اس مقام پر کتاب ’’الدمعۃ الساکبہ‘‘ سے مأخوذ ایک
مکالمہ جو حضرت امام جعفر صادقؑ اور طبیب ہندی کے مابین ہوا ہے لازم الذکر ہے جو
خالی از فائدہ نہیں، جس میں زبانِ امامت سے خلقت انسانی کے نایاب اسرار و رموز
منظر عام پر آئے، طبیب ہندی سے جب آپ ؑ کی ملاقات ہوئی تو رسمی گفتگو کے بعد آپ
ؑ نے طبیب ہندی سے سوال کیا: طب کا عالم میں زیادہ ہوں یا تو؟ اس نے عرض کیا کہ اس
فن میں مجھے زیادہ دسترسی حاصل ہے، یہ سن کر آپ ؑ نے اعضائے انسانی کی وضع و ساخت
کے علل و مصالح کے متعلق اس طبیب سے اُنیس (۱۹) سوالات
کیے جن کے جواب دینے سے وہ قاصر رہا۔۔۔۔۔ اُن کی تفصیل یہ ہے:
(۱)
سر کے اندر چھوٹے چھوٹے گوشے کیوں موجود ہیں؟ یعنی کھوپڑی کی
ہڈی ہموار کیوں نہیں؟
(۲)
سر کے اُوپر بال کیوں ہیں؟
(۳)
پیشانی بالوں سے کیوں خالی ہے؟
(۴)
پیشانی پر خطوط (بل) کیوں پیدا کئے گئے ہیں؟
(۵)
ابرو آنکھوں کے اُوپر کیوں پیدا کئے گئے ہیں؟
(۶)
آنکھوں کی وضع بادامی نمونہ پر کیوں ہے؟ یعنی درمیان میں موٹی اور کنارے
باریک؟
(۷)
ناک کو آنکھوں کے درمیان کیوں رکھا گیا ہے؟
(۸)
ناک کے سوراخ نیچے کی طرف کیوں ہیں؟
(۹)
ہونٹ اور مونچھیں منہ کے اوپر کیوں پیدا کئے گئے ہیں؟
(۱۰)
دانتوں کی
تیزی۔۔۔ داڑھوں کی چوڑائی اور نابوں کی لمبائی کس لیے ہے؟
(۱۱)
مَردوں کی
داڑھی کیوں ہے؟
(۱۲)
ہتھیلیوں پر
بال کیوں نہیں ہیں؟
(۱۳)
ناخنوں اور
بالوں کے اندر زندگی کیوں نہیں؟
(۱۴)
دل کی شکل
صنوبری کیوں ہے؟
(۱۵)
پھیپھڑا
دو حصوں میں منقسم کیوں ہے؟
(۱۶)
جگر محدب کیوں
ہے؟
(۱۷)
گردہ لوبیا کی شکل میں کیوں ہے؟
(۱۸)
گھٹنے پیچھے کو کیوں مڑتے ہیں؟
(۱۹)
قدم درمیان میں
اُوپر کو کیوں اُٹھا ہوا ہے؟
ان سوالات میں سے ہر ایک کے جواب میں طبیب ہندی
یہی کہتا رہا کہ حضور مجھے اس کا جواب معلوم نہیں ہے، آخرکار حضرت امام جعفر صادق
علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تو نہیں جانتا تو ان کے جوابات میں تجھے بتلائوں؟ اس
نے عرض کیا کہ حضور! آپ ؑ بیان فرمائیں۔۔۔۔۔ تو آپ ؑ نے ہر سوال کا جواب اسی
ترتیب سے دیا:
(۱)
کھوپڑی اگر اندر سے ہموار ہوتی تو صداع کا جلدی اثر ہوتا اس کے اندر
کے گوشے صداع کو دُور رکھتے ہیں۔
(۲)
سر کے بال اس لئے ہیں کہ تیل یا دیگر روغنی مالش کا اَثر (مساموں کے
ذریعہ سے) اندر پہنچ سکے اور بخاراتِ دماغیہ (انہی مسامات کے ذریعہ سے) باآسانی
باہر نکل سکیں، نیز ٹھنڈک یا گرمی کے اَثرات حسب ضرورت اندر جذب ہو سکیں۔
(۳)
پیشانی کو بالوں سے اس لئے خالی رکھا گیا ہے کہ آنکھیں اچھی طرح
روشنی حاصل کر سکیں۔
(۴)
پیشانی پر خطوط و بل و شکن اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ گرمی کا پسینہ
سیدھا آنکھوں میں نہ چلا جائے، بلکہ ان شکنوں میں رک جائے تاکہ ہاتھ کی مدد سے اس
کو وہاں سے دُور کر دیا جائے، جس طرح زمین میں زیادہ پانی کو دفع کرنے کے لئے نالے
یا نہریں کھودی جاتی ہیں۔
(۵)
اَبرئوں کو آنکھوں کے اُوپر اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ ضرورت سے زائد
دھوپ کو روکے رکھیں، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ دھوپ کی شدت کو آنکھوں سے کم کرنے
کے لئے بعض اوقات ہاتھ کی ہتھیلی سے بھی مدد لی جایا کرتی ہے؟
(۶)
ناک کو آنکھوں کے درمیان اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ روشنی برابر دو
حصوں میں تقسیم ہو کر ہر آنکھ میں پہنچے۔
(۷)
آنکھ کو بادامی شکل اس لئے دی گئی ہے کہ بصورتِ بیماری بذریعہ سلائی
وغیرہ کے اس میں دوائی ڈالنا آسان ہو اور ا س کے ہر دو گوشوں سے مادہ ٔ غلیظہ
خارج ہوتا رہے، ورنہ اگر مستطیل یا مربعہ یا مدوّر ہوتیں تو یہ مصلحت ختم ہو
جاتی۔۔۔ نہ دوائی ڈالنے میں سہولت رہتی اور نہ غلاظت کا خروج آسانی سے ہو سکتا۔
(۸)
ناک کے سوراخ نیچے کی طرف اس لیے ہیں کہ ناک سے موادِ فاسد آسانی سے
خارج ہوسکے اورخوشبو سہولت کے ساتھ دماغ کی طرف جاسکے، اگرسوراخ اوپر کی طرف ہوتے
تو نہ فضلات دماغ آسانی سے خارج ہوسکتے اور نہ خوشبودماغ میں آسانی سے پہنچ
سکتی۔
(۹)
ہونٹ اور مونچھیں منہ کے اُوپر اس لئے قرار دی گئیں کہ دماغ سے خارج
شدہ فضلات منہ کو گندہ نہ کریں۔
(۱۰)
داڑھی مَردوں
کے لیے پیدا کی گئی تاکہ عورتو ںاور مَردوں میں امتیاز رہے۔
(۱۱) دانت
تیز اس لیے کردئیے ہیں تاکہ سخت غذا کے کاٹنے میں سہولت ہو۔۔۔ اور داڑھوں کا
چپٹاہونا چبانے کی سہولت کے لیے۔۔۔ اورنابوں کا بلند ہونادانتوں اورداڑھوںکے
درمیان ربط کی مضبوطی کے لیے ہے، جس طرح لمبی دیواروں کے درمیان منا رے رکھ دئیے
جاتے ہیں تاکہ دیوارزیادہ مضبو ط رہے۔
(۱۲ )
ہتھیلیاں بالوںسے اس
لیے خالی ہیں تاکہ قوتِ لامسہ صحیح کا م کر سکے اگر بال ہوتے تو یہ فائدہ کماحقہ ٗ
حاصل نہ ہوسکتا۔
(۱۳)
ناخن اور بال بڑھ
جانے کے بعد بد نمالگتے ہیں۔۔۔ لہذاان کوکاٹنے کی ضرور ت پڑتی ہے پس ان کو زندگی
اس لیے نہیں دی گئی تاکہ کاٹنے میں تکلیف نہ ہو۔
(۱۴) دل کو
صنوبری شکل کااس لیے بنایاگیاہے کہ وہ اُلٹارکھاہوا ہے۔۔۔ اور اس کا باریک کنارہ
پھپھڑے کے اندر داخل کردیا گیاہے تاکہ پھپھڑے میں تازہ ہوا سے اس کو ٹھنڈک پہنچتی
رہے اور دماغ کی حرارت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
(۱۵) پھیپھڑے
کو دو حصوں میں منقسم کیاگیا ہے کہ ہو ا کی آمد ورفت سے باآسانی حرکت کرسکے۔
(۱۶) جگرکومحدب
(درمیان کا حصہ ابھراہوا) اس لیے بنایاگیاہے تاکہ اوپرسے معدہ کے بوجھ پڑنے سے اس
کے بخارات آسانی سے اُترسکیں۔
(۱۷) گردہ
کو لوبیاکی شکل اسلئے دی گئی ہے کہ مادہ ٔ منویہ کے گرنے کی جگہ ہے (منی اس پر
قطرہ قطرہ ہو کرگرتی ہے) اگر یہ مربعہ یا مدوّر شکل کا ہوتا تو قطراتِ منی کو
ترتیب وار قطرہ قطرہ آگے نہ بھیجتا بلکہ یکجا اور اکٹھا کر دیتا اور وہ لطف جو
حاصل ہوتا ہے اس صورت میں حاصل نہ ہو سکتا۔۔۔۔۔ کیونکہ جب منی صلب سے گردوں پر
گرتی ہے تو یہ متواتر سکڑتے اور پھیلتے رہتے ہیں پس اپنے پھیلائو سے باہر آنے
والے قطرہ کو آگے بھیج دیا کرتے ہیں۔
(۱۸)
گھٹنوں کا موڑ پیچھے
اسلئے ہے کہ اسکا الٹ ہوتا تو آگے کی طرف چلا نہ جا سکتا بلکہ چلنے والا منہ کے
بل گر پڑتا۔
(۱۹)
پائوں کے تلوے
درمیان سے اس لئے اوپر کو اُٹھے ہوئے ہیں کہ جب کوئی چیز زمین پر متوازی طور پر
پڑسکتی ہو تو اس کا زمین پر رکھنا اور اُٹھانا ہر دو مشکل ہوا کرتے ہیں۔
ہندی طبیب نے جب امام عالی مقام حضرت صادق آل
محمد ؑ علیہ آلاف التحیۃ والسلام کی زبان ہمایوں سے یہ تفصیل سنی تو فوراً کلمہ
توحید و رسالت زبان پر جاری کیا اور آپ ؑ کے امامِ برحق ہونے کا اعتراف کیا، ہم
نے تفسیر ہذا کی جلد نمبر ۱۱ ص ۵۵
پر طبیب ہندی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
نیز کتاب ’’الدمعۃ الساکبہ‘‘ میں مروی ہے کہ ایک
مرتبہ ابوحنیفہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ؑ نے
فرمایا میں نے سنا ہے کہ تو قیاس کرتا ہے، اس نے عرض کیا ہاں۔۔۔ آپ ؑ نے فرمایا
تجھ پر ویل ہو قیاس نہ کیا کر، کیونکہ پہلا قیاس کرنے والا ابلیس ہے۔۔ کہ جس نے
آگ کو مٹی پر قیاس کر کے افضل ثابت کیا اگر آدم ؑ کے نور کا نار سے موازنہ کرتا
تو اسے اپنی غلطی کا علم ہو جاتا، اچھا۔۔۔ تو مجھے اپنے سر کے متعلق قیاس کر کے
بتا:
(۱)
کانوں میں تلخی کا مادہ کیوں ہے؟
(۲)
آنکھوں میں نمکینی کیوں ہے؟
(۳)
ہونٹوں کا مادہ شیرین کیوں ہے؟
(۴)
ناک میں ٹھنڈک کس لئے ہے؟
قیاس سے جواب دے۔۔۔ یہ چار مادے (تلخ، نمکین،
شیرین، سرد) اپنے مقامات پر کس مصلحت کی بنأ پر ہیں؟
ابوحنیفہ نے عرض کیا کہ حضور! مجھے معلوم
نہیں کہ ایسا کیوں ہے؟
آپ ؑنے فرمایا: تو اپنے بدن کے معاملہ میں
تو قیاس کر نہیں سکتا اور حلال و حرام کے معاملہ میں قیاس کرتا ہے؟
ابوحنیفہ عرض کرنے لگا حضور! مجھے از راہِ
کرم سمجھائیے، اس وقت آپ ؑ نے ارشاد فرمایا:
(۱)
اگر کانوں کا مادہ تلخ نہ ہوتا تو حشراتُ الارض ان کے سوراخوں میں
داخل ہو کر نقصان دہ ثابت ہوتے، خداوند کریم نے ان کو تلخ مادہ دے دیا ہے تاکہ جو
کیڑا داخل ہونا چاہے اس مادہ کی تلخی سے متاثر ہو کر مرجائے اور آگے جا کر دماغ
کو نقصان و ضرر نہ پہنچا سکے۔
(۲)
آنکھوںکو نمکین مادہ اس لیے دیا ہے کہ یہ دونوں چربی کے ٹکڑے ہیں
اگرنمکین نہ ہو تے تو آنسوکی حرارت سے پگل جاتے۔
(۳)
ہو نٹوں یا بعض روایات کی بنا پر ہونٹو ں کے پانی کو کھانے پینے کے ذائقہ سے
لطف اندوزہونے کے لیے شیرینی کا مادہ دیا۔
(۴)
نا ک کو ٹھنڈا مادہ اس لیے دیا ہے کہ حسب ضرورت فضلاتِ دماغیہ کو
سہولت سے خارج کرسکے اگر اس کا مادہ گرم ہو تا تو باوجہ قرب کے دماغ کوپگھلا کر
ختم کر دیتا۔
ان کے علا وہ مفصل کتا بوں میں آئمہ طاہرین ؑ نے
انسانی اعضا ٔ کے مصالح اور ان کی وضع وساخت پر جو تبصرہ فرمایا ہے اس کے ضبط کے
لیے علیحد کتاب چا ہیے۔۔۔۔۔ نیز کتا ب وجودِ انسانی کی مفصل تحریرات کے مطالعہ کے
لیے بھی ایک کافی وقت درکار ہے۔۔۔۔۔ لیکن معمولی سے معمولی حدتک بھی معلومات کا حا
صل ہو جانا صا نع حکیم کی معرفت کابہترین ذریعہ ہے اس لیے تو مو لائے کائنات۔۔۔
حلّالِ مشکلات۔۔۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ:
اے انسان۔۔۔ تو وہ کتابِ مبین ہے جس کے ہرہرحرف کے
اندر معارف حقا ئق کے خزانے پنہا ں ہیں جو مطالعہ کر نے سے ظہور پذیر ہو کر منظر
عام پر آتے ہیں۔