التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

معر فت ِخدا



٭      قَالَ سُبْحَانَہُ فِیْ کِتَابِہٖ الْمَجِیْدِ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَائِ مِنْ مَائٍ فَأحْیَا بِہٖ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَ بَثَّ  فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَابَّۃٍ وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ لَآیَا تٍ لِقَوْمٍ  یَعْقِلُوْن۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فر ما تا ہے:  تحقیق آسمان وزمین کی پیدا ئش۔۔۔ شب و روز کا اختلا ف لو گو ں کی نفع رسا نی کی خاطر دریا وں میں کشتیوں کی آمد و رفت اللہ تعالیٰ کا آسما ن سے آبِ باران نا زل کر کے مردہ اور بنجر زمینو ں کو زند ہ اور آبا د کرنا اور ہر قسم کے جا نوروں سے اُسے معمو ر کر نا ہوائوں کا چلا نا اور آسما ن اور زمین کے درمیا ن بادلوں کا مسخر ہو نا ان تما م چیزو ں میں دانشمند انسانوں کے لیے معرفت خدا کے دلا ئل ہیں۔
٭      اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْ فِیْ اَنْفُسِھِمْ مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَا ت وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا اِلاَّ بِالْحَقّ۔
ترجمہ: کیا اپنے دلو ں میں سوچ نہیں کر تے کہ جو کچھ آسما نو ں میں اور زمینو ں میں یا ان کے ما بین جو اللہ تعالیٰ نے خلق فر ما یا سب بر حق اور بجا ہے۔
٭      وَ فِی الْاَرْضِ آیاتٌ لِلْمُوْمِنِیْنَ وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلا تُبْصِرُوْنَ۔
ترجمہ: یقین والوں کے لیے زمین میں اور خود اور تمہارے نفسو ں میں دلائل توحید موجود ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟
واقعاً اگر انسا ن تدبر صحیح کر لے اور اپنے ذہن کو موجوداتِ عالم میں اور پھر اپنے جسم وروح کے مصالح ومفاسد کی طرف متوجہ کرے تو جس طرح کوہ وجبل کا ہر کنکرہ۔۔۔ موجِ دریا کا ہر قطرہ۔۔۔ ریگ صحرا کا ہر ذرہ۔۔۔ وسعت زمین کا ہر چپہ۔۔۔ اور شجرونبات کا ہر پتا۔۔۔ اپنے خا لق یکتا کا پتا دیتا ہے، یا جس طرح آسما نو ں کی بلندیا ں۔۔۔زمینو ں کی وسعتیں۔۔۔ شب و روزکے اختلاف میں نور وظلمت کا فرق۔۔۔ دریائوں کی طغیا نی اور ان کی موجو ں پر کشتیو ں کی روانی ونفع رسانی۔۔۔ آسمانوں سے برستا ہوا پانی اور اس کی بدولت زمینو ں کی سرسبزی وشادابی اور اس پر ہر ذی روح کی آبادی اورفیض یابی ہوائوں کی نکہت وصرصراہٹ اور سرعت وخفت میں فرمانبرداری اور آسما ن وزمین کے درمیان بادلوں کی صف آرائی اوراطاعت شعاری۔۔۔۔۔ یہ سب چیز یں خلق کائنا ت کے وجود وحکمت اور علم وقدرت کے غمّاز ہیں اور ان کا نظام اتم ّ واکمل اس کی بے ہمتائی اور یکتائی کے برہانِ قا طع ہیں۔
اسی طرح خود وجودِ انسا نی میں بدن کی رگ رگ۔۔ خون کا قطرہ قطرہ اور جسم کا بال بال بھی خلّا قِ عالم کے وجود اور اس کی حکمت کا ملہ اور قدرتِ شاملہ کا از خود معترف ہے، بشر طیکہ سلا مت ذہن ودما غ اور تدبر صحیح سے جائزہ لیا جائے۔۔۔ اس بنا پر قبلہ ٔ عارفین۔۔۔ امام ُ المتقین۔۔۔ حضرت امیرالمومنین علی ؑ ابن ابی طالب علیہ الاف التحیّتہ والسلا م  دیوانِ علی ؑ میں ارشاد فرماتے ہیں:
اَتَزْعَمُ اَنَّکَ جِرْمٌ صَغِیْرٌ
وَفِیْکَ انْطَوٰ ی الْعَا لَمُ الْاَکْبَرُ
وَاَنْتَ الْکِتَابُ الْمُبِیْنُ الَّذِیْ
بِأحْرُفِہٖ یَظْھَرُ الْمُضْمِرُ
تو اپنے کو ایک چھوٹا جسم خیال کرتا ہے حا لا نکہ تجھ میں ایک عالمِ اکبر پنہاں ہے، تو وہ کتا بِ مبین ہے جس کے حرفوں سے راز ہائے پو شید ہ منکشف ہیں اثبا تِ صانع کے لیے۔
آنحضرت ؑ سے سوال کیا گیا تو فرمایا:
اَلْبَعْرَۃُ تَدُلُّ عَلٰی الْبَعِیْرِ وَالرَّوْثَۃُ تَدُلُّ عَلٰی الْحَمِیْرِ وَآثَارُ الْقَدَمِ تَدُلُّ عَلٰی الْمَسِیْرِ
فَھَیْکَلٌ عَلَوِیُّ بِھٰذِہٖ اللَّطَافَۃِ وَمَرْکَزٌ سِفْلِیٌّ بِھٰذِہٖ الْکَثَافَۃِکَیْفَ لایَدُلَّانِ عَلٰی اللَّطِیْفِ الْخَبِیْرِ؟
ترجمہ: اُونٹ وگدھے کے فضلاتِ خارجیہ اُن کے وجود پر دلالت کرتے ہیں اور نشانِ قدم کسی گزرنے والے کاپتادیتے ہیں۔۔۔ تو عالمِ علوی اپنے لطافت کے ساتھ اور عالمِ سفلی اپنی کثافت کے ساتھ اپنے صانعِ حکیم (جو صفت کمالِ لطف و کمالِ علم سے متصف ہے) پر کیو نکر دلیل نہ ہوں گے (جامع الاخبار)
حضرت امیرالمومنین ؑ نے انسا ن کو عا لم سے تشبیہ دے کر معرفت خدا کا وہ درس دیا ہے کہ ا س سے بڑھ کر وجود صانع اور اس کی حکمت عمل و قدر ت وحدانیت کی کو ئی دلیل ہو ہی نہیں سکتی اور قر آن مجید کی اس لفظ ’’وَفِیْ اَنْفُسِکُم‘‘ کی ایسی جامع تفسیر علیحد ہ علیحدہ ان دوشعروں میں سَمودی ہے کہ اس کے مقابلہ میں اس قدر جامع اور پُر اسرار ورموز کلام کسی فرد ممکن سے ممکن ہی نہیں۔
پہلے شعر میں عا لمِ اکبر کے ظا ہری وجو د کے ساتھ انسا ن کے ظا ہری جسم کوتشبیہ دے کر اس کو عالمِ اصغر قرار دیا ہے اور دوسرے شعر میں عا لمِ اکبرکو استعارہ کے طور پرکتا بِ اکبر اورجسمِ انسانی کو بنا بر تشبیہ کے کتابِ اصغر قرار دیا ہے۔
وضاحت
شعراوّل:  انسان کا سر بمنزلہ ٔ عالمِ علوی اور باقی جسم بمنزلہ ٔ عالمِ سفلی قرار دیا گیا ہے:
دو کان بمنزلۂ قطبین۔۔۔۔ دو آنکھیں بمنزلہ شمس و قمر۔۔۔۔ سر پر بال مثل کثیرُ التعداد ستارگانِ آسمانی کے اور سر میں قوائے باطنیہ و قوتِ سامعہ،باصرہ، شامّہ و ذائقہ یا دیگر قوائے متخیلہ، واہمہ،عاقلہ،حافظہ وغیرہ بمنزلہ ٔ ملائکہ و قدسین کے اور پھر دماغ اور اس کے پردے اور دیگر اجزائے متفرقہ کو عالمِ بالا کی قدسی مخلوق سے تشبیہ حاصل ہے اور جسم کا دایاں، بایاں، سامنے، پیچھے، اوپر، نیچے یہ چھ طرفیں جہاتِ ستہ (شمال، جنوب،مشرق،مغرب، فوق، تحت) سے مشابہ ہیں۔
باقی جسم کا ظاہر بمنزلہ ٔ زمین کے اور اس کے بال بمنزلۂ آبادی ٔ نباتات وغیرہ ،ہڈیاں بمثل پہاڑوں۔۔۔ خون کی رگیں،نالیاںدریائوں اور نالوں کی مثل۔۔۔ قلب انسان مثل کعبہ ٔجہاں کے ۔۔۔ وعلی ہذا القیاس۔
توجس طرح اس عالمِ اصغر یعنی وجودِ انسانی میں تمام اعضائے موجود ہ کی زندگی کے لئے ایک قوت کی ضرورت ہے جس کو روح سے تعبیر کیا جاتا ہے:  مثلاً ہا تھ ہلتے ہیں۔۔۔ قدم بڑھتے ہیں۔۔۔آنکھ دیکھتی ہے۔۔۔ کا ن سنتے ہیں اور زبان بو لتی ہے۔۔۔ وعلیٰ ہذالقیاس، سب اعضا ٔ اپنی مخصوص ڈیوٹی میں مصروفِ کار رہتے ہیں لیکن یہ سب اس وقت تک کہ جب تک اُن میں قوتِ روح موجو دہے اگر وہ رخصت ہوجائے تویہ سب کے سب بیکا رِ محض ہوجایا کرتے ہیں اور دفن کردینے کے یا بعض لوگوں کے نزدیک جلا دینے کے قابل ہوتے ہیں، پس وہ (روح)حاکم ہے اور یہ سب (اعضا ٔ) اس کے محکوم ہیں، بایں ہمہ روح ان تمام کے ادراک سے باہر ہے، نہ اس کو آنکھ نے دیکھا۔۔۔ نہ اس کی آواز کبھی کانوں نے سنی۔۔۔ نہ اُسے ان ہاتھوں نے کبھی محسوس کیا۔۔۔ اور نہ ناک نے اس کی بُو کا ادراک کیا۔۔۔ صرف ان قوائے ظاہر یہ تک ہی محدود نہیں بلکہ قوائے باطنیہ کابھی یہی حال ہے۔۔۔ نہ وہم و گمان اس کاتعین کرسکتاہے اورنہ عقل ودماغ اس کی حدبندی کرسکتاہے۔
اور ان تمام چیزوں کے باوجود وہ (روح) ہے اورضرور ہے۔۔۔۔۔ دلیل اس (روح) کے وجودکی یہی ہے کہ اگروہ نہ ہوتو یہ سب بیکار ہوجاتے ہیں اور ان کانظام درہم برہم ہوجاتا ہے، ان کا باکار اور زیرِ نظام ڈیوٹی کا انجام دینا اس روح کے وجود اور تدبیرکی کھلی دلیل ہے، جسم کے باقی تمام (اعضا ٔ) غیرشعوری طور پر اس کے وجودوتدبیر کے قائل اورزبانِ بے زبانی سے اس کے مدح سراہیں اور عقل اپنے شعور واحساس سے اس کے وجودوتدبیر کاقائل وثناگر ہے، لیکن یہ بھی اسکی تحدید وتعین کاخیال تک نہیں کرسکتا صرف اس کے آثاروافعال سے اس کوجانتا ہے اوراسکی حُسنِ تدبیرکا معترف ہے۔۔۔ یہ معلوم نہیں ہوسکتاکہ وہ کیاہے؟ اور کس نوعیت کا ہے؟ تاہم ہے ضرور۔۔۔ کیونکہ اگرنہ ہوتاتویہ تدبیرنہ ہوتی۔
پس ان تمام اعضا ٔکے کاروباربعض شعوری طورپراس کے زیرِ حکم۔۔۔ محتاجِ فرمان اورتابعِ ارادہ ہیں توجب یہ چھوٹاساعالَم بغیرایک مدبّرکے نہیں رہ سکتا (جس کو نہ دیکھا۔۔۔ نہ سنا۔۔۔ نہ سونگھا۔۔۔ نہ چکھا اور نہ چھوا بلکہ نہ وہم سے اسکاتصورہوااورنہ عقل ودماغ سے اسکاادراک ہوسکا، حالانکہ ہے پورے نظام کامدبّر۔۔۔اورہے بھی ضرور) تو اتنے بڑے عالَم (جس کی وسعتوں کے تصور سے ہما رے عقول عاجزہیں) اتنا بڑا آسمان (بلکہ ایک نہیں کئی ہیں) اتنی وسیع زمین، شمس کااپنے مقام پر۔۔۔ قمر کا اپنے محور پر گردش کرنا، دریائوں کی روانی، بادلوں کی بارانی اور زمینوں کی آبادیاں، غرض تمام عالَم اکبر کا وجود اور اس کے نظامِ اکمل کی بقا  ٔ بغیر ایک مدبّر کے کیسے ہوسکتی ہے؟
پس معلوم ہو ا کہ عا لَم اکبر کے وجودکے تمام اعضا ٔ کا اپنی اپنی جگہ پرحس وحرکت کرنا اور اپنی اپنی مخصوص ڈیوٹیوں پر مصروفِ کار رہنا اِس امر کی واضح اور ناقابل تردید برہا ن ہے کہ ان کا موجد اور مدبّر ضر و رموجودہے ورنہ ان کا وجود بیکار اور نظام درہم برہم ہوجاتا۔۔۔۔۔ نیزاس عالَم میں بھی اکثر موجودات غیر شعوری طور پر اس کی ذات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے سامنے سجد ہ کناں اورمدح سر اہیں۔۔۔ اور بعض موجودات ذوی العقول ہیں شعوری طور پر اس کا اعترف کرنے اور اس کی حمد کر نے پر بے بس ہیں، تا ہم اس عالَم اکبر کے اعضا ٔو افرادمیں سے کبھی کسی کی مجال نہیں کہ اُسے دیکھ سکے۔۔۔ یا اس کی آواز سن سکے۔۔۔ یا دیگر آلاتِ ظاہر یہ اورحواس باطنیہ سے اس کا ادراک کرسکے، جب اس عالَم اصغر،وجو دِانسانی کا مد بّر حواس ومشاعر کے ادراک سے باہر ہے تو عالَم اکبرکاخالق ومدبّر کس طرح حواس ومشاعر کے ادراک میں آسکتا ہے؟ پس وہ عقل کا اندھا اور بے بصیرت ہے جو یہ کہے کہ خدا نظر آسکتا ہے دنیا میں یاقیامت میں۔۔۔۔۔ وہ خود فرماتاہے: لا تُدْرِکْہُ الْاَ ْبصَار وَ ھُوَ یُدْرِکُ الَْاَبْصَارھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْر۔
جس طرح اس عالم اصغر (وجود نسانی ) کا مدبّر (روح) سر کی چوٹی سے لے کر پائوں کے تلوے تک ہر ہر عضو کے ہر ہر حصہ میں مو جود ہے لیکن حسی طور پر کسی جگہ کا پا بند نہیں کہا جا سکتا اور وہ اس عا لمِ اصغر کی پوری کا ئنا ت میں بستا ہے کوئی جگہ ایسی نہیں جہا ں وہ نہ ہو۔۔۔۔۔ ہا ں!  جس حصہ میں وہ نہ ہو گا وہ حصہ جسم سے جدا کر نے کے قا بل ہو جائے گا۔
اسی طرح عالمِ اکبر کے وجود میں عرشِ عُلا سے تحت ُ الثریٰ تک بلکہ عرش کے ماورا ٔ سے فرش کے ماورا ٔ تک تمام موجوات کے ہر حصہ میں اس کی ذات جلوہ گر ہے۔۔۔ لیکن تحدیدی طور پر اس کا کہیں بھی ادراک و احصا ٔ نہیں کیا جاسکتا، پس یہ کہنا بجا اور درست ہے کہ قدرت و حکمت کے اعتبار سے ہر جگہ مو جود اور تحدید و تعیین کے اعتبار سے ہر جگہ سے دُور ہے، قریب اتنا کہ شہ رگ سے بھی نزدیک تر اور آنکھ کی پتلی سے قریب تر۔۔۔ اور بعید اتنا کہ نہ وہاں و ہم و گمان کی رسائی اور نہ عقل و خرد کی پہنچ۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ ذواتِ معصومہ بھی بو ل اُٹھیں:  مَا عَرَفْنَاکَ حَقّ مَعْرِفَتِکْ۔
بحارالانوار جلد ۴ میں ہے ایک شخص نے مو لائے کا ئنا ت۔۔۔ حلّالِ مشکلات۔۔۔ حضرت امیرالمومنین ؑسے دریافت کیا کہ آپ ؑ نے اپنے خدا کو دیکھا ہے؟ تو آپ ؑ نے فر ما یا کہ میں نے کبھی ایسے خدا کی عبادت نہیں کی جس کو دیکھا نہ ہو، اس نے عرض کیا کہ آپ ؑ نے کس طرح دیکھا ہے؟ تو آپ ؑ نے فر ما یا اس کو آنکھیں بصارتِ ظاہریہ سے نہیں دیکھ سکتیں بلکہ اُسے دِلی بصیرتِ ایمانیہ سے دیکھتے ہیں، یعنی آثارِ ظا ہر یہ اور افعالِ حکمیہ اُس کے وجود۔۔۔علم۔۔۔ حکمت۔۔۔ قدرت کے واضح کر شمے مو جو د ہیں جن کو دیکھ کر انسان اُس مو صوف بہمہ صفات کے وجود پر اطمینان حا صل کر لیتا ہے۔
٭      مِنْ عَبْداللّٰہِ بْنِ سِنَان عَنْ اَبِیْہِ قَالَ حَضرت اَبَا جَعْفَرٍ فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الْخَوَارِجِ فَقَالَ لَہُ یَا اَبَا جَعْفَر اَیّ شَیْئٍ تَعْبُدُ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔۔ قَالَ رَأیْتَہُ؟ قَالَ بَلْ لَمْ تَرَہُ الْعُیُوْنُ بِمُشَاھِدَۃِ الْاَبْصَارِ وَلٰـکِنْ رَأتْہُ الْقُلُوْبُ بِحَقَائِقِ الْاِیْمَانِ لا یُعْرَفُ بِالْقِیَاسِ وَلا یُدْرَکُ بِالْحَوَاسِ وَلا یُشْبَہُ بِالنَّاسِ مَوْصُوْفٌ بِالٓایَاتِ مَعْرُوْفٌ بِالْعَلامَاتِ لا یَجُوْرُ فِیْ حُکْمِہٖ ذَالِکَ اللّٰہُ لا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَخَرَجَ الرَّجُلُ وَھُوَ یَقُوْلُ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ۔
ترجمہ: راوی ٔ حدیث کہتا ہے میں ایک مر تبہ حضرت امام با قر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک خارجی نے آکر سوال کیا آپ ؑ کس کی عبادت کرتے ہیں؟ فرمایا صرف اللہ تعالیٰ کی، تو اس نے کہا کہ آپ ؑ نے کبھی اللہ تعالیٰ کو دیکھا بھی ہے؟ تو آپ ؑ نے فرمایا اس کو آنکھیں مشاہدے سے نہیں دیکھ سکتیں، البتہ اس کو دل حقائق ایمانی سے دیکھ سکتے ہیں، نہ اس کو قیاس سے پہچانا جا سکتا ہے اور نہ اس کا حواس سے ادراک کیا جا سکتا ہے اور نہ وہ لوگوں کے مشابہ ہے۔۔۔ وہ اپنے افعال و نشانیوں سے موصوف ہے اور اپنی علامات سے پہچانا جاتا ہے۔۔۔ وہ اپنے حکم میں ظلم نہیں کرتا، پس وہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ہے، یہ سن کر وہ شخص یہ کہتا ہوا نکلا کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جن کو رسالت دیتا ہے۔