قرآنِ محمدی کے فضائل کی حد معین کرنا انسان کی
کوتاہ نظری اور نافہمی ہے کیونکہ اس مقد س کلام کو دوسرے کلاموں سے وہی نسبت ہے جو
خالق کو مخلوق سے ہے، جب افکارِ انسانی خدا وند ِعالم کے احسانات و نعمات میں سے
ایک ادنیٰ نعمت کی جملہ خوبیوں کا اِحصا نہیں کر پاتے تو کلام مقدّس (جو اعلیٰ و
اشرف ِنعماتِ الٰہیہ ہے) کے جملہ حقائق و دقائق کا اِدر اک اس فہم قاصر سے کیسے ہو
سکتا ہے؟
اس مقام پر بعض فضائل قرآن مجید ۔۔۔۔۔آئمہ
معصومین علیہم السلام کی زبانِ معجز بیان سے نقل کرتا ہوں تاکہ علوم قرآنیہ کی
عظمت زیادہ واضح ہو جائے:
٭ عَنْ
اَمِیْرِالْمُوْمِنِیْنَ قَالَ فِیْ خُطْبَتِہٖ اِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ ھُوَ
النَّاصِحُ الَّذِیْ لا یَغَشُّ وَالْھَادِی الَّذِیْ لا یَضِلُّ وَالْمُحَدِّثُ
الَّذِیْ لا یَکْذِبُ وَمَا جَالَسَ ھٰذَا الْقُرْآنَ اَحَدٌ اِلَّا قَامَ مِنْہُ
وَ بِہٖ زِیَادَۃٌ اَوْ نُقْصَانٌ زِیَادَۃٌ فِیْ ھُدیً اَوْنُقْصَانٌ مِنْ عَمًی
وَاعْلَمُوْا اِنَّہُ لَیْسَ عَلٰی اَحَدٍ بَعْدَ الْقُرْآنِ مِنْ فَاقَۃٍ وَلا
لِاَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْآنِ مِنْ غِنًی فَاسْتَشْفُوْہُ مِنْ اَدْوَائِکُمْ
وَاسْتَعِیْنُوْا بِہٖ عَلٰی لِاَوَائِکُمْ فَاِنَّ فِیْہِ شِفَائٌ مِنْ اَکْبَرِ
الدَّائِ وَ ھُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَالغَّیُّ وَالضَّلالُ فَاسْئَلُو
اللّٰہَ بِہٖ وَتَوَجَّھُوْا اِلَیْہِ بِحُبِّہٖ وَلا تَسَالُوْا بِہٖ خَلْقَہُ
اِنَّہُ مَا تَوَجَّہَ بِہٖ الْعِبَادُ بِمِثْلِہٖ وَاعْلَمُوْا اَنَّہُ شَافِعٌ
مُشَفَّعٌ وَ قَائِلٌ وَمُصَدَّقٌ وَ اَنَّہُ مَنْ شَفَعَ لَہُ الْقُرْآنُ یَوْمَ
الْقِیَامَۃِ شُفِّعَ فِیْہِ (نہج البلاغہ خطبہ۱۷۱)
ترجمہ : حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے ایک
خطبہ میں ارشاد فرمایا: تحقیق یہ قرآن وہ خیر خواہ ہے جو کبھی دھوکا نہیں دیتا،
ایسا ہادی ہے جوکبھی راہ گم نہیں کرتا، اور ایسا بیان کنندہ ہے جو کبھی جھوٹ نہیں
بولتا، جو قرآن سے ہم مجلس ہوا وہ زیادتی یا کمی لے کر اُٹھا (یعنی ہدایت میں
زیادتی اور گمراہی میں کمی) اور یقین جا نیے کہ قرآن حاصل کر لینے کے بعد کوئی
فقر نہیں اور قرآن حاصل کر لینے سے پہلے کوئی دولت مندی نہیں، اس سے اپنی
بیماریوں کی شفا حاصل کرو اور دفعِ مصائب کے لئے اس سے مدد طلب کرو، تحقیق یہ سخت
امراض۔۔۔ کفر، نفاق، غشی، اور ضلال کا واحد علاج ہے، اللہ سے اسی کے ذریعے دعا
مانگو اور اسی کی محبت لے کر بڑھو اور اس کے ذریعے اُس کی مخلوق سے گدا نہ کر و
کیونکہ بندوں کی (خالق کی طرف) توجہ کیلئے اس جیسا اور کوئی ذریعہ نہیں، یقین رکھو
یہ وہ شفاعت کرنیوالا ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور یہ وہ بولنے والا ہے جس کی بات
تصدیق شدہ ہے، بروزِ محشر جسکی قرآن نے شفا عت کردی اس کی شفاعت مقبول ہوئی۔
٭ قَالَ
فِیْ خُطْبَتِہٖ ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْہِ الْکِتَابَ نُوْرًا لا تُطْفَأُ
مَصَا بِیْحُہُ وَ سِرَاجًا لا یَخْبُوْ تَوَقُّدُہٗ وَ بَحْرًا لا یُدْرَکُ
قَعْرُہُ وَ مِنْھَاجًا لا یُضِلُّ نَھْجُہٗ وَ شُعَاعًا لا یَظْلِمُ ضَوْئُہٗ وَ
فُرْقَانًا لا یَخْمِدُ بُرْھَانُہٗ وَ تِبْیَانًا لا تَھْدِمُ اَرْکَانَہٗ وَ شَفَائً
لا تُخْشٰی اَسْقَامُہٗ وَ عِزًّا لا تَھْزِمُ اَنْصَارُہٗ وَحَقًّا لا تَخْذِلُ
اَعْوَانُہٗ فَھُوَ مَعْدِنُ الْاِیْمَانِ وَ بُحْبُوْحَتُہٗ وَ یَنَابِیْعُ
الْعِلْمِ وَ بُحُوْرُہٗ وَ رِیَاضُ الْعَدْلِ وَ غُدْوَانُہٗ وَاَثَافِیُّ
الْاِسْلامِ وَبُنْیَانُہٗ وَ اَدْوِیَۃُ الْحَقِّ وَ غِیْطَانُہٗ وَ بَحْرًا لا
یَنْزِفُہُ الْمُنْتَزِفُوْنَ وَ عُیُوْنٌ لا یَنْضِبُھَا الْمَا تِحُوْنَ وَ
مَاھِلُ لا یَغِیْضُھَا الْوَارِدُوْنَ وَ مَنَازِلُ لا یَضِلُّ نَھْجُھَا
الْمُسَافِرُوْنَ وَ اَعْلامٌ لا یَعْمٰی عَنْھَا السَّائِرُوْنَ وَ آکَامٌ لا
یَجُوْزُ عَنْھَا الْقَاصِدُوْنَ جَعَلَہٗ اللّٰہُ رَیًّا لِعَطْشِ الْعُلَمَائِ
وَ رَبِیْعًا لِقُلُوْبِ الْفُقَھَائِ وَ مِنْھَاجًا لِطُرُقِ الصُّلَحَائِ وَ
دَوَائً لَیْسَ بَعْدَہٗ دَائٌ وَ نُوْرًا لَیْسَ مَعَہٗ ظُلْمَۃٌ وَ حَبْلاً وَثِیْقًا
عُرْوَتُہٗ وَ مَعْقِلاً مَنِیْعًا ذُرْوَتُہٗ وَ عِزًّا لِمَنْ تَوَلَّاہٗ وَ
سِلْمًا لِمَنْ دَخَلَہٗ وَ ھُدًی لِمَنِ ائْتَمَّ بَہٖ وَ عُذْرًا لِمَنِ
انْتَحَلَہٗ وَ بُرْھَانًا لِمَنْ تَکَلَّمَ بِہٖ وَ شَاھِدًا لِمَنْ خَاصَمَ بِہٖ
وَ فَلَجًا لِمَنْ حَاجُّ بِہٖ
(نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳)
ترجمہ : جنابِ رسالتمابؐ کے فضائل بیان کرتے ہوئے
حضرت علی ؑ فر ماتے ہیں: کہ پھر اللہ نے اُن پر وہ کتاب اُتاری جو ایک نور ہے،
جسکی قندیلیں خاموش نہیں ہوتیں اور جسکے چراغوں کی روشنی مدھم نہیں ہوتی اور ایسا
بحر ہے جسکی تہہ ناقابل رسا ہے، اور ایسا رستہ ہے جسکے چلنے والا بھٹکتا نہیں، وہ
ایسی شعاع ہے جسکی روشنی پر تاریکی کا غلبہ نہیں ہو سکتا، ایسا فرقان ہے جس کی
دلیل مغلوب نہیں، ایسا بیان ہے جس کی طاقت کمزور نہیں، ایسی شفا ہے جسکے بعد
بیماری کا خطرہ نہیں، ایسا غلبہ ہے جسکے انصار ہارتے نہیں، ایسا حق ہے جسکے معاون
چھوڑ نہیں جاتے، وہ ایمان کا قلب و جگر۔۔۔ علم کے چشمے اور سمندر۔۔۔ عدل کے باغات
و آبشاریں، اسلام کی اساس و بنیادیں اور حق کی وادیاں اور قرار گاہیں ہیں، ایسا
بحر ہے جس کو استفادہ کرنے والے ختم نہیں کر سکتے، ایسا چشمہ ہے جسے فائدہ پانے
والے خشک نہیں کر سکتے، ایسا گھاٹ ہے جو پینے والوں سے کم نہیں ہوتا، ایسی منازل
ہیں کہ مسافراُن کا رستہ بھولے نہیں، ایسے نشان ہیں جن کو رہگزر گم نہیں کرتا، اور
ایسی بلندیاں ہیں جن سے قصد کرنے والے تجاوز نہیں کر سکتے، خدا نے اس کو علمأ کی
پیاس کی سیرابی۔۔۔ فقہا کے دلوں کی بہار اور نیکوں کے چلنے کا رستہ قرار دیا، یہ
وہ دوا ہے جسکے ساتھ بیماری نہیں رہتی، وہ نور ہے جسکے ساتھ ظلمت نہیں رہتی، یہ
مضبوط جوڑنے والی رسی اور محفوظ چار دیواری والا قلعہ ہے اورمحب کیلئے عزت۔۔۔ آنے
والے کیلئے امن۔۔۔ مقتدی کیلئے ہدایت اور نسبت حاصل کرنے والے کیلئے عذر ہے اور جو
اسکے ساتھ بولے اس کیلئے برہان اور جو اس کے بل بوتے پر کسی سے مقابلہ کرے اس
کیلئے شاہد اور جو اسکے ذریعہ سے مناظرہ کرے اس کیلئے باعث ِکامیابی ہے۔
٭ عَنْ
اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ یَنْبَغِیْ لِلْمُوْمِنِ اَنْ لا یَمُوْتَ حَتّٰی
یَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ اَوْ اَنْ یَّکُوْنَ فِیْ تَعْلِیْمِہٖ۔
ترجمہ : امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ مومن کو چاہیے
اگر اس پر موت آئے تو وہ قرآن پڑھا ہوا ہو یا قرآن پڑھنے میں مشغول ہو۔
٭ عَنْ النَّبِیِّ مُعَلِّمُ الْقُرْآنِ وَ
مُتَعَلِّمُہٗ یَسْتَغْفِرُ لَہٗ کُلُّ شَیْئٍ حَتّٰی الْحُوْتُ فِیْ الْبَحْرِ۔
ترجمہ : جنابِ رسالتمآب ؐ نے فرمایا: کہ قرآن پڑھنے
یا پڑھانے والے ہر دو کے لئے ہر چیز حتی کہ دریائی مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں۔
٭ عَنْہٗ
اَلْقُرْآنُ اَفْضَلُ کُلِّ شَیْئٍ دُوْنَ اللّٰہِ فَمَنْ وَقَّرَ الْقُرْآنَ
فَقَدْ وَقَّرَ اللّٰہَ وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْقُرْآنَ فَقَدِ اسْتَخَفَّ
بِحُرْمَۃِ اللّٰہِ۔
ترجمہ : آپؐ نے فرمایا: کہ قرآن اللہ کے بعد ہر شئے
سے افضل ہے، جس نے قرآن کی عزت کی گویا اس نے اللہ کی عزت کی اور جس نے قرآن کی
عزت نہ کی گویا اس نے اللہ کی توہین کی۔
٭ یُضِیْئُ
نُوْرُہٗ مِنْ مَسِیْرَۃِ عَشْرَۃِ آلافِ سَنَۃٍ وَ یُکْسَیَانِ حُلَّۃً لا
یَقُوْمِ لِاُقُلِّ سِلْکٍ مِنْھَا مِأَۃُ اَلْفِ ضِعْفٍ مَا فِی الدُّنْیَا
بِمَا یَشْتَمِلُ عَلَیْھَا مِنْ خَیْرَاتِھَا۔
ترجمہ : نیز آپؐ نے فرمایا: کہ قرآن پڑھنے
والے کے والدین کو تاجِ کرامت عطا ہو گا جس کا نور دس ہزار سال کی راہ سے ظاہر ہو
گا اور ان کو ایسے حلّہ ہائے بہشت عطا ہوں گے کہ تمام دنیا اور اس کی جملہ خوبیوں
کا لاکھ گنا اس کی ادنیٰ تار کے برابر نہ ہو سکے گا۔
٭ وَ
اِلٰی اَنْ قَالَ فَاِذَا نَظرَ وَالِدَہُ اِلٰی حُلِّیِّھِمَا وَ تَاجَیْھِمَا
قَالَ رَبَّنَا اَنّٰی لَنَا ھَذَا الشَّرَفُ وَلَمْ تَبْلَغْہُ اَعْمَالَنَا
فَیَقُوْلُ لَھُمَا کِرَامُ مَلائِکَۃِ اللّٰہِ عَنِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ھَذَا
لَکُمَا بِتَعْلِیْمِکُمَا وَلَدَکُمَا الْقُرْآنَ۔
ترجمہ : یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا: جب اسکے والدین
یہ حلّے اور تاج دیکھیں گے تو عرض کریں گے اے اللہ ہمیں یہ شرف کیسے ملا؟ حالانکہ
ہمارے اپنے اعمال تو اس قابل نہ تھے؟ تو خداوندکریم کی طرف سے فرشتے جواب دیں گے
کہ یہ شرف تم کو اسلئے ملا ہے کہ تم نے اپنے بچے کو قرآن پڑھایا تھا۔
٭ عَنْہٗ
اَلْقُرْآنُ غَنًی لا غَنًی دُوْنَہٗ وَلا فَقْرَ بَعْدَہٗ۔
ترجمہ : نیز فرمایا: کہ قرآن کے بغیر کوئی دولتمندی
نہیں اور قرآن کے ساتھ کوئی فکر نہیں۔
٭ عَنْہٗ
اَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ قِرْأَۃُ الْقُرْآنِ۔
ترجمہ: قرآن کا پڑھنا بہترین عبادت ہے۔
٭ عَنْہٗ
اَشْرَفُ اُمَّتِیْ حَمْلَۃُ الْقُرْآنِ وَ اَصْحَابُ اللَّیْلِ۔
ترجمہ: فرمایا: میری امت کے شرفا ٔ قرآن خواں اور
شب خیز لوگ ہیں۔
٭ آپؐ
نے فرمایا: جو شخص اپنے بیٹے کو قرآن کی تعلیم دلوائے ا سکے والدین کو تاج اور
حلّہ ہائے بیش بہا عطا ہوں گے۔
٭ نیز
فرمایا: کہ معلّم بچے کو ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ پڑھاتا ہے تو
بچے اور اس کے والدین اور استاد کے لئے خداوند آتش جہنم سے آزادی فرض کر دیتا
ہے۔
٭ نیز
جناب رسالتمآبؐ سے مروی ہے کہ جو شخص اپنے بیٹے کو قرآن پڑھائے گویا اس نے دس
ہزار حج اور دس ہزار عمرے ادا کئے اور اولاد ِحضرت اسماعیل ؑ سے دس ہزار غلام
آزاد کئے اور دس ہزار جہاد کئے اور دس ہزار بھوکے مسکینوں کو کھانا کھلایا اور
گویا اس نے دس ہزار برہنہ مسلمانوں کو لباس دیا اور ہر ہر حرف کے بدلے میں اسکے
نامۂ اعمال میں دس دس نیکیاں درج ہوں گی اور دس دس گناہ معاف ہوں گے، قبر سے حشر
تک قرآن اسکے ہمراہ ہو گا اور اسے پل صراط سے مثل بجلی کے پار کرے گا اور قرآن
اس سے جدا نہ ہو گا جب تک کہ اس کو منازلِ کرامت میں ایسی منزل پہ نہ لے جائے جسے
وہ چاہتا ہو گا۔
٭ نیز
آپؐ نے فرمایا: کہ حاملینِ قرآن اللہ کی رحمت سے مخصوص، اللہ کے نور سے ملبوس،
اللہ کے کلام کے معلّم اور اللہ کے مقرب ہیں، ان کا دوست اللہ کا دوست اور ان کا
دشمن اللہ کا دشمن ہے، خداوندکریم قرآن سننے والے سے دنیا کی بلائیں اور پڑھنے
والے سے آخرت کی بلائیں دور کرتا ہے، (یہاں تک کہ فرمایا) جس نے سچے دل سے قرآن
کی ایک آیت سن لی مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے سونے کا
پہاڑ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اس کا ثواب زیادہ ہے اور جس نے خلوصِ اعتقاد سے ایک
آیت ِ قرآن تلاوت کی اس کے ثواب کی عظمت کے مقابلے میں زمین سے لے کر عرش عُلا
تک کی بلندیاں ہیچ ہیں۔
٭ ایک
اور مقام پر ارشاد فرمایا: کہ خدا اُس دل کو عذاب نہ دے گا جو قرآن کا مسکن ہے۔
یہ چند احادیث (بعض اصل عبارت کے ساتھ و بعض کا
صرف ترجمہ) ذکر کر دی گئی ہیں، انہی کو پڑھ لینے سے قرآن مجید کے پڑھنے اور
پڑھانے کی عظمت معلوم ہو جائے گی، احادیث ِنبویہ مجمع البیان، وسائل الشیعہ،
مستدرکِ حاکم سے نقل کی گئی ہیں۔
خداوندکریم تمام مومنین کو اس خیر کثیر میں حصہ
لینے کی توفیق اور جرأت عطا فرمائے تاکہ بچوں کو قرآنی علوم سے آراستہ کر سکیں
(آمین)