٭ فِی
الْکَافِیْ عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قُلْتُ لِأبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ
اَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِیْ لَیْلَۃٍ قَالَ لا یُعْجِبُنِیْ اَنْ تَقْرَأَ فِیْ
اَقَلَّ مِنْ شَہْرٍ۔
ترجمہ: اصول کافی میں محمد ابن عبداللہ سے روایت
ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے دریافت کیا کہ کیا میں ایک رات میں ختم
قرآن کر لیا کروں؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔
٭ وَ
فِیْہِ عَنْ أبِیْ بَصِیْر اِنَّہُ قَالَ لِأبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ جُعِلْتُ
فِدَاکَ اَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانْ فِیْ لَیْلَۃٍ؟ فَقَالَ لا۔
قُلْتُ فَفِیْ لَیْلَتَیْنِ؟ قَالَ لا۔ قُلْتُ فَفِیْ ثَلٰثٍ؟ قَالَ ھَاء
وَاَشَارَ بِیَدِہٖ ثُمَّ قَالَ یَا أبَا مُحَمَّدٍ اَنَّ لِلرَّمْضَانِ حَقًّا
وَ حُرْمَۃً وَلا یُشْبِھُہُ شَیْئٌ مِنَ الشُّھُوْرِ وَ کَانَ اَصْحَابُ
مُحَمَّدٍ یَقْرَأُ اَحَدُھُمْ الْقُرْآنَ فِیْ شَھْرٍ اَوْ اَقَلَّ۔ اِنَّ
الْقُرْآنَ لا یُقْرَأُ ھَذْرِمَۃً وَ لٰـکِنْ یُّرَ تَّلُ تَرْتِیْلاً وَ
اِذَا مَرَرْتَ بِآیـَۃٍ فِیْھَا ذِکْرُ الْجَنَّۃِ فَقِفْ عِنْدَھَا وَاسْئَلِ
اللّٰہَ الْجَنَّۃَ وَ اِذَا مَرَرْتَ بِآیـَۃٍ فِیْھَا ذِکْرُ النَّارِ فَقِفْ
عِنْدَھَا وَ تَعَوَّذْ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ: اصول کافی میںمحمد بن عبد اللہ سے روایت ہے
کہ میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ پر فدا ہوں۔۔۔ کیا
ماہ رمضان کی ایک شب میں ختم قرآن کرلیا کروں؟ فرمایا نہیں، میں نے عرض کیا تو
پھر دو راتوں میں؟ فرمایا نہیں، میں نے پوچھا پس تین راتوں میں؟ فرمایا یہی درست
ہے اورہاتھ سے اشارہ بھی کیا، پھر فرمایا اے ابو محمد۔۔۔۔ تحقیق ماہ رمضان کے لئے
حق وحرمت ہے دوسراکوئی مہینہ اس کی مثل نہیں، جناب سالتمآبؐ کے صحابہ ایک ماہ یا
اس سے کم میں ختم قرآن کیا کرتے تھے قرآن مجید کو جلد بازی نہیں بلکہ ترتیل سے
پڑھنا چاہیے، جب ایسی آیت سے گذرو کہ جس میں جنت کا ذکر ہو تو وہا ں رُک جائو اور
اللہ سے جنت طلب کرو اورجب ایسی آیت سے گزرو کہ جس میں دوزخ کا ذکر ہو تووہاں
ٹھہر جائو اوراللہ سے پناہ مانگو۔
٭
وَ فِیْہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ سَألْتُ اَبَا عَبْدِ اللّٰہِ
عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً؟ قَالَ
قَالَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ وَ بَیِّنْہُ تَبَیُّنًا وَلا تَھَذُّہُ ھَذَّ
الشِّعْرِ وَلا تَنَثَّرْہُ نَثْرَ الرَّمْلِ وَ لٰـکِنْ فَزّعزا قُلُوْبُکُمُ
الْقَاسِیَۃِ وَلا یَکُنْ ھَمُّ اَحَدکُمْ آخِرَ السُّوْرَۃِ۔
ترجمہ: نیز کا فی میں عبد اللہ بن سنان سے منقو ل
ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ کے فرمان رَتِّلِ
الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً کے متعلق دریافت کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: کہ حضرت امیر
المومنین علیہ السلام نے فرمایا:
(جس کا مطلب ہے) کہ الفاظ کو صحیح اور واضح کر کے
پڑھو، اشعار کی طرح بہت تیزی سے بھی نہ پڑھو اور بہت آہستہ کر کے ذرّاتِ ریگ کی
طرح منتشر بھی نہ کرو، لیکن اپنے سخت دلوں کو اس سے خوفزدہ کر واور سورہ کے آخر
تک پہنچنا ہی ملحوظ نہ ہو بلکہ استفادہ مطلوب ہو۔
٭ قَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِ زَیِّنُوْ الْقُرْآنَ بِأصْوَاتِکُمْ فَاِنَّ الصَّوْتَ
الْحَسَنَ یَزِیْدُ الْقُرْآنَ حُسْنًا۔
ترجمہ: جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا کہ قرآن کو
خوبصورت آواز سے مزیّن کرو کیونکہ اچھی آواز قرآن مجید کے حسن کو زیادہ کرتی
ہے۔
اما م زین العابدین علیہ السلام قرآن کی ایسی
ترتیل سے تلاوت فرماتے کہ رہگذررستہ پر رُک جاتے تھے۔
بالجملہ: ان احادیث کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید
کی تلاوت میں اتنی سست رفتاری بھی نہ ہو کہ جس طرح ریگ صحرا کے بکھرے ہوئے ذرّات
جس سے معانی قرآنیہ کے سمجھنے میں دشواری پیدا ہو جائے اور الفاظ و آیات کا
باہمی ربط ٹوٹ جائے اور نہ اس قدر تیزی سے پڑھے کہ کچھ سمجھ نہ آ سکے بلکہ ایسے
متوسط شُستہ اور پُر اخلاص طریق پر الفاظ کی ادائیگی ہو کہ سخت ترین دلوں کو جھکا
دے۔
نیز چونکہ تلاوتِ قرآن باطنی طور پر ذاتِ احدیت
سے مکالمہ کی حیثیت رکھتی ہے اور نہایت تیز کلامی یا بالکل الفاظ کو چباچبا کر
نکالنا جب عام مصاحبین کی باہمی گفتگو میں ناقابل برداشت غلطی متصور ہوا کرتی ہے
تو مالک ُالکل کے سامنے اس قدر لا اُبالیا نہ مظاہرہ انتہائی گستا خی یا کمال
جرأت و بے باکی بلکہ تمسخر و استہزا نہیں تو اور کیاہے؟
البتہ لسانی مجبور یاں یا عام ناظرے خوان حضرات کی
صلاحیتی کمزوریاں قابل عفو ضرور ہوں گی کیونکہ ہر شخص اپنی استعدادی و امکانی
حیثیت سے احکام شریعت کا مکلف ہے لیکن بہر کیف بہت تیز پڑھنا تو بے عتنائی ہی کا
مظاہرہ ہے اورعمدی غلطی ہے بعض لوگ اس کو اپنا کمال قرار دے کر فخریہ ایسا کرتے
ہیں حالانکہ ایسا کرنا حضرات معصومین کی فرمائشات کے پیش نظر قطعا قابل تحسین
نہیں، اسی بنا ٔپر معصوم نے ایک یا دودن میں قرآن ختم کر نے کی اجازت نہیں دی اور
ماہ مباک رمضان کی اہمیت کے پیش نظر تین روز ختم کرنے کی اجازت دی اورساتھ ساتھ
صحابہ کرام کی سیرت سے استشہاد بھی فرمایا کہ وہ ایک ماہ کچھ کم عرصہ میں ختم کیا
کرتے تھے تاکہ کوئی شخص اپنے غلط رویہ کو صحابہ رسول کے کردار کی طرف نسبت دیکر
عوام کو دھو کا نہ دے سکے۔
شبہ: اس مقام پر پہنچ کر ایک اعتراض
وارد ہوتا ہے کیونکہ ذاکرین وواعظین بلکہ شیعہ میں ایک مشہور سا جملہ ہے اورعوان
پختہ اعتقادات اس پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت امیرالمومینن ایک رکاب سے دوسری رکاب تک
قرآن ختم کرتے تھے چنانچہ کتاب شواہدالنبوۃ سے بھی منقول ہے کہ حضرت ایک رکاب میں
پائوں رکھتے تو دوسری رکاب تک قرآن ختم کردیتے تھے، مولانا امیرالدین مرحوم نے
اپنی کتاب فلک النجات میں علم عمر کے عنوان کے تحت میں اسی حوالہ کا ذکر فرمایا ہے
پس روایات گذشتہ کی بنا ٔ پراعتراض وارد ہوسکتاہے کہ حضرت امیرالمومنین ؑ کی اس
قدر تیز خوانی آیا موجب فضیلت ہے؟ کیا یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت کے قول و فعل
آپس میں متضاد تھے؟
لہذا یہ
چیز بجائے فضیلت و کمال کے تنقیص کا پہلو لئے ہوئے ہے تو اس کا جواب دو طریق سے
دیا جا سکتا ہے ایک عقلی اور دوسرا نقلی:
عقلی جواب: یہ ہے کہ متکلم کا ہر کلام نہ
مبنی بر حقیقت ہوتا ہے اور نہ ہر کلام میںمجازیت کا رنگ ہوتا ہے، اہل عرف کے
استعمال میں مقامی حالات یا ماحول و معاشرہ کے وقتی رجحانات یا ان کے باہمی
مکالمات میں لحاظ کردہ اصطلاحات کی بنا ٔ پر اگر کوئی غیر اہل انسان اور نا واقف
ان کے الفاظ کے لفظی ترجمہ کو سمجھ لے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بس وہ زبا ن
کا عالم ہو گیا کیونکہ ہر کلام کے رموز و حقائق اور اسرار و دقائق پر اطلاع اس
کلام کے اہل محاروہ ہی کو ہو سکتی ہے مثلاًعام استعمال میں نہر یا دریا کی طرف
روانی کی نسبت ہوتی ہے حالانکہ حقیقت میں پانی رواں ہوتا ہے نہ کہ دریا یا نہر،
اسی طرح چراغ کی طرف جلنا منسوب ہے حالانکہ تیل جلتا ہے، ایک آدمی شربت پی کر
کہتاہے کہ میں بوتل پی گیا وعلی ہذا لقیاس، جو شخص محاوارت کے طریقہ اور اصطلاحات
مقامیہ سے با بلد ہو گا اس کیلئے ا س قسم کے جملات ایک معمہ لا ینحل ہو جائیں گے
لیکن واقف کا رکے لئے کوئی دقت نہیں ہوا کرتی۔
اگر کہا جائے کہ میدان کا ر زار میں شیر آستین
الٹ کر لڑ رہا تھا تو کوئی ہوش منداس شیرمراد جنگلی شیر نہ لے گا بلکہ ایک شجا ع
مرد میدان ہی سمجھے گا اور اس میں شک نہیں کہ کلام کی خصوصیا کلام کے وقار اور اس
کی اہمیت کو موجب ہو ا کرتی ہے، بنا بریں حضرت علی ؑ کے ایک رکاب سے دوسری رکاب تک
ختم قرآن کو اگر صرف ظاہر پر چھوڑ دیا جائے اور کسی خصوصیت کو ملحوظ نہ قرار دیا
جائے تو دانشمندی نہ ہو گی کیونکہ ہر کام کیلئے مناسب وقت ضروری ہوا کرتا ہے۔
پس جس طرح دریاکا رواں ہونا محال تھا لہذا ہم نے
مراد پانی لے لیا چراغ کا جلنا محال تھالہذا تیل مراد لیا اسی طرح بوتل کا پینا
محال تھا لہذا شربت سمجھا اور شیر کی طرف آستین کی نسبت دیکھ کر مرد میدان مراد
لے لیا تو یہاں بھی چونکہ ظاہری معنی محال ہے لہذا ہم کہیں گے کہ مراد اس سے یہ
ہے:
چونکہ بار شادِ باری وَ مَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ
الْکِتٰبْ حضرت علی ؑ علوم قرآنیہ کا جامع ہے اور اسے قرآن سے وہ نسبت ہے جو روح
کو بدن سے بلکہ اس سے بھی مضبوط، تو کیونکہ روح اور بدن میں جدائی ممکن ہے اور
حضرت علی ؑ اور قرآن میں جدائی نا ممکن ہے، خود حضرت رسالتمآبؐ کا ارشاد ہے:
عَلِیٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِی علی ؑ قرآن کے ساتھ
اور قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے (جدھر ان دونوں میں سے ایک کارُخ ہو ا اُدھر دوسرے کا
رُخ ہو گا) نیز حدیث ثقلین بھی صاف طور پر موجو دہے لَنْ یَفْتَرِقَاحَتّٰی یَرِدَا الْحَوْض یہ
دونوں ہر گز آپس سے جدا نہ ہو ں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر اکٹھے پہنچیں گے۔
اگر قرآن کو بدن قرار دیا جائے تو علی ؑ اس کی
روح ہے اور علی ؑ کو بدن قرار دیاجائے تو قرآن اس کی روح ہے، قرآن کی ہر ہر آیت
میں علی ؑ کے فضائل و کمالات کے جلوے ہیںاور علی ؑ کی ہر گفتار وکردار میں قرآن
کی آیات کا پرتو ہے قرآن کی ہر ہر آیت حضرت علی ؑ کے خدو خال کی آئینہ دار ہے
ہے اور علی ؑ کا ہر خدوخال آیات قرآنیہ کا مظہر ہے۔
گو یا قرآن کی ہر صورت کی ترجمان علی ؑ کی سیرت
ہے اور علی ؑ کی سیرت کا بیان قرآن کی ہر ہر سورت ہے، لہذا علی ؑ کی ہر نقل و
حرکت اور قول و فعل آیات قرآنیہ کی نقل و حرکت کے مترادف ہے اور علی ؑ کا تصرف و
تقلب قرآن کریم کا تقلب و تصرف ہے، جس طرح روح کا تصرف بدن کے ذریعے سے اور بدن
کا تصرف روح کی وساطت سے ہوتا ہے اور ہر دو کے تصرفات ایک دوسرے کی طرف منسوب بھی
ہو سکتے ہیں تو بنا بریں علی ؑ و قرآن کی جملہ حرکات و سکنات لازم و ملزوم کی
حیثیت رکھتے ہیں، لہذا حضرت علی ؑ کی ایک قدم سے دوسرے قدم تک کی حرکت پورے کلام
اللہ کی الحمد سے والناس تک کی حرکت ہوا کرتی تھے پس علی ؑ کا ایک رکاب
میںقدم رکھ کر دوسری رکاب تک منتقل ہو نا قرآن مجید کا مکمل انقلاب تھا صرف یہی
نہیں بلکہ بیان گذشتہ کی تطبیق سے علی ؑ کا ہر اشارہ کلام اللہ کا اشارہ تھا وہ
علی ؑ کا ہر سانس قرآن مجید کا پورا دَور تھا۔
نقلی جواب: از منقولات۔۔۔۔۔۔ وہ
وہ ہے جو علامہ امینی نے الغدیر ج ۵ میں
ذکر کیا ہے:
اَخْرَجَ الْبُخَارِیْ فِیْ صَحِیْحِہٖ عَنْ
اَبِیْ ھُرَیْرَہ یرْفعہٗ
قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ خُفِّفَ
عَلٰی دَاؤدَ الْقُرْآنَ فَکَانَ یَأمُرُ بِدَابَتِہٖ فَتُسْرَجَ فَیَقْرَأُ
الْقُرْآنَ قَبْلَ اَْنْ تُسْرَجَ۔
ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآب ؐ نے
فرمایا کہ حضرت دائود پر قرآن (زبور) کا پڑھنا آسان تھا یہاں تک کہ وہ اپنی
سواری پر زین رکھنے کا حکم دیتے تھے پس زین رکھنے سے پہلے قرآن کو یعنی (زبور)کو
ختم کر لیا کرتے تھے (صحیح بخاری ج ۱
باب قولہ تعالیٰ واٰتینا دائود زبوراً، ج۲باب
احادیث الانبیا ٔ)
وَ قَالَ الْقسطَلا نِیْ فِیْ شَرْحِہٖ وَ فِیْہِ
اِنَّ الْبرکَۃَ تَقَعُ فِی الزَّمَنِ الْیَسِیْرِ حَتّٰی یَقَعَ فِیْہِ الْعَمَلُ
الْکَثِیْرِ وَ قَالَ قَدْ دَلَّ ھَذَا الْحَدِیْث عَلٰی اَنَّ اللّٰہَ یَطْوِی
الزَّمَانَ لِمَنْ یَّشَأ مِنْ عِبَادِہٖ کَمَا یَطْوِی الْمَکَانَ لَھُمْ۔
قسطلانی
نے اسکی شرح میں کہا کہ تھوڑے زمانہ میں بعض اوقات برکت داخل ہوجاتی ہے پس اس میں
بڑا کام انجام پا سکتا ہے اور کہا کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح خدااپنے
بندوں کیلئے زمین کو سمیٹ لیتاہے اس طرح یعنی زمانے کو بھی سمیٹ لیتا ہے (ارشاد
الساری شرح صحیح بخاری ج۸)
باتفاق جمیع اہل اسلام جناب رسالتمآبؐ صرف حضرت
دائود نہیں بلکہ تمام گذشتہ انبیا ٔ سے افضل ہیں اور حضرت امیر المومنین نبص آیت
مباہلہ، نفس رسو ل ہیں تو ان کیلئے زین کا لپٹ جانا یا زمانہ کا سمٹ جانا کوئی بڑی
با ت نہیں ہے۔