التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ولایت ِآلِ محمدعلیہم السلام



چونکہ تعلیماتِ قرآن اور ان پر عمل کرنے کے بعد نعماتِ آخرت کا استحقاق آلِ محمد کی وِلا پر ہی موقوف ہے لہذا اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق چنداحادیث ذکر کر دی جائیں تاکہ طالبانِ حق کیلئے راستہ زیادہ ہموار ہو جائے اور اہل بیت عصمت کے فرامین سے ایمان والوں کے دلوں میں نورِ معرفت اور زیادہ ہو جائے۔
مقدمہ تفسیر مرأۃ الانوار میں ریاض الجنان سے بروایت جابر جعفی منقول ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب اللہ تھا اور اس کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی پہلے پہل ذاتِ احدیت نے حضرت محمد مصطفیٰ اور ہم کو اپنے نور سے خلق فرمایا۔۔۔ ہم اللہ کی بارگاہ میں حاضر تھے اس وقت نہ زمین تھی نہ آسمان،نہ مکان نہ(زمان)شب و روز اور نہ شمس و قمر (غرضیکہ کوئی اور شئے نہ تھی) ہمارا  ۱؎  مقامِ نور پروردگار کے سامنے ایسا تھا جیسے شعاعِ شمس۔۔ شمس کے مقابلہ میں، پس ہم اس کی تقدیس و تحمید و عبادت کرتے تھے جس طرح حق عبادت ہے پھر خدا نے مکان کو پیدا کیا اور اس پر لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلِیّ اَمِیْرُالْمُوْمِنِیْنَ وَ وَصِیُّہُ بِہٖ اَیَّدْتُہُ وَ نَصَرْتُہ کا نقش فرمایا، پھر عرش کو پیدا کیا اور اس کے سراوقات پر اسی کلمہ طیبہ کا نقش کیا، پھر آسمانوں کو خلق فرماکر ان کے اطراف کواسی پاک کلمہ کی تحریر سے مزّین فرمایا، اس کے بعد ملائکہ کو پیدا کرکے ان کو آسمانوں میں سکونت دی اور ان پر اپنی ربویت اور حضرت محمد مصطفیٰ کی نبوت اور حضر ت علی ؑ کی ولایت کا اقرار پیش کیا، ملائکہ کے جسمِ لطیف پر یہ سن کر لرزہ پیدا ہو گیا بوجہ تاخیر جواب کے خداوندکریم نے ان سے اظہارِ عتاب کے طور پر ایک وقت کیلئے نظرِرحمت اُٹھالی اس کے بعد سات برس تک ملائکہ عرش کا طواف کرتے رہے اور اللہ سے معافی طلب کرتے رہے، جب انہوں نے اسی کلمہ طیبہ کا اقرار زبان
_____________________________________________________
۱-     یہ نظیر صرف سمجھانے کے لئے ہے ورنہ سورج اپنی شعاع کے لئے فاعلِ موجب ہے فاعلِ مختار نہیں یعنی یہ شعائیں سورج کے اختیار میں نہیں بلکہ وہ مجبور ہے وہ شعاعوں کو قطعاً نہیں روک سکتا، لیکن اللہ سبحانہ حضرات محمد وآلِ محمد کے لیے فاعلِ مختار ہے، نیز سورج جب سے ہے شعاع اس کے ساتھ ہے لیکن یہاں ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔ ایک حال میں خدا تھا اور یہ نہ تھے وہ قدیم ہے۔۔ یہ حادث ہیں، وہ خالق ہے یہ مخلوق ہیں ،پس یہاں تشبیہ سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح شعاعِ شمس۔۔ شمس کی مظہر ہے شمس کے وجود کی دلیل ہے اور اس کے فیض کی قاسم ہے اسی طرح یہ پاک ہستیاں اللہ کی مظہر اور اس کے وجود کی برہانِ ساطع اور اس کے فیضِ اقدس کے مخلوق تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں۔
پر جاری کیا تو خدا نے ان سے عتاب کو دُور فرما کر اظہارِ رضا مندی فرمایا اور ان کو اپنی عبادت کے لئے چن لیا، پھر ہمارے انوار کو تسبیح کا حکم ہوا پس ہمارے انوار نے تسبیح جاری کی تو ملائکہ نے سن کر تسبیح جاری کی۔۔ اگر ہمارے انوار کی تسبیح نہ ہوتی تو ملائکہ کو تسبیح و تقدیس کے ادا کرنے کا طریقہ معلوم نہ تھا۔۔۔۔۔ پھر خدا نے ہوا کو پیدا کیا اور اس پر کلمہ طیبہ (توحید و نبوت و ولایت)کا نقش فرمایا، پھر قومِ جن کو پیدا کرکے ان کو ہوا میں سکونت دی اور ان سے اسی کلمہ طیبہ کے اقرار کو طلب کیا چنانچہ ان میں سے اقرار کرنے والوں نے اقرار کیا اور انکار کرنے والوں نے انکار کردیا۔۔ اور ان میں سے پہلا انکار کرنے والا ابلیس تھا پس اس پر شقاوت (بدبختی )کی مہر لگ گئی، پھر خدا نے ہمارے انوار کو تسبیح کا حکم دیا چنانچہ ہمارے انوار نے تسبیح زبان پر جاری کی اور قومِ جنات میں سے مومنین نے بھی تسبیح جاری کی اگر ہماری تسبیح نہ ہوتی تو ان کو تسبیح کا پتہ نہ ہوتا، پھر خداوند کریم نے زمین کو پیدا کیا اور اس کی اطراف کو کلمہ تو حید و نبوت و ولایت کی تحریر سے مزّین فرمایا۔
اے جابر!انہی کلماتِ مقدسہ کی بدولت آسمان بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔۔ اور زمین اپنے مقام پر ثابت ہے ،پھر خداوند کریم نے آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا اور اس میں روح پھونکا اور اس کی ذرّیت کو اس کی صلب سے عالمِ ذر میں جمع کرکے اپنی ربوبیت اور حضرت محمد مصطفیٰ کی نبوت اور حضرت علی ؑ کی ولایت کا اقرار لیا۔
 اور اس اقرار میں بھی ہمارے انوار کو ہی سبقت حاصل تھی پس جناب محمد مصطفیٰ (کے نورِ پاک) کو خطاب کر کے فرمایا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر تجھے اور علی ؑ کو اور تمہاری عترتِ طاہرہ کو جو ہادی و مہدی ہیں خلق نہ کرتا تو نہ جنت کو پیدا کرتا اور نہ  نار کو۔۔ نہ مکان و زمین کو نہ آسمان و ملائکہ کو۔۔ اور نہ کسی دوسری مخلوق کو پیدا کرتا۔
اے محمد۔۔ تمام مخلوقات سے میرا خلیل و حبیب و صفی و برگزیدہ ومحبوب ترین ہے۔۔۔ تو ہی اوّل مخلوق ہے تیرے بعد تیرا وصی۔۔ صدیق۔۔ امیرالمومنین علی ؑ ہے جو تیرا مویّد وناصر۔۔ میری مضبوط رسی اور میرے اولیا ٔکا نور ہے۔۔ اور اس کے بعد آئمہ طاہرین ہیں جو ہادی و مہدی ہیں تمہاری خاطر میں نے سب مخلوق کو خلق کیا ہے، تم ہی میرے اور میری تمام مخلوق کے درمیا ن برگزیدہ ہو، تمہیں میں نے اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا تمہاری وجہ سے مخلوق میری رضا و غضب کی حقدار بنے گی۔۔ اور تمہاری وجہ سے مخلوق سے سوال و جواب ہو گا۔۔ پس ہر شئے ہلاک ہونے والی ہے سوائے میرے ’’وجہ ‘‘ کے اور تم
_____________________________________________________
۱-     یہاں مکان سے مراد مطلق جائے قرار ہے۔
۲-   برس کی تعبیر مجاز ہے کیونکہ روایات سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ملائکہ کی تخلیق نظام شمسی کے قیام سے پہلے ہے   واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال  (حسین بخش عفی عنہ)
ہی میرا ’’وجہ‘‘ ہو تم ہلاک نہ ہو گے۔۔۔ اور تم سے محبت رکھنے والے ہلاک نہ ہوں گے۔۔ اور جو تم کو واسطہ قرار دینے کے بغیر میری طرف متوجہ ہوں گے وہ گمراہ اور ہلاک ہوں گے۔۔ تم ہی میری مخلوق میں برگزیدہ اور اہل ارض و سما کے سردار ہو۔
سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ جب خداوند کریم نے حضرت آدم ؑ کی اولاد سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا اور فرمایا ’’اَلَسْتُ بِرَبّکُم‘‘  تو پہلے ہم ہی تھے جنہوں نے ’’  بَلٰی‘‘ کہا اس کے بعد حضرت محمد کی نبوت اور حضرت علی ؑ کی ولایت کا اقرار لیا۔۔ پس اقرار کرنے والوں نے اقرار کیا اور انکار کرنے والوں نے انکار کیا۔
سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے حضرت باقر العلوم علیہ السلام نے فرمایا پس ہم ہی پہلی مخلوق ہیں جنہوں نے پہلے پہل اللہ کی عبادت کی اور اس کی تسبیح زبان پر جاری کی۔۔۔ اور ہم ہی تمام مخلوق کی خلقت کا ذریعہ اور ان کی تسبیح و عبادت کا وسیلہ ہیں خواہ ملائکہ ہوں یا انسان، پس ہم ہی کے ذریعہ سے اللہ کی معرفت حاصل کی گئی اور ہم ہی کے ذریعہ سے اس کی عبادت ہوئی اور ہم ہی کی وساطت سے اس کی توحید پہچانی گئی۔۔ تمام مخلوقات میں سے جن کو عزت ملی وہ ہماری ہی بدولت ہے۔۔۔۔۔ نیز ثواب کا استحقاق ہماری اطاعت سے ہے اور عذاب کا استحقاق ہماری ہی نافرمانی سے ہے، اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی اِنَّا نَحْنُ الصَّافُوْنَ وِاِنَّ لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْن اور یہ آیت تلاوت فرمائی   قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِیْن پس جناب رسالتمآبؐ ہی پہلے وہ شخض ہیں جنہوں نے خداکے ہے ’’وَلَد‘‘ کی نفی کی اور اس کے شریک کو محال قرار دیا اور ان کے بعد ہماری یہی شان ہے۔
 ہما را نو رصلب ِآدم ؑ میں رہا۔۔پھر یکے بعد دیگرے اصلا ب وا ر حا م میں منتقل ہو تا رہا  یہا ں تک کے صلب  عبدالمطلب میں پہنچا اور یہا ں سے آگے دو حصو ں میں تقسیم ہو ا۔۔۔ایک حصہ حضر ت عبد اللہ کی طر ف اور دوسر ا حصہ حضرت ابو طا لب ؑ کی طر ف منتقل ہو ا۔۔۔۔۔چنا نچہ خدا ارشا د فر ما تا ہے: وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِ یْن اس سے مرا د اصلابِ انبیا ٔ اور ان کی زو جا ت کے ارحا مِ طا ہر ہ ہیں۔
 نو ٹ:  یہ حد یث اختصا ر کے پیش نظر مرا دی تر جمہ سے ذکر کی ہے۔
(۱)   حضرت اما م جعفر صا دق علیہ السلا م فر ما تے ہیں کہ ارشا دِ خد ا  فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا میں فطر ت سے مرا د تو حید رسا لت اور (ولا یت) امیر المو مینن علی ؑ ہے  
(۲)   حضرت صادق آلِ محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ خداوند نے تما م مخلو قا ت کے پیدا کر نے سے قبل چو دہ ہزار سا ل نو رِ محمدی کو خلق فر ما یا اور اسکے سا تھ با رہ حجا ب پید اکئے (حجا بو ں سے مر اد آئمہ طاہرین ؑ ہیں) (مقد مہ تفسیر)
(۳)   عَنْ تَفْسِیْرِ الْاِ مَامِ اَنَّہُ قَالَ اِنَّ وِلایَۃَ مُحَمّد وَّآ ل مُحَمَّد ھِیَ الْفَرْض الْاَقْصٰی وَا لْمُرَادُ الْاَ فْضَلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ اَحَدًا مِنْ خَلْقِہٖ وَلا بَعَثَ اَحَدً ا مِنْ رُسُلِہٖ اِلَّا لِیَدْعُوْھُمْ اِلٰی وِلایَۃِ مُحَمَّدٍ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمْ وَعَلِیّ وَ خُلَفَائِہٖ وَیَأخُذَ عَلَیْھِمُ الْعَھْدَ لِیُقِیْمُوْا عَلَیْہِ وَلِیُعَلّمُوْا بِہٖ سَائِرِ عَوَامِ الْاُمّۃ (الخبر)
ترجمہ: تفسیر امام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تحقیق محمد و آل محمد کی ولایت انتہائی مقصود و مراد خداوندی ہے۔۔ خدا نے جس قدر مخلو ق پید ا کی ہے اور جتنے نبی مبعو ث فر مائے ہیں وہ صر ف اس لئے کہ باقی مخلوق کو حضرت محمد مصطفیٰ اور حضرت علی ؑ اور ان کے جانشینوں کی ولایت کی طرف دعوت دیں۔۔ اور ان سے عہد لیا کہ وہ خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں اور اپنی امتوں کو بالعموم اس کی تعلیم دیں۔
(۴)   عَنْ آمَالِی الشَّیْخ عَنِ الصَّادِقِ قَالَ وِلایَتُنَا وِلایَۃُ اللّٰہِ الَّتِیْ لَمْ یُبْعَثْ نَبِیٌّ قَطّ اِلَّا بِھَا۔
ترجمہ: آمالی شیخ سے منقول ہے کہ حضرت صادقؑ نے فرمایا کہ ہماری ولایت اللہ کی ولایت ہے کوئی نبی اس کے بغیر مبعوث نہیں کیا گیا۔
(۵)    عَنِ الْکافِیْ عَنِ الصَّادِقِ مَا مِنْ نَّبِیٍّ جَائَ قَطّ اِلَّا بِمَعْرِفَۃِ حَقِّنَا وَتَفْضِیْلِنَا عَلٰی مَنْ سِوَانَا۔
ترجمہ: حضرت امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں آیا جو ہماری معرفت نہ رکھتا ہو اور ہمیں غیروں سے افضل نہ مانتا ہو۔
(۶)   عَنْہُ اَیْضًا عَنْ اَبِی الْحَسَنِ قَالَ وِلایَۃُ عَلِیّ مَکْتُوْبَۃٌ فِیْ جَمِیْعِ صُحُفِ الْاَنْبِیَائِ وَ لَمْ یَبْعَثِ اللّٰہَ رَسُوْلا اِلَّا بِنَبُوَّۃِ مُحَمَّدٍ وَ وِلایَۃِ عَلِیّ۔
ترجمہ: حضرت امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں آیا جو ہماری معرفت نہ رکھتا ہو اور ہمیں غیروں سے افضل نہ مانتا ہو۔
(۷)   عَنْ تَفْسِیْرِ الْعَیَّاشِیْ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیّ اَنَّہُ قَالَ مَن دَفَعَ فَضْلَ اَمِیْرِالْمُوْمِنِیْنَ فَقَدْ کَذَّبَ بِالتَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالزَّبُوْرِ وَ صُحُفِ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی وَ سَایِرِ کُتُبِ اللّٰہِ المُنْزِلَۃِ فَاِنَّہُ مَا نَزَلَ شَیْیئٌ مِنْھَا اِلَّا وَاھم مَا فِیْہِ بَعْدَ الْاِقْرَارِ بِتَوْحِیْدِ اللّٰہِ وَالْاِقْرَارِ بِنَبُوَّۃِ وَالْاِعْتِرَافِ بِوِلایَۃِ عَلِیّ وَالطَّیِّبِیْنَ مِنْ آلِہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا قَبَضَ اللّٰہُ نَبِیّاً حَتّٰی آمَرَہُ اَنْ یُّوْصٰی اِلٰی عَشِیْرَۃٍ مِنْ عُصْبَتِہٖ وَ آمَرَنِیْ اَنْ اُوْصِیَ فَقُلْتُ اِلٰی مَنْ یَارَبّ؟ اِلٰی ابْنِ عَمِّکَ عَلِیّ ابْنِ اَبِیْطَالِبٍ فَاِنِّیْ قَدْ اثَبتُہُ فِی الْکُتُبِ السَّالِفَۃِ وَکَتَبْتُ فِیْھَا اِنَّہُ وَصِیّکَ وَعَلٰی ذٰلِکَ اَخَذْتُ مِیْثَاقَ الْخَلائِقِ وَمَوَانِیْقَ اَنْبِیَائِیْ وَرُسُلِیْ اَخَذْتُ مِوَاثِیْقَھُمْ لِیْ بِالرَّبُوْبِیَّۃِ وَلَکَ یَا مُحَمَّد بِنَبّوۃِ وَ لِعَلِیّ بِالْوِلایَۃِ۔
ترجمہ: تفسیر عیاشی میں حضرت امام حسن علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے فضل کا انکار کرے تو گویا اس نے تورات۔۔انجیل۔۔صحف ابراہیم ؑو موسیٰؑ اور تمام کتب سماویہ کو جھٹلایا، کیونکہ ان کتب میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں اُتری جس میں اقرارِ توحید۔۔ اقرار نبوت کے بعد حضرت علی ؑ اور ان کی آلِ طاہرین کی ولایت کا اعتراف کرنے کا بیان اہمیت کے ساتھ مذکور نہ ہو، پھر فرمایا کہ حضرت رسالتمآب ؐ نے فرمایا کہ خدا نے کسی نبی کی قبض روح نہیں کی مگر یہ اس کو اپنی عتر ت میں سے ایک کو وصی بنانے کا حکم دیا۔۔۔۔۔اور مجھے بھی وصی مقرر کرنے کا حکم دیا تو میں نے عرض کیا کہ یاربّ کس کو وصی بنائو ں؟فرمایا۔۔اپنے عم زاد علی ؑ بن ابی طالب کو، کیونکہ میں نے کتب سابقہ میں اسی کو حتمی طور پر قرار دیا ہے اور ان میں لکھ دیا ہے کہ تحقیق وہی تیرا وصی ہو گا۔۔۔۔۔اور اسی پر میں نے تما م مخلو ق اور انبیا ٔ  ورسل سے عہد وپیما ن لیا۔۔ میں نے ان سے اپنی ربو بیت اور تیری نبو ت اور علی ؑ کی ولا یت کا ہی میثا ق لیا تھا۔
(۸)   عَنْ حُذِیْفَۃِ بْنِ اسیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَا تَکامَلَتِ النَّبُوَّۃُ لِنَبِیّ فی الا ظلّۃ حَتّٰی عَرَضْتُ عَلَیْہِ وِلایَتِیْ وَوِلایَۃِ اَھْلِ بِیْتِیْ وَ مُثِّلُوْا لَہُ فَأقِرُّوْا بِطَاعَتِھِمْ وِلایَتَھُمْ۔
ترجمہ: حذیفہ بن اسید سے مر وی ہے کہ جناب رسا لتما ٓبؐ نے ار شا د فر ما یا کہ کسی نبی کی نبو ت پا یہ تکمیل کو نہیں پہنچی یہاں تک کہ ان پر میری اور میرے اہل بیت کی ولا یت پیش کی گئی اور ان کے سا منے ان کی صورتیں لائی گئیں پس انہوں نے ان کی اطا عت و و لا یت کا اقر ا ر کیا۔
(۹)   عَنْ کِتَابِ سلیْم بْنِ قَیْس الْھِلالِیْ عَنِ الْمِقْدَاد قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ یَقُوْلُ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا اسْتَوْجَبَ آدَم اَنْ یَخْلُقَہُ وَ یَنْفَخَ فِیْہِ مِنْ رُوْحِہٖ وَاَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْہِ وَ یَردّہُ اِلٰی جَنَّتِہٖ لا بِنَبُوّتِیْ وَبِوِلایَۃِ عَلِیّ بَعْدَیْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا رَأی اِبْرَاھِیْمُ مَلَکُوْتَ السَّمٰوَاتِ وَلا اتَّخَذَہُ اللّٰہُ خَلِیلْاً اِلَّا بِنَبُوَّتِیْ وَ مَعْرِفَۃِ عَلِیّ بَعْدِیْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا وَ لا اَقَامَ عِیْسٰی آیـَۃً لِلْعَالَمِیْنَ اِلَّابِنَبُوَّتِیْ وَالْاِقْرَارِ لِعَلِیّ مِنْ بَعْدِیْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا تنبّاء نَبِیّ قَطّ اِلَّا بِمَعْرِفَتِیْ وَالْاِقْرَارِ لَنَا بِالْوِلایَۃِ وَلا اسْتَاھَلَ خَلْقٌ مِنَ اللّٰہِ النَّظْرَ اِلَّا بِالْعُبُوْدِیَّۃِ لَہُ وَالْاِقْرَارِ لِعَلِیّ بَعْدِیْ۔
ترجمہ: کتا ب سلیم بن قیس ہلا لی سے بروا یت مقدا د منقو ل ہے کہ میں نے جنا ب رسا لتمآب کو فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے قسم ہے اس ذا ت کی جس کے ہا تھ میں میر ی جا ن ہے کہ آدم ؑ کا مستحقِ خلقت ہو نا۔۔ اس میں روح کا پھو نکھنا۔۔ اس کی توبہ کا قبو ل ہو نا۔۔ اور اس کا جنت کی طر ف پلٹنا صر ف میری نبو ت ا ور علی ؑ کی ولا یت ہی کی بدولت تھا، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابر اہیم ؑ کا ملکوت سما کی سیر کر نا۔۔ اور اس کا خلیل اللہ بننا میر ی ہی نبو ت اور میرے بعد علی ؑ کی معرفت کے طفیل تھا، اور مجھے قسم ہے اس ذا ت جس کے قبضہ میں میری جا ن ہے کہ خدا کا حضرت موسیٰؑ سے کلا م کر نا۔۔ اور عیسیٰؑ کو عا لمین کے لیے معجزہ بنا نا میری نبوت اور میرے بعد علی ؑ کے اقر ا ر کی وجہ سے تھا، اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میر ی جان ہے کہ ہما ری معر فت اور ہما ری ولایت کے اقرار بغیر کوئی نبی۔۔ نبی نہیں بن سکا اور کوئی مخلوق خدا کی نظر رحمت کی مستحق نہیں ہوئی مگر اس کی عبودیت اور میرے بعد علی ؑ کی ولایت کے اقرار سے۔
(۱۰)         عِنِ السَّرَآئِرِ عَنْ جَامِعِ الْبَزَنْطِیْ عَنْ سُلَیْمَانِ بْنِ خَالِدْ قَالَ سَمِعْتُ اَبَاعَبْدِاللّٰہِ یَقُوْلُ مَا مِنْ نَبِیّ وَلا مِنْ آدَمِیّ وَلا مِنْ اِنْسٍ وَلا جِنٍّ وَلا مَلَکٍ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ اِلَّا وَ نَحْنُ الحُجَجُ عَلَیْھِمْ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ خَلْقًا اِلَّا وَقَدْ عَرَضَ وِلایَتِنَا عَلَیْہِ وَاحْتَجّ بِنَا عَلَیْہِ فَمُوْمِنٌ بِنَا وَ کافِرٌ جَاحِدٌ حَتّٰی السَّمٰوَاتِ وَالارْضَ وَالْجِبَال۔
ترجمہ: سرائر میں بروایت جامع بزنطی سلیمان بن خالد کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ ؑ نے فرمایا کوئی نبی۔۔ کوئی بشر۔۔ کوئی جن و انس و ملک خوا ہ زمین میں خواہ آسمان میں ایسا نہیں جس پر ہم حجت خدا نہ ہو ں، اور خدا وند کریم نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جس پر ہماری ولایت کو پیش نہ کیا گیا ہو۔۔ پس جو مومن ہوئے وہ بھی ہماری وجہ سے اور جو کافر و منکر ہوئے وہ بھی ہمارے (بغض کے) سبب سے ہوئے حتی کہ آسمانوں۔۔ زمینوں۔۔ پہاڑوں کا بھی یہی حال ہے۔
(۱۱)         عَنْ مَنَاقِبٍ عَنْ ابْنِ شھْر آشوْبٍ عَنْ مُحَمّدِ بْنِ الْحَنْفِیّۃِ عَنْ اَمِیْرِ الْمُوْمِنِیْنَ فِیْ حَدِیْثٍ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ عَرَضَ وِلایَتِیْ وَاَمَانَتِیْ عَلٰی الطّیُوْرِ فَاوّلُ مَنْ آمِنَ بِھَا الْبزَاۃِ الْبِیْض وَالْقَنَابِرو اَوّلُ مَنْ حَجَدَھَا الْبُوْم وَالْعُنَقَا فَلَعَنَھُمَا اللّٰہُ مِنْ بَیْنَ الطّیُوْرِ فَأمَّا الْبُوْم فَلا تَقْدِرُ اَنْ تَطِیْرَ بِالنَّھَارِ لِبُغْضِ الطّیْوْرِ لَھَا وَاَمَّا الْعُنَقَاء فَغَابَت فِی الْبِحَارِ لاتُرٰی وَاِنْ اللّٰہَ عَرَضَ اَمَانَتِیْ عَلٰی الْاَرْضِ فَکُلُّ بُقْعَۃٍ آمَنَتْ بِوِلایَتِیْ جَعَلَھَا طَیِّبَۃً زَکِیَّۃً وَجَعَلَ نَبَاتَھَا وَ ثَمَرْھَا حُلُوًّا عَذْبًا وَجَعَلَ مَائَھَا زُلالًا وَکُلُّ بُقْعَۃٍ جَحَدَتْ اِمَامَتِیْ وَانْکَرَتْ وِلایَتِیْ جَعَلَھَا سبْخًا وَجَعَلَ نَبَاتَھَا مراد عَلْقمًا وَجَعَلَ ثَمْرَھَا الْعَوْسَجِ وَالْحَنْظَلِ وَجَعَلَ مَائَھَا مِلْحًا اُجَاجًا (الخبر)
ترجمہ: مناقب ابن شہر آشوب سے منقول ہے کہ حضرت محمد ابن حنفیہ حضر ت امیرالمومنین ؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؑ نے فرمایا۔۔ تحقیق اللہ سبحانہ نے میر ی امامت و ولایت کو پرندوں پر پیش فرمایاپس سب سے پہلے سفید بازوں اور قمریوں نے قبول کیا اور بوم اور عنقا ٔ نے انکار کیا پس پرندوں میں سے ان دونوں پر خدا نے لعنت کی، لیکن بوم۔۔ پس وہ تو دن میں پرواز نہیں کر سکتا کیونکہ باقی پرندے اس کو مبغوض جانتے ہیں اور عنقا ٔ پس وہ سمندروں میں غائب ہو کر لاپتہ ہوگئی ہے۔۔۔ اور تحقیق اللہ نے میری ولایت کو زمین پر پیش کیا پس جو بقعہ میری ولایت پر ایمان لایا خدا نے اس کو پاکیزہ قرار دیا ور اس کی انگوری اورپھل کو میٹھا اورشیرین بنایا اور اس کے پانی کو خوشگوار بنایا اور جس بقعہ نے میری امامت کا انکار کیا اور میر ی ولایت کو ترک کیا خدا نے اس کو زمین شوربنایا اور اس کی انگوری کو تلخ اور بد مزہ قرار دیا اور اس کا پھل ایلوا و کوڑ تمہ بنایا اور اس کا پانی نمکین و شور بنایا۔
(۱۲)         عَنِ الْاِخْتِصَاصِ عَنْ جَابِر عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ فِیْ حَدِیْثٍ قَالَ یَا جَابِر سُمِّیَ اللّٰہُ الْجُمْعَۃَ جُمْعَۃً لِاَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ جَمَعَ فِیْ ذاَلِکَ الْیَوْم الْاَوّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ وَجَمِیْعِ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنَ الْجِنّ وَ الْاِنْسِ وَکُلّ شَیْئٍ خَلَقَ رَبّنَا وَالسَّمٰوَات وَا لْاَرْضِیْنَ وَالْبِحَارُ وَالْجَنَّۃَ وَالنَّارَ وَکُلّ شَیْئٍ خَلَقَ اللّٰہُ فِی الْمِیْثَاقِ فَاَخَذَ الْمِیْثَاقَ مِنْھُمْ لَہُ بِالرّبُوْبِیّۃِ وَ لِمُحَمَّدٍ بِالنّبُوَّۃِ وَلِعَلِیّ بِالْوِلایَۃِ۔
ترجمہ: اختصاص سے بروایت جا بر حضر ت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث میںمنقول ہے آپ ؑ نے فرمایا۔۔ اے جابر خدا نے جمعہ کا نام جمعہ اس لئے رکھاہے کہ اس روز اوّلین و آخرین جنّ و انس۔۔۔ آسمان و زمین۔۔۔ خشک وتر اور جنت و نار غرضیکہ تمام مخلوق جو خدا وند کریم نے پیدا کی ہے ان سب کو جمع کرکے ان سے اپنی ربوبیت اور حضرت محمد مصطفیٰ کی نبوت اور حضرت علی ؑ کی ولایت کا اقرار لیا اسی مضمون کی روایات جلد ۱۴ ص۲۰ پر ملاحظہ ہوں۔
(۱۳)         فِیْ حَدِیْثٍ عَنِ النَّبِیْ قَالَ یَا جَارُوْد لَیْلَۃٌ اَسْریٰ بِیْ اِلٰی السَّمَأ اَوْحٰی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ سَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا عَلٰی مَا قَدْ بَعَثُوْا فَقُلْتُ لَھُمْ عَلٰی مَا بُعِثْتُمْ؟ فَقَالُوْا عَلٰی نَبُوَّتِکَ وَوِلایَۃِ عَلِیّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ وَالْآئِمَّۃ مِنْکُمَا۔۔ ثُمَّ اَوْحٰی اِلَیَّ اَنْ اِلْتَفِتْ عَنْ یَمِیْنِ الْعَرْشِ فَالْتَفْتُ فَاِذَا عَلِیّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسِیْنِ وَعَلِیّ بْنِ الْحُسَیْنِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیّ وَجَعْفَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَمُوْسٰی بْنِ جَعْفَرٍ وَعَلِیّ ابْنِ مُوْسٰی وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیّ وَعَلِیّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِیّ وَالْمَھْدِیْ فِی ضحْضَاحٍ مِنْ نُّوْرٍ یُصَلُّوْنَ فَقَالَ لِیَ الرَّبّ تَعَالٰی ھٰئُوْلائِ الْحُجَج اَوْلِیَائِیْ (الخبر)
ترجمہ: ایک حدیث میں حضرت رسالتمآبؐ نے جارود کو ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو خدا نے میری طرف وحی کی کہ اپنے سے پہلے رسولوں سے دریافت کیجئے کہ وہ کس شرط پر معبوث کئے گئے؟ پس میں نے ان سے پوچھا کہ تم کس شرط پر معبوث ہوئے؟ تو انہوں نے کہاکہ تیری نبوت اور علی ؑ اور باقی آئمہ کی ولایت کے اقرار پر (ہم مبعوث ہوئے) پھر میری طرف وحی ہوئی کہ عرش کی دائیںجانب نظر کرپس میں نے دیکھاتو ۔۔۔علی۔۔ حسن۔۔ حسین ۔۔علی بن الحسین۔۔ محمد بن علی۔۔ جعفر بن محمد۔۔ موسیٰ بن جعفر۔۔ علی بن موسیٰ۔۔ محمد بن علی۔۔ علی بن محمد۔۔ حسن بن علی۔۔ اور حضرت مہدی علہیم السلام ایک ایوانِ نور میں مشغول عبادت ہیں۔۔۔ پس مجھے ارشاد ہوا کہ میرے اولیا ٔ حجت علیٰ الخلق یہی ہیں۔۔۔ مزید تفصیل جلد۸ص۲۶۲ اور جلد ۱۲ص۲۴۰ پر ملاحظہ ہو۔
(۱۴)         عَنْ یَنَابِیْعِ الْمَوَدَّۃِ عَنِ ابْنِ الْمَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَمَّا عَرِجَ بِی اِلٰی السَّماَئِ اِنْتَہٰی بِیَ السَّیْرُ مَعَ جِبْرِیْلَ اِلٰی السَّمَائِ الرَّابِعَۃِ فَرَأیْتُ بَیْتًا مِنْ یَاقُوْتٍ اَحْمَرٍ فَقَالَ جِبْرِیْلَ ھٰذَا الْبَیْتُ الْمَعْمُوْرِ قُمْ یَامُحَمَّد فَصَلِّ اِلَیْہِ قَالَ النَّبِیْ جَمَعَ اللّٰہُ النَّبِیّیْنَ فَصَفّوْا وَرَائِیْ صَفًّا فَصَلَّیْتُ بِھِمْ فَلَمَّا سَلّمْتُ آتَانِیْ آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّیْ فَقَالَ یَا مُحَمَّد رَبُّکَ یَقْرَئُکَ السَّلامُ وَ یَقُوْلُ سَلِ الرُّسُلَ عَلٰی مَا اَرْسَلْتُھُمْ مِنْ قَبْلِکَ فَقُلْتُ مَعَاشِرَ الرُّسُلِ عَلٰی مَاذَا بَعَثَکُمْ رَبُّکُمْ قَبْلِیْ؟ فَقَالَتِ الرُّسُلُ عَلٰی نَبُوَّتِکَ وَ وَلایَۃِ عَلِیّ ابْنِ اَبِیْطَالِبٍ (الخبر)
ترجمہ: ینا بیع المودّۃ سے بروایت ابن مسعود منقول ہے کہ حضرت رسالتمآبؐ نے فرمایا کہ جب مجھے معرا ج آسما نی کرائی گئی میرا گزر جبرائیل کے ہمرا ہ چو تھے آسما ن سے ہو ا پس میں نے وہا ں یا قوتِ احمر کا ایک محل دیکھا تو جبرا ئیل نے کہا کہ یہ بیت الما ٔمور ہے۔۔ یہا ں ٹھہر کر اس کی طر ف رُخ پھیر کر نما ز پڑھیے۔۔۔پس حضوؐ ر فر ما تے ہیں کہ خدا نے تمام انبیا ٔ کو جمع کیا اور انہو ں نے میر ے پیچھے صف با ند ھی پس میں نے ان کو نما ز پڑھا ئی۔۔ جب سلا م پڑھا تو فر شتہ اللہ کی طر ف سے آپہنچا  پس کہا اے محمد۔۔ خد ا بعد از تحفہ ٔ سلا م فر ما تا ہے کہ رسو لو ں سے سو ال کیجیے کہ میں نے ان کو کس شر ط پر مبعوث کیا؟پس میں نے پو چھا اے گر وہِ انبیا ٔ تم کو خدا نے مجھ سے پہلے کس شرط پر مبعوث کیا؟ پس رسو لو ں نے جواب دیا کہ تیری نبو ت اور علی ؑ ابن ابی طا لب کی ولا یت کے اقرار پر(ہم مبعوث ہوئے)
(۱۵) نَقَلَ الْعَلامَۃ ھٰذَا الْحَدِیْث عَنِ ابْنِ عَبْد الْبرّ وَ ابْنِ اَبِیْ نَعِیْمٍ وَ فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُمِّیْ وَالْبَصَائِرِ عَنِ الصَّادِقِ قَالَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَمَلائِکَۃِ اللّٰہِ فِی السَّمٰوَاتِ اَکْثَرُ مِنْ عَدَدِ التُّرَابِ فِی الْاَرْضِ وَمَا فِی السَّمَائِ مَوْضِعَ قَدَمٍ اِلَّا وَفِیْھَا مَلَکٌ یُسَبِّحَہُ وَ یُقَدِّسَہُ وَلا فِی الْاَرْضِ شَجَرٌ وَلا مَدَرٌ اِلَّا وَ فِیْھَا مَلَکٌ مُوکلٌ بِھَا وَ مَا مِنْھُمْ اَحَدٌ اِلَّا وَ یَتَقَرَّبُ کُلّ یَوْمٍ اِلٰی اللّٰہِ بِوِلایَتِکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیَسْتَغْفِرُ لِمُحِبّیْنَا وَ یَلْعَنُ اَعْدَائِنَا۔
ترجمہ: علا مہ حلّی نے اس حدیث کو ابن عبدالبرّ اور ابی نعیم سے بھی نقل کیا ہے۔۔۔ تفسیر قمی اور بصائر میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے البتہ آسمان میں اللہ کے فرشتے زمین میں مٹی کے ذرّات سے زیادہ ہیں۔۔ آسمان میں کوئی قدم رکھنے کی ایسی جگہ نہیں جہاں ایک فرشتہ مشغول تسبیح و تقدیس نہ ہو اور زمین پر کوئی انگوری یا کوئی ڈھیلا ایسا نہیں جہاں ایک فرشتہ مو کل موجود نہ ہو۔۔ اور ان میں سے ہر ایک ہر دن اللہ کی بارگاہ میں محبت اہل بیت کو ذریعہ قرب قرار دے کر مناجات کرتے ہیں اور ہمارے محبوں کے لئے استغفار اور ہمارے دشمنوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔
(۱۶) بحارالانوار ج ۳ ص ۲۱۶ جناب رسالتمآبؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس کا قرآن پر ایمان نہیں اس کا تورات پر بھی ایمان نہیں کیونکہ ان میں سے ایک پر ایمان لانا بغیر دوسرے کے قابل قبول نہیں ہے، اسی طرح ولایت علی ؑ پر ایمان لانا ایسا ہی فرض ہے جس طرح نبوت محمدؐ پر ایمان لانا فرض ہے، پس جو نبوت محمدؐ پر ایمان لائے اور ولایت علی ؑ کا منکر ہو پس اس کا نبوت پر کوئی ایمان نہیں۔
چنانچہ آپ نے فرمایا کہ بروزِ محشر جب خلق سے ایمان کا سوال ہوگا تو پہلے منادی کلمہ توحید کی صدا بلند کرگا پس تمام موحّد یہ کلمہ زبان پر جاری کریں گے اس کے بعد حضرت محمد مصطفیٰ کی نبوت کی شہادت (اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ) کی صدا بلند کرے گا پس تمام مسلمان یہ کلمہ زبان پر جاری کریں گے۔۔۔ اس کے بعد عر صہ محشر سے کوئی کہنے والا کہے گا کہ ان کو جنت میں لے جائو کیونکہ نبوت محمد کا اقرار زبان سے ان لوگوں نے جاری کر دیا ہے۔۔۔ تو اللہ کی طرف سے ندا آئے گی :  قِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَسْئُوْلُوْنان کو ابھی روکو کہ ان سوا ل ہو نا ہے، پس عر ض کیا جائے گا کہ یہ لوگ حضرت محمد مصطفیٰ کی نبو ت کی شہا دت دے چکے ہیں اب ان کو مزید کیوں رو کا جا رہا ہے ؟ تو ارشادِقدر ت ہو گا:  قِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَسْئُوْلُوْنَ عَنْ وِلایَۃِ عَلِیّ بْن اَبِیْ طَالِب ان کو رو کو کیو نکہ ان سے ابھی ولا یت علی ؑ بن ابی طا لب کا سوا ل با قی ہے۔۔۔ اے میر ے عبا د (ملا ئکہ) میں نے ان لو گو ں کو حضر ت محمد کی نبو ت کے سا تھ ایک اور چیزکی شہا دت کا حکم بھی دیا تھا (ولا یت علی ؑ بن ابی طا لب) اگر بجا لائیں تو لائق ا کر ام و اعزاز ہیں ورنہ ان کو نہ مصطفیٰ کی نبو ت فا ئدہ  مند ہے اور نہ میر ی ربو بیت کا اقرار مفید ہے۔۔۔ پس ولا یت کا اقرار کر نے والے کا میا ب ہو گے اور انکا ر کر نے والے ہلا ک ہو گے۔۔ اور بعض لو گ ایسے بھی ہو نگے جو کہہ دینگے کہ ہم ولا یت علی ؑ کے قا ئل اور آلِ محمد کے محب تھے حالانکہ وہ جھوٹے ہوں گے اور ان کا یہ خیال ہو گا کہ ہم اس جھوٹ کی وجہ سے بچ جا ئیں گے۔۔ پس حضرت علی ؑ فر ما ئیں گے کہ جنت میر ے اولیا ٔ کی خد گو ا ہی دے گی اور جہنم میر ے دشمنو ں کو خو د پہچا ن لے گی۔۔۔۔پس جنت سے ایک ہو ا باہر آئے گی اور وہی نسیمِ جنت علی ؑ کے دوستو ں کو اُٹھا کر خو د محلا تِ جنت میں پہنچا دے گی اور جہنم کے شعلے بلند ہوں گے جو دشمن علی ؑ کو اپنی لپیٹ میں لے کر دا خلِ نا رکر یں گے۔۔۔ پس جنا ب رسالتمآ بؐ نے فر ما یا  یاعلی ؑ تو اسی طر ح قسیم جنت ونا ر ہے تو دو زخ سے کہے گا کہ وہ تیرا ہے اور یہ میرا ہے۔۔ اس مضمو ن کی احا دیث بکثرت ہیں اس مقا م پر اسی قدر کا فی ہیں یہ باختلاف الفا ظ جلد۲ص۱۴۳پر ملاحظہ ہو۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ وَ سَہِّلْ مَخْرَجَھُمْ وَ اَہْلِکْ اَعْدَائَھُمْ وَاجْعَلْنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلائِھِمْ یَا رَبّ الْعَالَمِیْن