جب اس کتا بِ صغیر(وجودِانسانی) کے مطالعہ اور اس
کے اسرار رموز پر اطلاع ملنے سے اس کے کاتب (صانع حکیم)کے وجودِ جامع صفاتِ کمال
کا پتہ ملتا ہے۔۔۔ کیونکہ اس کا ایک ایک حرف معرفت خدا کا بے پایاں خزانہ ہے۔
تو اس کتابِ کبیر (وجودِعالم )کی تفصیلات پر غور
کرنے والا اور اسکے مطالعہ میں شغف رکھنے والا کیونکر تشنہ معرفت رہ سکتا ہے؟ اسی
بنا پر تو خالق کائنات نے آفاق اور انفس ہر دو کے مطالعہ کی طرف معرفت حاصل کرنے
کے لئے یکساں طوپر دعوت دی ہے۔۔۔ چنانچہ اس عنوان میں ابتدائی آیاتِ قرآنیہ کا
یہی مطلب ہے۔
پس جس ہستی کو ان دونوں کتابوں کے تفصیلی مضامین
پر عبور حاصل ہو وہ کیوں نہ دعویٰ کرے: سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ
تَفْقِدُوْنِیاور یہ بھی واضح رہے کہ مقامِ معرفت جس قدر بلند ہو مقامِ عبودیت میں
بھی اسی قدر ارتقا ہوا کرتا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
کَفٰی بِیْ فَخْرًا اَنْ تَکُوْنَ لِیْ رَبًّا
وَکَفٰی بِیْ عِزًّا
اَنْ اَکُوْنَ لَکَ عَبْدًا
ترجمہ: میرے فخر میں یہی کافی ہے کہ تو ہی میرا
ربّ ہے اور میری عزت کے لئے یہی کافی ہے کہ میں تیرا ہی عبد ہوں۔
اس کلام پاک میں جو سرکارِ ولایت نے کوزے میں دریا
بلکہ قطرہ میں سمندر کو سمو دیا ہے وہ صرف ذوقِ سلیم والے ہی اس کے سمجھ سکتے
ہیں۔۔۔ سچ ہے: کَلامُ الْاِمَامِ اِمَامُ الْکَلامِ امام عالی مقام کا کلام باقی تمام کلاموں کا
امام ہوتا ہے۔
بہر کیف اس کے ضائع وبدائع پر نظر ڈالنے کے بعد
صاحب عقلِ سلیم کے لئے راہ انکار و فرار قطعاً مسدود ہوجاتی ہے لیکن ساتھ یہ یادرہے
کہ جس طرح خدا تما م صفاتِ کمال کا جامع ہے اور صفات اسکی عین ذات ہیں اسی طرح یہ
اعتقاد ضروری ہے کہ نہ وہ دنیا میں نظر آسکتا ہے نہ آخرت میں نظر آسکے گا جو
لوگ اس کے دنیا یا آخرت میں نظر آنے یا آسکنے کے قائل ہیں وہ خداکی معرفت سے
قطعاً بے بہرہ ہیں۔
ذرا اپنے گریبان میں نگاہ ڈال کر جائزہ لیں کہ جب
اپنی روح جو اس چھوٹے سے جسم کی مدبّرہے اس کو نہیں دیکھاجاسکتا تو مدبّرعالمین کو
کیسے دیکھاجاسکتاہے؟ دیکھنے کے لیے آنکھ ہے اوروہ ہر اس شئے کو دیکھ سکتی ہے
جورنگ ومادۂ کثیف رکھتی ہو اورجس میں نہ رنگ ہو۔۔۔ نہ کثافت ہو اس کا قطعاً ادراک
نہیں کرسکتی اور خد ا وند کریم نہ کثیف ہے اورنہ رنگ کا محل ہے۔۔۔ فرماتاہے:
لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ لاتُدْرِکْہُ
الْاَبْصَارُ وَھُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْر جب عام
لطیف مخلوق کے دیکھنے سے آنکھ عا جز ہیں تو وہ لطیف جو تمام لطائف کا خا لق ہے
اُسے دیکھنے پر کیسے قادر ہوں گی؟
یہ بھی خیا ل رہے کہ عالمِ خواب میں بھی وہی چیز
دیکھی جا تی ہے جو عالمِ بیداری میں دیکھی جا سکتی ہو، پس خدا کا دیکھنا نہ خواب
میں ممکن ہے اور نہ بیداری میں۔۔۔ نہ اس کی مثال ہے نہ شبیہ۔۔۔ نہ وہ تصور میں سما
سکتا ہے اور نہ وہم میں آسکتا ہے، انسان کے وہم و گما ن و عقل سے اس کی ذات کا
ادراک بلند و با لا ہے چہ جائیکہ آنکھ اس کو ادراک کر سکے تَعَالٰی اللّٰہُ
عَمَّا یَصِفُوْنَ۔
البتہ بعض
وہ آیا تِ قرآنیہ جن کے پیش نظر لوگ اشتباہ میں مبتلا ہیں ان کا تفصیلی بیان تو
اپنے مقام پر آئے گا اس مقام پر اتنا کہہ دینا کا فی ہے کہ جب عقل و نقل سے ثا بت
ہو چکا ہے کہ خا لق کائنات مماثلت، و مشابہت مخلوقات سے بر تر و با لا ہے جسم و
جسما نیت سے مبّرا ہے تو اگر کوئی آیت ایسی آ جا ئے جس سے اس کی جسمیّت یا مما
ثلت کا وہم پڑے پس اس کی صحیح تا ویل ضروری ہے۔۔۔۔۔ مثلاً یَوْمَ
یُکْشَفُ عَنْ سَاق ۱؎ کا یہ معنی غلط ہے کہ
وہ اپنی پنڈلی کو ظا ہر کر ے گا بلکہ یہ لفظ یعنی کَشْف عَنِ السَّاق اس دن کی شدت
سے کنا یہ ہے، عَلٰی الْعَرْشِ اسْتَوٰی
کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عرش پر بیٹھا ہے بلکہ’’
اِسْتَوٰی‘‘ کا معنی ’’اِسْتَوْلٰی ‘‘ہے یعنی غا لب و مسلّط ہے، اسی
طرح ’’
یَدُاللّٰہ‘‘ ’’وَجْہُ اللّٰہ‘‘ سے
مراد اس کی قدرت۔۔۔ نعمت۔۔۔ ذات وغیرہ مراد لئے جا سکتے ہیں، بعض مقا مات پر حذف
مضا ف ما نا جا سکتا ہے وعلی ہذالقیاس۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل بیت ؑ عصمت کے دروازہ سے کنا
رہ کر نے کی وجہ سے لو گوں نے توحید کا رستہ کھودیا ہے، ’’بخاری‘‘ والے نے تو صا ف
لکھ دیا ہے کہ جب دوزخ ھَلْ مِنْ مَزِیْد کی آواز بلند کر ے گی تو خدا اپنے
قدم جہنم میں رکھے گا تب کہے گی بس بس (میں سیر ہوگئی) نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ (صحیح بخا ری تفسیر سورہ ق)
اَمَّ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ
فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ
جن لو گوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے
پیچھے پڑ جا تے ہیں۔
_____________________________________________________
۱- ایک شاعر جاہلی سعد بن مالک نے جنگ لبوس کی
شدت کے متعلق کہا ہے: کشفت لھم عن ساقھا
و بدا من الشر الصراح (از حماسہ)