مغفو ر ہو کر مر تا ہے۔
(۳)
اَلا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِبًا۔
ترجمہ: آگاہ رہو۔۔۔ جو بھی آلِ محمد کی محبت پر
مرے وہ تائب ہو کر مرتا ہے۔
(۴)
اَلا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُوْمِنًا
مُسْتَکْمِلَ الْاِیْمَان۔
ترجمہ: ا ٓگاہ رہو۔۔۔ جو بھی آلِ
محمد کی محبت پر مرے وہ مومنِ کامل الایمان ہو کر مرتا ہے۔
(۵)
اَلا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَہُ مَلَکُ
الْمَوْتِ بِالْجَنَّۃِ ثُمَّ مُنْکَرٍ وَّ نَکِیْرٍ۔
ترجمہ: آگاہ رہو۔۔۔ جو بھی آلِ محمد کی محبت لے
کر مرے اُسے ملک الموت اور اسکے بعدمنکر و نکیر بھی
جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔
(۶)
اَلا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فُتِحَ لَـہُ فِیْ
قَبْرِہٖ بَابَانِ اِلٰی الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ: آگاہ رہو۔۔۔ جو بھی آلِ محمد کی محبت پر
مرتاہے اس کیلئے قبر میں دو دروازے جنت کی طرف
کھول دیئے جاتے ہیں۔
(۷)
اَلا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ جَعَلَ اللّٰہُ
قَبْرَہُ مَزَارَ الْمَلائِکَۃِ الرَّحْمَۃِ۔
ترجمہ: آگاہ رہو۔۔۔ کہ جو بھی آلِ
محمد کی محبت پر مرے اللہ اس کی قبر کو رحمت کے فرشتوں کی زیارت
گاہ بنا دیتا ہے۔
(۸)
اَلا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ عَلٰی
السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ۔
ترجمہ: آگاہ رہو۔۔۔ کہ جو شخص آلِ محمد کی محبت
لے کر مرتا ہے وہ سنت و جماعت پر ہو کر مرتاہے۔
(۹)
اَلا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ جَائَ یَوْمَ
الْقِیَامَۃِ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ
آیِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہ۔
ترجمہ: آگاہ رہو۔۔۔ کہ جو شخص آلِ محمد سے بغض
رکھ کر مرتا ہے تو قیامت کے روز جب محشور ہو گا تو
اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ یہ خد اکی رحمت
سے نا اُمید ہے۔
(۱۰) اَلا
وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کافِرًا۔
ترجمہ: آ گاہ رہو۔۔۔ کہ جو آلِ محمد کی دشمنی پر
مر تا ہے وہ کافر ہو کر مرتا ہے۔
(۱۱) اَلا
وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ یَشُمَّ رَائِحَۃُ الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ:
آگا ہ رہو۔۔۔ کہ جو
شخص آلِ محمد کے بغض پر مر جائے وہ جنت کی بو نہ سو نگھے گا۔
جنا ب رسا لتمآب کی یہ فر ما ئشا ت تفسیر کشا ف
سے بھی منقول ہیں اسی بنا ٔ پر حضر ت صا دقِ آلِ محمد ارشا د فرماتے ہیں کہ ہم
اہل بیت سے عد ا وت رکھنے وا لے کے لیے نماز۔۔ رو زہ وغیرہ یا چو ری۔۔زنا وغیرہ کر
نا یکسا ں ہے، کیونکہ لامحالہ اس کی باز گشت تو دو زخ ہی ہے۔
(۴)
جا مع الا خبا ر میں (مفصل معر فت آئمہ کے بیا ن میں) جنا ب سلمان پا
ک سے ایک طویل روایت میں منقو ل ہے کہ میں ایک دفعہ جنا ب رسا لتمآب کی خد مت اقد
س میں حا ضر ہو ا تو مجھے دیکھ کر حضوؐر نے ارشاد فرمایا: سلمان۔۔۔ تحقیق
خدا وند کریم نے کو ئی رسول و نبی مبعو ث نہیں فرمایامگر یہ کہ اس کے لیے با رہ
نقیب بھی بھیجے، میں نے عرض کیا یا رسو ل اللہ میں یہ با ت دو نو ں کتابوں (تو را
ت، انجیل) والو ں کی طر ف سے جا نتا ہو ں پھر آپؐ نے فرمایا: کہ تو میرے نقبا ٔ
کو جانتا ہے؟ میں نے عر ض کیا کہ اللہ اور اللہ کا رسو ل بہتر جا نتا ہے تو آپؐ
نے فر ما یا: اے سلمان! خدا نے
مجھے اپنے بر گزید ہ نو رسے خلق فر ما یا اور مجھے اپنی اطا عت کی دعوت دی تو میں
نے قبو ل کر لی۔۔۔ پھر اس (اللہ) نے علیٰ الترتیب اسی میرے نو ر سے علی ؑ وفا طمہ
ؑ وحسن ؑ وحسین ؑ کے انوا ر کو خلق فر ما یا اور ان کو اپنی اطا عت کی دعو ت دی
اور ان سب نے قبو ل کی۔۔۔ پھر اس نے اپنے اسمأ سے ہما رے پا نچ نا م مقرر
فرمائے۔۔ پس اللہ محمو د ہے اور میں محمد ہوں، خدا اعلیٰ ہے اور اور یہ علی ؑ ہے،
اللہ فا طر ہے اور یہ فاطمہ ؑہے، اللہ صاحب احسان ہے اور یہ حسن ؑ اور خدا محسن ہے
اور یہ حسین ؑ ہے، پھر حسین ؑ کے نور سے نو اما موں کے انوار خلق فر ما ئے اور ان
کو اپنی اطاعت کی دعوت دی ان سب نے قبول کی۔۔۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب نہ
آسمان خلق ہوا تھا۔۔۔ اور نہ زمین بچھا ئی گئی تھی۔۔۔ اور نہ ہوا۔۔۔ نہ ملک۔۔۔ نہ
بشر کی تخلیق ہوئی تھی۔
ہم عالم انوار میں اس کی تسبیح کرتے تھے اور اس کے
ارشادات کی اطاعت کر تے تھے۔۔۔ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپؐ پر فد ا ہوںیا
رسو ل اللہ۔۔۔ جو شخص کما حقہ ٗ ان کی معر فت رکھتا ہو اُس کا کیا مر تبہ ہے؟ تو
آپؐ نے فرمایا: اے سلما ن۔۔ جو شخص ان کی معرفت رکھے جس طر ح حق معر فت ہے
اور ان کی موالا ت رکھتے ہوئے ان کی اطا عت کر ے اور ان سب کے دشمنو ں سے بیزا ری
کر ے وہ ہم میں سے ہو گا، اور جس مقا م پر ہوں گے وہ اسی مقا م پر ہو گا۔۔۔ جہا ں
ہما ری سکو نت ہو گی اس کی بھی وہا ں سکو نت ہو گی۔۔۔ میں نے عرض کیا کہ ان کے
اسمأ وانسا ب کی معرفت کے بغیر انسا ن مومن بن سکتا ہے؟ تو آپؐ نے فر ما یا نہیں
اے سلمان!میں نے عرض کیا کہ میں ان کو کس طرح پہچانوں؟ آپؐ نے فرمایا حسین ؑ تک
تو پہچان چکا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔۔۔ آپؐ نے فرمایا: پھر اس کے بعد
سید العابدین علی ؑ بن الحسین ؑ ، پھر اس
کا فر زند محمد ؑ بن علی باقر علم الاوّلین و آخرین، پھر جعفر ؑ بن محمد ؑ اللہ کی سچی زبان، پھر مو سیٰؑ بن جعفر ؑ جو اللہ کی راہ میں غصہ
کو ضبط کر نے والا ہو گا، پھر علی ؑ بن مو
سیٰؑ الرضا، پھر محمد ؑ بن علی ؑ
المختار، پھر علی ؑ بن محمد ؑ الہا
دی، پھر حسن ؑ بن علی ؑ، پھر حسن ؑ کا فرزند القائم عج۔
سلمان کہتا ہے کہ میں نے رو کر عرض کیا یا رسول
اللہ! کیا مجھے ان کے زمانے تک مہلت دی جائے گی؟ آپؐ نے فر ما یا اس آیت کو پڑھ:
۱؎
فَاِذَا جَائَ وَعْدُ اُوْلٰیھُمْا بَعَثْنَا
عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّـنَا اُوْلِیْ بَأسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلالَ
الدِّیَارِ وَ کانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔۔۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ
الْکَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَاَمْدَدْنَاکُمْ بِأمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ
جَعَلْنَاکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا۔
سلمان بیان کر تا ہے کہ یہ سن کر میرا اشتیا ق اور
گریہ زیا دہ ہو ا اور میں نے عرض کیا یا رسو ل اللہ کیا یہ آپ کی طر ف سے عہد ہے؟
تو آپؐ نے فر ما یا میری طر ف سے بھی اور علی ؑ او فا طمہ ؑ وحسن ؑ وحسین ؑ وبا
قی نو آئمہ ؑ جو حسین ؑ کی نسل سے ہو نے وا لے ہیں سب کی طرف سے تیرے سا تھ
اور ہر اس شخص کے ساتھ جو ہم میںسے اور ہماری محبت کی وجہ سے ظلم کا شکا ر ہے اور
ایمان خا لص رکھتا ہے عہد ہے۔
ہا ں۔۔ خدا کی قسم اے سلمان ابلیس اور اس کے
سب لشکر اور تمام خالص کافر حاضرکئے جائیں گے اور ان سے انتقام و بد لہ لیا جائے
گا اور خدا کسی پر ظلم نہیں کر تا اس آیت مجیدہ کی تا ویل ہم ہی ہیں۔۔۔ چنا نچہ
ارشا د فر ما تا ہے:
وَنُرِیْدُ اَنْ نَمُنَّ عَلٰی الَّذِیْنَ
اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلُھُمْ اَئِمَّۃً وَنَجْعَلُھُمُ
الْوَارِثِیْنَ وَ نُمَکِّنَ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ
ھَامَانَ وَجُنُوْدَھُمَا مَا کانُوْا یَحْذَرُوْنَ۔
_____________________________________________________
۱- اس آیت سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ مومنین کو
حضر ت حجت کے زمانے میں دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا اِسی لئے حضرت سلمان نے
عر ض کیا کہ کیا آپؐکاعہد ہے کہ مجھے دوبارہ زندہ کر کے اُٹھا یا جائے گا؟ تو
آپؐ نے فرمایا کہ تجھے بھی اور ہر مخلص مومن کو اُٹھایا جائے گا یہ ہمارا عہد ہے۔
ترجمہ: ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ ان لوگو ں پر احسان
کریں جو زمین میں کمز ور کر دئیے گئے اور ان کو امامِ خلق اور ان کو زمین کا وا رث
قرا ر دیں اور ان کو زمین میں پو ری قدرت دیں اور فر عو ن وہامان اور ان کے لشکر
وں کو وہ انجام دکھائیں جس سے وہ ڈرتے تھے۔
سلمان کہتا ہے کہ میں سر کارِ دو عالم کی خدمت سے
اُٹھ کھڑا ہوا اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب پرواہ نہیں کہ موت پر جا پڑوں یا موت
مجھ پر آپڑے۔
(۵)
محا سن بر قی سے منقو ل ہے کہ حضرت رسا لتمآ بؐ نے ارشا د فر ما یا
کہ اہل بیت کی محبت کو لا زم پکڑو۔۔۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ید قدرت میں
میری جا ن ہے ہما رے حق کی معرفت کے سو ا کسی انسان کے لیے کوئی عمل فا ئد ہ مند
نہیں ہے۔
(۶)
مقد مہ تفسیر میں حضرت امام محمد با قرؑ سے منقو ل ہے کہ ہم اللہ کے
اسمائے حُسنٰی ہیں انسا ن کا کوئی عمل ہماری معر فت کے بغیر قا بل قبول نہیں ہے۔
(۷)
نیز سلمان سے مر وی ہے کہ جنا ب رسالتمآبؐ نے ایک حد یث
میں ارشا د فر ما یا کہ جب ہم بروزِ اُحد حضرت حمزہ کی تجہیز و تکفین سے فا رغ
ہوئے تو جبرائیل کا نز ول ہو ا کہا اے محمد۔۔ خد ابعد درود سلام کے فر ما تا ہے کہ
میں نے نما ز فر ض کی ہے لیکن بیما ر ۱؎ سے سا قط کی ہے، اور میں نے روزہ واجب کیا ہے
لیکن بیمار اور مسا فر ۲؎ سے معاف ہے، اسی طر ح حج واجب کی ہے لیکن زا دِ
را ہ نہ رکھنے والے پر معاف ہے، زکواۃ
واجب کی ہے لیکن جس کا نصاب پورا نہ ہو اس سے یہ فر یضہ اٹھا لیا گیا ہے،
اور حبّ علی ؑ ایسا فر یضہ ہے کہ اس میں کسی کو کو ئی رخصت نہیں ہے۔
(۸)
حضرت اما م جعفر صا دقؑ سے مر وی ہے کہ جب انسا ن میدا نِ محشر میں
اللہ کی با ر گا ہ میں حسا ب کے لیے کھڑا ہو گا تو اس سے سب سے پہلے وا جب نما ز۔۔
زکواۃمفروضہ۔۔روزہ۔۔حج واجب اور ولایت کا سوال ہو گا، اگر ہماری ولایت کا قا ئل ہو
ا تو نما ز۔۔ رو زہ۔۔زکواۃ۔۔ حج وغیرہ جملہ عبا دات قبو ل ہو ں گی اور اگر ہما ری
وِلا کا قا ئل نہ
_____________________________________________________
۱- نما ز کے ساقط ہو نے سے مرا د اس کے بعض
واجبات ساقط یعنی تکالیف حسب طاقت کر دی۔۔ قیا م سے عا جز تو قیام ساقط ہے پس بیٹھ
کر پڑھے اور اگر عاجز ہے تو سو کر پڑھے یا کہ بیمار اتنا زیادہ ہو کہ ہوش و ہو اس
نہ رہے پس زمانِ بیہو شی میں نماز اصلاً ساقط ہے۔
۲-
لیکن بیما ر ی یا سفر ختم ہو نے کے بعد قضا واجب ہو تی ہے۔۔۔ مسئلہ کی
تفصیل کتب ِفقہ میں موجو د ہے۔
ہو ا تو اس کے لئے دیگر اعمال ہر گز قا بل قبو
ل قر ار نہ دیے جا ئیںگے۔
(۹)
عیو ن اخبار الرضا سے جناب رسالتمآبؐ سے منقو ل ہے کہ انسان سے پہلے
پہل ہما ری اہل بیت کی محبت کے متعلق سوا ل ہو گا۔
(۱۰) مجا لس
شیخ سے مر وی ہے حضرت اما م محمد با قر علیہ السلا م نے فر ما یا کہ جنا ب
رسالتمآبؐ نے فر ما یا اللہ کے سا منے انسا ن سے چا ر چیزوں کے متعلق سو ال ہو
گا:
)۱( عمر
کے متعلق کہ اس کو کس کا م میں فنا کیا؟ )۲(
ما ل کے متعلق کہ کہا ں سے کما یا اور کہاںصر ف کیا؟
)۳(
جسم کے متعلق کہ اس کو کہاںکہنہ کیا؟ )۴(
ہم اہل بیت کی محبت
کا سوا ل ہو گا؟
ایک شخص نے اُٹھ کر سوا ل کیا یا رسو ل اللہ آپ
کی محبت کی علا مت کیا ہے؟ آپؐ نے علی ؑ کے سر پر ہا تھ رکھ کر فرمایا کہ اس کی
محبت۔
(۱۱) آما
لی سید منقو ل ہے کہ حضر ت اما م جعفر صا دق علیہ السلا م نے فر ما یا۔۔۔ ایک مر
تبہ ایک اعر ابی نے آکر حضرت رسالتمآب کی خد مت میں عر ض کیا یا رسو ل اللہ جنت
کی بھی کوئی قیمت ہے؟ آپؐ نے فر ما یا ہا ں،اعرا بی نے عر ض کیا کہ حضوؐر فر
مائیے کیا قیمت ہے؟ آپؐ نے فر ما یا کہ کلمہ’’لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا اخلا
ص سے پڑھنا، اس نے عرض کیا حضوؐر اخلا ص کا کیا مطلب ہے؟ آپؐنے فر ما یا عمل کر
نا سا تھ اُس چیز کے جس کے ساتھ میں مبعو ث ہو ا ہو ں اور محبت اہل بیت کے ساتھ۔۔۔
اُس نے عر ض کیا حضوؐر محبت اہل بیت بھی اس کے حقو ق میں سے ہے؟ تو آپؐ نے فر ما
یا کہ اس کے حقوق میں سے بڑی چیز تو اہل بیت ہی کی محبت ہے۔
(۱۲) حضر ت
صاد قِ آلِ محمد ؑ سے منقو ل ہے کہ ہر چیز کی بنیاد ہو ا کرتی ہے ااور اسلا م کی
بنیاد محبت اہل بیت ہے۔
(۱۳)
حضرت با قر
العلوم سے مر وی ہے اسلا م کی بنا ٔ کے پا نچ ستو ن ہیں: نماز۔۔ زکواۃ۔۔ روزہ۔۔ حج
اور محبت اہل بیت۔
(۱۴) عَنْ
مَعَانِی الْاَخْبَارِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیّ اَیُّھَا النَّاس مَنْ
اِخْتَارَ مِنْکُمْ عَلٰی عَلِیّ اِمَامًا فَقَدْ اِخْتَارَ عَلَیّ نَبِیًّا
وَمَنِ اخْتَارَ عَلَیّ نَبِیًّا فَقَدْ اِخْتَارَ عَلٰی اللّٰہِ عَزَّوَجَلّ
رَبًّا۔
ترجمہ: معا نی الا خبا ر سے منقو ل ہے کہ ابن عبا
س نے جنا ب رسالتمآبؐ سے روا یت کی ہے آپؐ نے فر ما یا:
لو گو۔۔۔ جس نے علی ؑ کو چھو ڑ کر کسی اور کو اما
م بنا یا گویا اس نے میری نبو ت سے اعرا ض کر کے کسی اور نبی کو مانا اور جس نے
مجھے چھو ڑ کر کسی اور نبی کو مانا گو یا اس نے اللہ کو چھو ڑ کر کسی اور ربّ کو
ما ن لیا۔
مقصد روا
یت کا یہ ہے کہ حضرت علی ؑ کی امامت کا منکر ایسا ہے جیسے منکر ِنبو ت ومنکر تو
حید !!
(۱۵) عَنْ
عَقَائِدِ الصّدُوْقِ قَالَ النَّبِیّ مَنْ ظَلَمَ عَلِیًّا مَقْعَدِیْ ھٰذَا
بَعْدَ وَفَاتِیْ فَکأنَّمَا جَحَدَ نَبُوَّتِیْ وَ نَبُوّۃِ الْاَنْبِیَائِ مِنْ
قَبْلِیْ وَ مَنْ تَوَلّٰی ظَالِمًا فَھُوَ ظَالِمٌ۔
ترجمہ: عقائد صدوق میں جنا ب رسا لتمآبؐ سے مر وی
ہے کہ جو شخص علی ؑ پر میر ی مسند کے معاملہ میں ظلم کرے۔۔۔ میرے بعد اس سے میرا
منبر غصب کرے، تو گویا اس نے میری اور مجھ سے سابق انبیا ٔ کی نبوت کا انکار کیا
اور جو ظالم سے دوستی رکھے وہ بھی ظالم ہے۔
(۱۶) قَالَ
یَاعَلِیّ اَنْتَ وَالْآئِمَّۃُ مِنْ وُلْدِکَ حُجَجُ اللّٰہِ عَلٰی خَلْقِہٖ وَ
اَعْلامِہٖ فِیْ بَرِیَّتِہٖ فَمَنْ اَنْـکَرَ وَاحِدًا مِنْھُمْ فَقَدْ
اَنْـکَرَنِیْ وَ مَنْ عَصٰی وَاحِدًا مِنْھُمْ فَقَدْ عَصَانِیْ وَ مَنْ
اَطَاعَکُمْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ۔ (الخبر)
ترجمہ: حضوؐر نے فر ما یا یا علی ؑ تو اور تیری
اولاد سے ہو نے والے آئمہ مخلوق پر اللہ کے خلیفے اور زمین پر اس کے اعلام ہیں جس
نے ان میں سے کسی ایک کا انکار کیا اس نے گو یا میرا انکار کیا اور جس نے ان میں
سے کسی ایک کی نافرمانی کی اس نے میر ی نافرما نی کی اور جس نے تمہاری اطاعت کی اس
نے میری اطاعت کی۔
(۱۷) قَالَ
یَاعَلِیّ مَا مِنْ عَبْدٍ لَقِیَ اللّٰہ وَ ھُوَ جَاحِدُ وِلایَتِکَ اِلَّا
لَقِیَ اللّٰہ بِعِبَادَۃِ صَنَمٍ اَوْ وَثْنٍ۔
ترجمہ: آپؐ نے فرمایا۔۔۔ اے علی ؑ جو تیری ولایت
کے انکار کے ساتھ محشور ہو گا وہ بت پرست اور صنم پرست ہو گا۔
(۱۸) وَ
فِیْ تَفْسِیْرِ الْاِمَامِ اَنَّہُ لایَکُوْنُ مُسْلِمًا مَنْ قَالَ اَنَّ
مُحَمَّد رَسُوْلِ اللّٰہِ فَاعْتَرَفَ بِہٖ وَلَمْ یَعْتَرِفْ عَلِیًّا وَصِیّہُ
وَ خَلِیْفَتہُ وَخَیْر اُمَّتِہٖ وَ اِنَّ تَمَامَ الْاِسْلامِ بِأعْتِقَادِ
وِلایَۃِ عَلِیّ عَلَیْہِ السَّلام وَ لا یَنْفَعُ الْاِقْرَارُ بِالنّبُوَّۃِ
مَعَ جَحْدِ اِمَامَۃِ عَلِیّ کَمَا لا یَنْفَعُ الْاِقْرَارُ بِالتَّوْحِیْدِ
مَنْ جَحَدَ بِالنّبُوّۃِ۔
ترجمہ: اور تفسیر امام حسن عسکری ؑ میں ہے آپ ؑ
نے فرمایا کہ جناب محمد مصطفیٰ کی رسالت کے اقرار سے اور محمد رسول اللہ کہنے سے
انسان مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک علی ؑ کے وصی و خلیفہ اور خیر اُمت ہونے کا
اعتراف نہ کرے۔۔۔ اور فرمایا اسلام کی تکمیل حضرت علی ؑ کے اقرارِ ولایت سے ہی
ہے۔۔۔ اور امامت علی ؑ کے انکار کے ساتھ نبوت کے اقرار کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس
طرح کہ نبوت کے منکر کو توحید کے اقرار کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
بہر کیف توحید اور نبوت کے اقرار سے اسلام نہیں آ
سکتا جب تک حضرت امیرالمومنین ؑ کی امامت و ولایت کا اقرار نہ ہو۔
(۱۹) عَنْ
اَمِیْرِالْمُوْمِنِیْنَ مَنْ لَمْ یُقِرّ بِوِلایَتِیْ لَمْ یَنْفَعُہُ
الْاِقْرَارُ بِنبُوّۃِ مُحَمَّدٍ اَلا اِنَّھُمَا مَقْرُوْنَانِ وَ ذَالِکَ اَنَّ
النَّبِیّ نَبِیٌ مُرْسَلٌ وَ ھُوَ اِمَامُ الْخَلْقِ وَعَلِیّ مِنْ بَعْدِہٖ
الْاِمَامُ الْخَلْقِ وَ وَصِیّ مُحَمَّدٍ فَمَنِ اسْتَکْمَلَ مَعْرِفَتِیْ فَھُوَ
عَلٰی الدِّیْنِ الْقَیِّمْ کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَ ذَالِکَ دِیْنُ
الْقَیِّمَۃ وَ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ کلامٍ کُنْتُ اَنَا وَ مُحَمَّدٌ نُوْرًا
وَّاحِدًا مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ فَأمَرَ اللّٰہُ ذَالِکَ النُّوْرَ اَنْ
یَّنْشَقَّ فَقَالَ لِلنِّصْفِ کُنْ مُحَمَّدًا وَ قَالَ لِلنِّصْفِ کُنْ
عَلِیًّا۔
ترجمہ: حضرت امیرالمومنین ؑ سے منقول ہے کہ جس نے
میری ولایت کا اقرار نہ کیا اس کو جناب رسالتمآب کی نبوت کا اقرار کوئی فائدہ نہ
دے گا (آگاہ رہو) یہ دونوں ایک دوسرے سے متصل ہیں کیونکہ نبی و رسول اور امام خلق
ہے اور علی ؑ اس کے بعد۔۔۔ امام خلق اور وصی نبی ہے پس جو شخص پوری طرح میری معرفت
حاصل کر لے وہ سیدھے دین پر ہے جس طرح خدا فرماتا ہے وَ ذٰلِکَ دِیْنُ
الْقَیّم پھر (سلسلہ کلام کو جاری رکھتے
ہوئے) فرمایا میں اور حضرت محمد مصطفی اللہ کے نور سے ایک ہی نور تھے تو پھر اللہ
نے اس نور کو دو حصوں میں منقسم ہونے کا حکم دیا اور ایک حصہ سے حضرت محمد مصطفی
کو بنایا اور دوسرا حصہ علی ؑ بنا۔
(وَ مِنْھَا) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلِیّ
مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْ عَلِیّ وَ لا یردی عَنِّیْ اِلَّا عَلِیّ ثُمَّ قَالَ
بَعْدَ کلامٍ طَوِیْلٍ یَاسَلْمَانُ وَ یَاجُنْدبُ اَنَا مُحَمَّدٌ وَ مُحَمَّدٌ
اَنَا وَ اَنَا مِنْ مُحَمَّدٍ وَ مُحَمَّدٌ مِنِّیْ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ کلامٍ
یَاسَلْمَانُ وَ یَاجُنْدبُ اَنَا اَمِیْرُ کُلّ مُوْمِنٍ وَ مُوْمِنَۃٍ
مِمَّنْ مَضٰی وَمِمِّنْ بَقٰی وَ قَالَ اَیْضًا بَعْدَ کلامٍ یَاسَلْمَانُ وَ یَاجُنْدَبُ اَنَا اُحْیِیْ
وَاُمِیْتُ بِاِذْنَ رَبِّیْ وَ اَنَا عَالِمٌ بِضَمَائِرِ قُلُوْبِکُمْ۔
(اسی حدیث میں ہے) کہ سرکارِ رسالت نے فرمایا کہ
علی ؑ مجھ سے ہے اور میں علی ؑ سے ہوں، پھر کلام طویل کے بعد فرمایا اے سلمان اور
اے جندب میں محمد ہوں اور محمد میں ہوں۔۔ میں محمد سے اور محمد مجھ سے ہے۔۔ پھر
آپ ؑ نے ارشاد فرمایا اے سلمان اور اے جندب میں گذشتہ اور آئندہ کے ہر مومن مرد
و عورت کا امیر ہوں۔۔۔ کلام کو جاری رکھتے ہوئے آپ ؑ نے فرمایا اے سلمان اور اے
جندب اللہ کے اِذن سے میں مارتا ۱؎ ہوں
اور جِلاتا ہوں۔۔۔ میں تمہارے دلوں کی پوشیدگی کو جانتا ہوں۔
وَالْاَئِمَّۃُ مِنْ اَوْلادِیْ یَعْلَمُوْنَ وَ
یَفْعَلُوْنَ ھٰذَا اِذَا اَحِبُّوْا وَ اَرَادُوْا لِاَنَّا کُلُّنَا وَاحِدٌ
اَوَّلُنَا
_____________________________________________________
۱- انسان کی حقیقی زندگی ایمان اور حقیقی موت
کفر ہے اور حضرت علی ؑ کی محبت ایمان اور ان کا بغض کفر ہے پس حضرت علی ؑ انسان کے
لئے حقیقی موت و حیات کا موجب ہیں۔
مُحَمَّدٌ وَ آخِرُنَا مُحَمَّدٌ وَ اَوْسَطُنَا
مُحَمَّدٌ وَ کُلُّنَا مُحَمَّدٌ فَلا تَفَرَّقُوْا بَیْنَنَا وَ نَحْنُ اِذَا شِئْنَا شَائَ
اللّٰہُ وَ اِذَا کَرِھْنَا کَرَہَ اللّٰہُ اَلْوَیْلُ کُلّ الْوَیْل لِمَنْ
اَنْکَرَ فَضْلَنَا وَ خُصُوْصِیَّتِنَا وَ مَا اَعْطَانَا اللّٰہُ رَبُّنَا اِنَّ
مَنْ اَنْکَرَ شَیْئًا مِمّا اَعْطَانَا اللّٰہُ فَقَدْ اَنْکَرَ قُدْرَۃَ اللّٰہِ
وَ مَشِیَّتِہٖ۔
اور میری
اولاد سے آئمہ ؑ جب چاہیں گے تو یہ باتیں جان اور کر سکتے ہیں۔۔۔ اس لئے کہ ہم سب
کے سب ایک ہیں ہمارا پہلا محمد اور آخری محمد اور درمیان میں محمد اور ہم سب محمد
ہیں ۔۔۔ پس ہمارے درمیان تفریق نہ ڈالو۔۔ اور جب ہم چاہتے ہیں تو اللہ بھی چاہتا
ہے اور جب ہم ایک چیز کو نہ چاہیں تو اسے اللہ بھی نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔ مکمل ویل ہے
ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی عطا کردہ ہماری فضیلت اور خصوصیت کا انکار کریں۔۔۔
تحقیق جن لوگوں نے ہماری کسی خدائی عطا کردہ فضیلت کا انکار کیا گویا اس نے اللہ
کی قدرت و مشیت کا انکار کیا۔
(۲۰) مَنْ
مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃ۔
ترجمہ: جو شخص امام زمان کی معرفت حاصل کئے بغیر
مر جائے پس اس کو موت جاہلیت (کفر) کی موت ہے (حدیث مشہور بین الفریقین ہے)
(۲۱) عَنِ
الْبَاقِر حُبُّـنَا اِیْمَانٌ وَ بُغْضُنَا کُفْرٌ وَ نِفَاقٌ (ص۱۵۶،۱۵۷ پر ملاحظہ فرمائیے)
ترجمہ: حضرت امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ ہماری
محبت ایمان اور ہمارا بغض کفر و نفاق ہے۔
(۲۲) مَرّ
عَلِیّ فِیْ الْمَسْجِدِ الْکُوْفَۃِ وَ قَنْبَر مَعَہُ فَرَأی
رَجُلاً قَائِمًا یُّصَلِّیْ فَقَالَ
یَااَمِیْرَالْمُوْمِنِیْنَ مَا رَأَ یْتُ رَجُلاً اَحْسَن صَلٰواۃ مِنْ ھٰذَا
فَقَالَ اَمِیْرُالْمُوْمِنِیْنَ یَا قَنْبَرُ فَوَاللّٰہِ لَرَجُلٌ عَلٰی
یَقِیْنٍ مِنْ وِلایَتِنَا اَھْلَ الْبَیْتِ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَۃِ اَلْفَ سَنَۃٍ
وَلَوْ اَنَّ عَبْدًا عَبَدَ اللّٰہَ اَلْفَ سَنَۃٍ لا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ
حَتّٰی یَعْرِفَ وِلایَتِنَا وَ لَوْ اَنَّ عَبْدًا عَبَدَ اللّٰہَ اَلْفَ سَنَۃٍ
وَجَائَ بِعَمَلِ اثْنَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ نَبِیًّا مَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ
حَتّٰی یَعْرِفَ وِلایَتِنَا اَھْلَ الْبَیْتِ وَ اِلَّا اکبہ اللّٰہُ عَلٰی
منخریہ فِیْ نَارِ جَھَنَّم۔
ترجمہ: کتاب جامع الاخبار کے نوادر میں ہے کہ ایک
دفعہ حضرت علی ؑ قنبر کو ساتھ لئے مسجد کوفہ عبور فرما رہے تھے کہ قنبر نے ایک شخص
کو نماز پڑھتے دیکھا۔۔۔ پس عرض کیا مولا اس شخص سے بہتر نماز پڑھتے ہوئے میں سے
کسی کو نہیں دیکھا، تو آپ ؑ نے فرمایا اے قنبر خدا کی قسم ہم اہل بیت کی ولایت پر
یقین رکھنے والا شخص ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے۔۔۔ اگر کوئی انسان ہزار برس
عبادت کرے جب تک ہماری ولایت کی معرفت نہ رکھے گا خدا اس کی کوئی عبادت قبول نہ
فرمائے گا۔۔۔ اگر کوئی انسان ہزار سال اللہ کی عبادت کرے اور بہتّر(۷۲) نبیوں
کے برابر اعمال کر کے لائے خدا قبول نہ فرمائے گا جب تک کہ ہماری اہل بیت کی ولایت
کا اقرار نہ کرے ۔۔۔ اگر ایسا نہ ہو تو خدا اس کو اُلٹے منہ جہنم میں ڈالے گا۔
بہر کیف
اس مضمون کی احادیث کتب امامیہ میں تو اتر سے منقول ہیں اس مقام پر جس قدر ذکر کی
جا چکی ہیں جِلائے ایمانی کے لئے کا فی ہیں۔۔۔ اختصار کے پیش نظر بعض کا صرف ترجمہ
ہی ذکر کر دیا ہے اور ان میں سے اکثر مقدمہ تفسیر سے منقول ہیں لہذ ا اختصاراً
حوالہ کتاب کو عموما ًترک کر دیا ہے (مقدمہ تفسیر مرأۃ الانوار)
اس کی
جملہ احادیث کا خلا صہ یہی ہے کہ چو نکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وا لہ
وسلم کے بغیر قر آن مجید کے حقیقی محافظ ومبلّغ اور اسلام کے مر وّج اور اس کی
تعلیما ت کے مد رّس آلِ محمد ہی ہیں۔۔۔ لہذا اُن کی محبت واجب ہے اور ان کی ولایت
واما مت کے اقرا ر و معرفت کے بغیر کوئی عمل صالح۔۔۔ صالح نہیں کیا جا سکتا، لہذ ا
قابل قبو ل بھی نہیں ہو سکتا جس طرح کہ توحید کے بعد نبو ت کے انکا ر سے کوئی عمل
قابل قبو ل نہیں ہو ا کرتا۔
نکتہ:
اما مت ومودّت میں تلا زم
ان احادیث کی رُو سے معلو م ہو ا اما مِ خلق آلِ
محمد سے غیر نہیں اور آلِ محمد اما مت سے جد ا نہیں۔
بعض
احادیث میں ہے کہ جو شخص معرفت امام کے بغیر مر جائے اس کی معر فت کفر وجہا لت کی
مو ت ہے۔
ایک طر ف
ہے حبِّ اہل بیت ہے تو ایما ن ہے۔۔۔دوسری طر ف ہے معر فت ِاما م ہے تو ایمان ہے۔۔۔
نتیجہ نکلا کہ جس کو حبّ اہل بیت حا صل ہے اسی کو ہی معرفت اما م حاصل ہے، چو نکہ
دونوں حدیثیں فریقین سے مر وی ہیں تو اب ان دو نو ں کا تجزیہ کر کے دیکھیں:
اگر فر ض کر لیا جائے کہ اما م اہل بیت سے نہیں
(غیر ازا ہل بیت کو عہدہ دیا جائے) تو قطعاً دونوں حدیثیں صا دق نہیں آسکتیں۔۔۔
کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اہل بیت رکھتا ہو اور اس امام کا منکر ہو جو غیر ازا
ہل بیت ہے تو حبِّ اہل بیت والی حدیث کی رُو سے وہ غیر مومن ہے اور اس کی موت
جہالت و کفر کی موت ہے۔۔۔ اسی طرح فرض کرو ایک شخص اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اور اس
امام کی امامت کا قائل ہے جو غیر اہل بیت سے ہے تو حبِّ علی ؑ والی حدیث کی رُو سے
وہ کافر و منافق ہے اور معرفت والی حدیث کی رُو سے وہ مومن ہے۔
پس اگر امامت کو اہل بیت سے جدا مانا جائے تو
جنابِ رسالتمآب کی ہرد و حدیثوں سے صرف ایک سچی ہو گی اور دوسری معاذاللہ جھوٹی
ہو گی اور جناب رسالتمآب کی زبانِ و حی ترجمان کی کوئی فرمائش غلط نہیں ہو سکتی،
تو ماننا پڑے گا کہ حدیثیں دونوں صحیح اور صادق ہیں اور جن کی محبت واجب ہے وہی
امامت کے اہل ہیں اور جو عہدہ امامت کے سزا وار ہیں ان یہ کی محبت واجب ہے۔
جس طرح
محبت و معرفت ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ محبت بغیر معرفت کے اور معرفت
بغیر محبت کے محال ہے اس طرح امامت بغیر اہل بیت کے اور اہل بیت بلا امامت کا قول
لغو اور بے سود ہے۔۔۔ پس جناب رسالتمآب کی دونوں فرمائشیں درست ہیں اور امامت صرف
اہل بیت ہی میں منحصر ہے۔