شہید ثانی قدّس سرہ نے جو ترتیب بیان فرمائی ہے ہم
اُسی کا ترجمہ ذکرتے ہیں:
متعلّم کو
سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کر لینا چاہیے اور علم تجوید کو بھی ضبط کر لینا چاہیے
تاکہ قرآن مجید سے دل نورانی ہو کرباقی علوم کی تحصیل کا موجب ہو، پھر علوم عربیہ
میںسے پہلے پہل علم صَرف میں اچھی مہارت حاصل کر کے علم نحومیں پوری دسترسی پیدا
کرے کیونکہ قرآن فہمی اور حدیث دانی میں ان کو بڑا دخل ہے، پھر باقی علوم عربیہ
کی تکمیل کے بعد بقدرِ ضرورت منطق و علم کلام حاصل کرے اس کے بعد علم اصول فقہ
پڑھے اور اس میں مہارت ِکا ملہ حاصل کرے کیونکہ مباحث ِفقہیّہ کی تحقیق اسی علم پر
موقوف ہے پھر علم دِرایۃُ الحدیث کا ضبط کر لے اور وہ آیاتِ قرآنیہ جو احکام
فرعیہ سے متعلق ہیں ان کو تحقیقی بحث کے ساتھ پڑھے، ان تمام علوم کے بعد اُن کتب
فقہیّہ کو پڑھے جن میںمسائل فرعیہ اور اصطلاحات فقہیّہ درج ہوںجن کے استدلالات
تفصیلی طور پر مفصّل فقہی کتب میں مذکور ہیں۔
مذکورہ بالا تمام علوم میںکامیابی حاصل کرلینے کے
بعد قرآن کی تفسیر کی طرف اقدام کرے کیونکہ باقی علوم اسی کا مقدمہ ہیں اگر اس پر
موفق ہو جائے تو صرف مفسرین کے نتائجِ افکار پر اکتفأ نہ کرے بلکہ اسکے معانی پر
غور و فکر کرے اور اسکے رموز ِمخفیہ پر اطلاع حاصل کرنے کیلئے تصفیۂ نفس کرے اور
اللہ سے کمال عجزو انکساری سے دُعا مانگے کہ اُسے قرآن فہمی اور اسکے رموز و
اسرار کا علم عطا ہو، پس قرآن کے حقائق میں اسے ایسے مطالب تک دسترسی نصیب ہو گی
کہ دوسرے مفسرین کی رسائی وہاں تک نہ ہوئی ہو گی، کیونکہ قرآن وہ بحرِ بیکراں ہے
جسکی تہہ موتیوں سے پُر اور سطح خیر سے لبریز ہے او رلوگوں کی صلاحتیں اسکے جو اہرِ
آبدار اور حقائق پُر اسرار کے حاصل کر نے میں اپنے اپنے مرتبہ کے لحاظ سے مختلف
ہیں، کیونکہ یہ چیز اُنکی ذہنی صلاحتیوں اور علمی استعدادات میں اختلافِ مراتب کی
بدولت ہے۔
٭ بعض
تفاسیر میں علوم عربیہ پر زیادہ زور دیا گیا ہے جیسے تفسیر کشّاف ِزمخشری۔
٭ بعض
تفاسیر پر حکمت و فلسفہ کا رنگ غالب ہے جیسے تفسیرمفتاحُ الغیب۔
٭ بعض
تفاسیر میں قصص کی بھرمار ہے جیسے تفسیر ثعلبی۔
٭ بعض
تفاسیر میں صرف تاویل حقائق ہے اور ظاہری تفسیر سے پہلو تہی ہے جیسے تفسیر کاشی۔
ایک روایت مشہور میں ہے کہ قرآن کیلئے تفسیر بھی
ہے او رتاویل بھی، حقائق بھی ہیں اور دقائق بھی، ظاہر بھی ہے باطن بھی، اس کی حد
بھی ہے اور مطلع بھی، اللہ اپنے فضل سے جسے چاہے عطا کرتا ہے اور وہ صاحب ِفضل
عظیم ہے۔