مناسب معلوم ہو تا ہے کہ اس ضمن میں حضرت امیر
المومنین ؑ کا ایک فرمان بھی تازگی ٔ روح کیلئے درج کردوں:
بحارانوارج۴ باب
احتجاجات امیر المومنین ؑ میں اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی ؑ مسندِ
خلافت پر متمکن ہوئے اور لوگ بیعت کر چکے تو آپ ؑ جناب رسالتمآبؐ کا عمامہ سر
پر۔۔۔ آنحضرؐت کی چادر دوشِ اطہر پر۔۔۔ نعلینِ رسول الثقلین زیب پا اور تلوارِ
سرکارِ رسالت کمر سے آراستہ کر کے مسجد ِنبوی میں تشریف لائے، آتے ہی منبرِ
رسالت پر جلوہ افروز ہوئے اور اطمینان سے بیٹھ کر ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ
کی انگلیوں میں ڈال کر دونوں ہاتھ اپنی گود میں رکھ لئے اور فرمایا:
٭ یَا مَعَاشِرَ النَّاسِ سَلُوْنِیْ قَبْلَ
اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ ھٰذَا سَفَطُ الْعِلْمِ ھٰذَا لُعَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ھٰذَا
مَا زَقَّنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ زَقًّا زَقًّا سَلُوْنِیْ فَاِنَّ عِنْدِیْ عِلْمُ
الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ اَمَا وَاللّٰہِ لَوْ ثُنِّیَتْ لِیَ الْوَسَادَۃُ
فَجَلَسْتُ عَلَیْھَا لَاَفْتَیْتُ اَھْلَ التَّوْرَاۃِ بِتَوْرَاتِھِمْ حَتّٰی
یَنْطِقَ التَّوْرَاۃُ فَتَقُوْلُ صَدَقَ عَلِیٌّ مَا کَذَبَ لَقَدْ اَفْتَاکُمْ بِمَا
اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیَّ۔
ترجمہ: اے لوگو۔۔۔ مجھ سے سوال کرو قبل اس کے کہ
مجھے نہ پائو۔۔۔ یہ علم کا جوہر ہے، یہ رسول اللہ کا لعاب ہے، یہ علم مجھے جناب
رسالتمآبؐ نے اس طرح سکھا یا ہے جس طرح پرندہ اپنے بچے کو دانہ بھراتا ہے، تحقیق
میرے پاس اوّلین و آخرین کا علم ہے، آگاہ رہو اگر میرے لئے تکیہ لگا دیا جائے پس
میں اس پر بیٹھ جائوں تو اہل تورات کو تورات سے ایسا فتویٰ دوں کہ تورات خود بول
اُٹھے گی اور کہے گی کہ علی ؑنے سچ فرمایا جھوٹ نہیں کہا، تمہیں وہ فتویٰ دیا ہے
جو مجھ میں خدا نے نازل فرمایا ہے۔
وَاَفْتَیْتُ اَھْلَ الْاِنْجِیْلِ
بِاِنْجِیْلِھِمْ حَتّٰی یَنْطِقَ الْاِنْجِیْلُ فَیَقُوْلُ صَدَقَ عَلِیٌّ مَا
کَذَبَلَقَدْ اَفْتَاکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیَّ۔
ترجمہ: اور انجیل والوں کو انجیل سے ایسا فتویٰ
دوں کہ خود انجیل پکار کر کہے گی کہ علی ؑ نے بالکل درست کہا اور غلط نہیں کہا،
تمہیں وہ فتویٰ دیا ہے جو مجھ میں خدا نے نازل فرمایا ہے۔
وَاَفْتَیْتُ اَھْلَ الْقُرْآنِ بِقُرْآنٍ
حَتّٰی یَنْطِقَ الْقُرْآنُ فَیَقُوْلُ صَدَقَ عَلِیٌّ مَا کَذَبَلَقَدْ
اَفْتَاکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیَّوَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْقُرْآنَ
لَیْلاً وَّ نَھَارًا فَھَلْ فِیْکُمْ اَحَدٌ یَعْلَمُ مَا نُزِّلَ فِیْہِ؟
ترجمہ: اور قرآن والوں کو قرآن سے اس طرح فتویٰ
دوں گا کہ خود قرآن پکار کر کہے گا کہ علی ؑ نے درست فتویٰ دیا ہے اور جھوٹ نہیں
کہا، تمہیں ایسے امر کا فتویٰ دیا ہے جو خدا نے مجھ میں نازل فرمایا ہے، حالانکہ
تم بھی شب و روز قرآن مجید پڑھتے ہو کیا تم میں کوئی بھی ایسا ہے جو قرآن میں
نازل شدہ تمام اُمور کو جانتا ہو؟
اِلٰی اَنْ قَالَ۔۔۔۔ ثُمَّ سَلُوْنِیْ
قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ فَوَالَّذِیْ خَلَقَ الْجَنَّۃَ وَ بَرَئَ النَّسْمَۃَ
لَوْ سَئَلْتُمُوْنِیْ عَنْ آیۃٍ آیَۃٍ فِیْ لَیْلٍ نَزَلَتْ اَوْ فِیْ نَھَارٍ
نَزَلَتْ مَکِّیِّھَا وَ مَدْنِیِّھَا وَ سَفَرِیِّھَا وَ حَضَرِیِّھَا وَ
نَاسِخِھَا وَ مَنْسُوْخِھَا وَ مُحْکَمِھَا وَ مُتَشَابِھِھَا وَ تَأوِیْلِھَا
وَ تَنْزِیْلِھَا لَاَخْبَرْتُکُمْ۔(حدیث)
ترجمہ: (سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے) آپ ؑ نے
فرمایا: پھر سوال کرو مجھ سے قبل اس کے کہ میں تم سے جدا ہو جائوں، مجھے دانہ کو
شگافتہ کرنے والے اور روح کو پیدا کرنے والے کی قسم ہے کہ اگر تم مجھ سے ایک ایک
آیت کے متعلق سوال کرو کہ رات میں اُتری ہو یا دن میں، مکی ہو یا مدنی، سفری ہو
کہ حضری، ناسخ ہو یا منسوخ، محکم ہو یا متشابہ اور تنزیل ہو یا تاویل، البتہ میں
تم سب کو بتلا سکتا ہوں۔
٭ وَ
فِیْ آخَرٍ قَالَ سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ فَاِنَّ بَیْنَ
جَوَانِحِیْ عِلْمًا جَمًّا۔
ترجمہ: ایک اور جگہ فرمایا مجھ سے سوال کرو قبل اس
کے کہ مجھے نہ پائو ۔۔۔تحقیق میری پسلیوں کے اندر علم کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
حضرت امیر المومنین ؑ کے دعوائے سلونی کو سن کر
مختلف اَدوار کے ملّائوں کے منہ میںپانی بھر آیا اور بر سرِ منبر اسی دعویٰ کی
رَٹ لگائی، لیکن کوتاہ اندیشی۔۔۔ تہی دامنی اور کور باطنی کے منظر عام پر آنے کے
فوراً بعد ہی اپنے الفاظ واپس لینے پرمجبور کر دئیے گئے، پس حسد و عناد کی آگ دل
میں۔۔۔۔ تعصب کی پٹی آنکھوں پر۔۔۔۔ غضب ِخدا کا وبال سر پر اور رسوائی و خجالت کا
طوق گردن میں پہن کر منبر سے اُن کو نیچے اُترنا پڑا، سبط ابن جوزی کا واقعہ مشہور
ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں نے طبع آزمائی کی اور رسوائی پائی۔۔۔ والحمد
للہ۔۔۔ بہر کیف یہ واضح ہو گیا کہ علومِ قرآنیہ اہل بیت عصمت کے ہی پاس ہیں، لہذا
اُن سے حاصل کئے بغیر کسی شخص کو قرآن مجید کی تاویل یا متعدد احتمالات میں سے
بعض کی ترجیح میں ذاتی رائے دینے کا کوئی حق نہیں۔
آئمہ طاہرین ؑ کی فرمائشات کے علاوہ جناب
رسالتمآبؐ سے قریبُ التواتر منقول ہے:
مَنْ فَسَّرَ الْقُرْآنَ بِرَأیِہٖ
فَلْیَتَبَوَّئْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے
وہ اپنی جگہ (ٹھکانہ) جہنم میں سمجھے۔
اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنَ النَّارِ بِجَاہِ
مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ