التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

علومِ قرآنیہ اہل بیتؑ کے پاس ہیں



تفسیر برہان میں بروایت کافی امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ حضرت امیرالمومنین ؑ نے فرمایا:
اَیُّھَا النَّاس !  اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور سچی کتاب نازل فرمائی حالانکہ تم لوگ کتاب اور کتاب کے نازل کرنے والے سے غافل تھے، رسول اور اس کے بھیجنے والے سے بے خبر تھے، رسولوں کے گذر جانے سے ایک عرصہ گذر چکا تھا۔۔۔ اُمتیں لمبی نیند سو چکی تھیں۔۔۔۔ احکام کمزور ہو چکے تھے۔۔۔حق سے چشم کوری۔۔۔ظلم میں کجروی اور دین میں بے برکتی عام ہو چکی تھی، گلزار جنت ِدنیا میں پژمردگی کی بنا ٔ پر گرمی کی آگ پڑ رہی تھی، ٹہنیاں خشک ۔۔۔ پتے مردہ۔۔۔ پھلوں سے مایوسی اور پانی میں کمی رونما تھی، ہدایت کے نشانات کہنہ اور گمراہی کے عَلم بلند تھے، دنیا۔۔ دنیا والوں کے سامنے بدنما شکل میں ظاہر تھی، اس کا ثمر فتنہ اور ذائقہ بد تھا، باطن میں خوف و ہراس اور ظاہر میں تلوار نمایاں تھی، گویا تم لوگ پوری طرح تباہ و برباد ہو چکے تھے، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی اور روشن دن سیاہ ہو چکے تھے، قطع رحمی۔۔۔ خونریزی اور لڑکیوں کا زندہ درگور کرنا عام مشغلہ تھا اور یہ سب کچھ عیش پسندی اور خوش باشی کے لئے محبوب عام تھا، وہ لوگ نہ اللہ سے ثواب کے اُمیدوار تھے اور نہ اس کے عذاب سے خوفزدہ و ترساں تھے وہ چشم کور زندہ تھے اور مرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن تھے۔
٭      حضور ؐ سابقہ شریعتوں کی ناسخ اور کتب متقدمہ کی تصدیق لے کر تشریف لائے جس میں حلال و حرام کی پوری تفصیل موجود ہے، اور وہ قرآن مجید ہے، قرآن مجید کے ساتھ کلام کرو۔۔۔۔ لیکن یاد رکھو:  وہ ہرگز تمہارے ساتھ کلام نہیں کرے گا (یعنی تم اس کے رموز و اسرار پر مطلع نہیں ہو سکو گے) البتہ میں تم کو اس کے متعلق خبریں دے سکتا ہوں، اس میں ماضی، مستقبل حتی کہ قیامت تک کا علم ہے، تمہارے روزمرہ کے احکام۔۔۔ باہمی نزاعات کے فیصلے سب اس میں موجود ہیں، لیکن مجھ سے اگر اس کے متعلق دریافت کرو گے تو تمہیں بتلائوں گا۔
٭      بروایت مرازم امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں کہ خداوندکریم نے قرآن مجید میں ہر شئے کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے اور ضروریاتِ انسانی کے متعلق کوئی ایسی فروگذاشت نہیں کی کہ کوئی کہے کاش قرآن مجید میں یہ بات ہوتی! بلکہ خداوندکریم نے سب کچھ قرآن مجید میں بیان فرما دیا ہے۔
٭      بروایت معلّٰی بن خنیسآپ ؑ نے فرمایا کہ کسی بھی معاملہ میں دو آدمیوں کا تبادلہ خیالات نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس کی اصل قرآن مجید میں ہوا کرتی ہے، لیکن عام انسانی عقول کی رسائی سے بالاتر ہے۔
٭      بروایت سماعہ امام موسیٰ کاظم ؑ سے منقول ہے جب آپ ؑسے دریافت کیا گیا کہ آیا ہر چیز کتاب اللہ اور سنت نبوی میں موجود ہے؟ یا لوگوں کا بے بنیاد دعویٰ اور خودساختہ مقولہ ہے؟ تو آپ ؑ نے فرمایا کہ بے شک ہر چیز کتاب و سنت میں موجود ہے۔
٭      بروایت اسماعیل بن جابر امام جعفرصادقؑ سے مروی ہے کہ قرآن مجید میں گذشتہ اور آئندہ کی تمام خبریں موجود ہیں اور تمہارے معاملات کا حل بھی موجود ہے اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں۔
٭      عبدالاعلیٰ بن اعین سے منقول ہے کہ آپ ؑنے فرمایا: میں بچپنے سے علم کتاب جانتا ہوں، حالانکہ اس میں ابتدائے خلقت سے قیامت تک کے تمام واقعات موجود ہیں اور آسمان و زمیں، جنت و نار اور کان ومایکون کی خبریں موجود ہیں او رمیں ان کو اس طرح جانتا ہوں جس طرح اپنی ہتھیلی کو جانتا ہوں۔
ہمارے نزدیک قرآن اور اہل بیت ؑ دونوں واجب الاتباع ہیں اور قرآن مجید کے حقیقی عالم صرف اہل بیت ؑ ہی ہیں، بنابریں عوام جہلا ٔ کے دلوں میں اس جنون کا مسلّط ہونا کہ ہر شئے کا ثبوت قرآن ہی سے ہو قطعاً مبنی بر انصاف نہیں، البتہ یہ فقرہ اُن لوگوں کو زیبا ہے جو حسبُنا کہہ کر آل محمد ؑ سے کنارہ کش ہوگئے اور ثقلین سے تمسک کرنے کا حکم ردّ کر دیا، ہمارا تو ایمان اور اعتقاد ہے کہ جس طرح عہد رسالت میں قرآن فہمی کے لئے ہمیں جناب رسالتمآب تفسیر و تاویل کی احتیاج تھی اسی طرح دَورِ نبوی سے لے کر تا قیام قیامت ان کے صحیح جانشینوں کی توضیحات کے ہم محتاج ہیں، ہم جس طرح ایمان رکھتے ہیں کہ ہر خشک و تر کا علم قرآن مجید میں ہے اسی طرح یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ ہر شئے کا احصا ٔ و شمار امام مبین کے پاس ہے، ایک طرف کتاب مبین میں ہر چیز کا حصر بتایا گیا ہے اور دوسری طرف امام مبین میں ہر شئے کا احصا ٔ کر دیا گیا ہے، گویا ان دونوں حصروں سے یہ ثابت ہوا کہ کتاب مبین اور امام مبین ایک دوسرے سے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
٭      فِی الْبُرْھَانِ عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ عَنْ اَمِیْرِالْمُوْمِنِیْنَ اِنَّہُ قَالَ اَنَا وَاللّٰہِ الْاِمَامُ الْمُبِیْنُ اُبَیِّنُ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ وَرِثْتُہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔
ترجمہ:         برہان میں ابن عباس سے منقول ہے کہ امیرالمومنین ؑ نے فرمایا ۔۔۔ واللہ۔۔۔ میں ہی وہ امام مبین ہوں جو حق و باطل کے درمیان فیصلہ کر سکے اور یہ چیز مجھے جناب رسالتمآب ؐ سے ورثہ میں پہنچی ہے۔
٭      تفسیر برہان میں بہ سند ابن بابویہ منقول ہے کہ جب آیت ’’وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنَاہُ فِیْ اِمَامٍ مُبِیْن‘‘ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور دریافت کرنے لگے کہ یا رسول اللہ کیا امام مبین سے مراد تورات ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں، پھر سوال کیا کہ کیا انجیل مراد ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں، پھر پوچھا کیا قرآن مراد ہے؟ فرمایا نہیں ۔۔۔۔ اتنے میں حضرت علی ؑ تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا: یہی وہ امام مبین ہے جسکے اندر اللہ نے ہر شئے کے علم کا احصا ٔ کیا ہے۔
بہر کیف اس مطلب کی احادیث بکثرت موجود ہیں جو انشا ء اللہ اپنے مناسب مقامات پر مذکور ہوں گی، لیکن اس مقام پر تتمہ کے طور پر چند ایک احادیث پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب کی وضاحت پورے طور پر ہوجائے۔
بارہ امام بفرمان پیغمبر اکرمؐ
٭      تفسیر برہان میں سلیم بن قیس ہلالی سے مروی ہے کہ میں نے حضرت امیر المومنین ؑ کوفرماتے ہوئے سنا کہ جناب رسالتمآب ؐ پر کوئی آیت ایسی نہیں اُتری جو انہوں نے مجھے پڑھائی لکھائی نہ ہو یا میں نے لکھی نہ ہو، مجھے انہوں نے تاویل و تفسیر۔۔۔ ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ کا علم تعلیم فرمایا اور میرے لئے اللہ سے حفظ و فہم کی دعا طلب کی، پس اس کے بعد مجھے کتاب اللہ سے کسی آیت کا جناب رسالتمآبؐ کے تعلیم کردہ علمی مطالب میں سے کسی علمی نکتہ کا کبھی نسیان نہیں ہوا، حلال و حرام امر و نہی گذشتہ و آئندہ کی باتیں اور گناہ و ثواب کے متعلق کوئی ایسا امر نہیں جو انہوں نے مجھے تعلیم نہ فرمایا ہو اور میں نے بھی ان تعلیم کردہ اشیا ٔ کو اس طرح حفظ کیا ہے کہ ایک حرف تک فراموش نہیں ہوا، پھر جناب رسالتمآبؐ نے میرے سینہ پر ہاتھ رکھ کر دعا مانگی کہ خدا میرے سینہ کو علم و فہم، حکمت اور نور سے ایسا پُر کرے کہ کوئی چیز فراموش نہ ہونے پائے اور غیر مکتوب مطالب میں سے کوئی چیز فوت نہ ہونے پائے، میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ کیا آپ کو میرے متعلق نسیان کاکوئی خطرہ ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا نہیں، مجھے اپنے پروردگار نے خبر دی ہے کہ اس نے میری دعا تیرے متعلق اور تیرے شرکا ٔ کے متعلق قبول فر مالی ہے (جو تیرے بعد ہوں گے ) میں نے پوچھا یا رسولؐ اللہ ! کون لوگ میرے شرکا ٔ ہیں جو میرے بعد ہوں گے؟ فرمایا وہ لوگ ہیں جن کا ذکر خیر خدا نے اپنے اور میرے نام کے ساتھ کیا ہے چنانچہ فرماتاہے: اَطِیْعُواللّٰہَ وَ اَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُم  اللہ اور رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو۔
میں نے عرض کیا وہ کون ہیں؟ فرمایا وہ سب میرے اوصیا ٔ ہیں اور حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے، وہ سب کے سب ہادی و مہدیؑ ہوں گے، اُن کو چھوڑنے والا ان کو ضرر نہ پہنچائے گا، وہ قرآن کے ساتھ ہوں گے اور قرآن اُن کے ساتھ ہو گا قرآن اُن کو نہ چھوڑے گا اور وہ قرآن کو نہ چھوڑیں گے، میری امت پر اللہ کی مدد اُنہی کے ذریعہ سے نازل ہو گی، اُنہی کے ذریعہ سے بارش برسے گی اور اُنہی کے وسیلہ سے مصائب دُور ہوں گے اور اُنہی کیواسطہ سے دعا مستجاب ہو گی، میں نے عرض کیا یا رسول ؐ اللہ ! آپؐ اُن کے نام بتلائیں؟ آپؐ نے فرمایا: ایک تو میرا یہ فرزند اور اپنا ہاتھ مبارک امام حسن ؑ کے سر پر رکھا، پھر امام حسین ؑ کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ دوسرا میرا یہ فرزند، پھر اس کا ایک فرزند ہو گا جس کا نام علی ہو گا اور تیری موجودگی میں متولد ہو گا اس کو میرے سلام پہنچا دینا، اس کے بعد حضورؐ نے میری اولاد سے بارہ اماموں کی تعداد کا پورا ہونا ذکر فرمایا، تو میں نے پھر عرض کیا کہ قبلہ آپؐ ان کے نام تو بتلائیں پس آپؐ نے پھر ایک ایک کر کے سب کے نام بتائے۔
پس حضرت امیر المومنین ؑ نے سلیم بن قیس راویٔ حدیث سے خطاب کر کے فرمایا:
خدا کی قسم انہی میں سے مہدی ٔ امت ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی، خدا کی قسم میں ان لوگوں کو بھی پہچانتا ہوں جو رکن اور مقام کے درمیان ان کی بیعت کریں گے، صرف ان کو نہیں بلکہ ان کے باپ دادا اور سارے قبیلہ کو جانتا ہوں۔
٭      بروایت کافی حضرت محمد باقر  ؑ سے منقول ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا: قرآن مجید کے پورے ظاہر و باطن کے علم کا دعویٰ سوائے اوصیا ٔ کے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا۔
٭      ایک اور روایت میں آپ ؑ نے فرمایا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں پورے قرآن کا جامع ہوں جس طرح کہ وہ اُترا تھا تو وہ جھوٹا ہے بلکہ جس طرح اُترا تھا اسی طرح پورے طور پر اس کو جمع اور حفظ سوائے علی ؑ بن ابیطالب ؑ کے اور کوئی کر ہی نہیں سکا اور پھر وہ آئمہ کے پاس ہے جو اُن کے اوصیا ٔ ہیں۔
٭      امام جعفر صادقؑ سے آیت (بَلْ ھُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوالْعِلْم بلکہ وہ آیات بینات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں کہ جن کو علم دیا گیا ہے) کے متعلق روایت ہے: اس سے مراد آئمہ علیہم السلام ہیں۔
٭      ایک روایت میں آپ ؑ نے فرمایا: کتاب اللہ میں ماضی و مستقبل کی خبریں اور تمہارے فیصلے موجود ہیں جن کو ہم جانتے ہیں اور نیز ہم رَاسِخُوْنَ فِی الْعِلْم ہیں اور ہم اس کی تاویل کو جانتے ہیں۔
بس انہی احادیث پر اکتفا کرتا ہوں آل محمد ؐ کے علم کا اندازہ کرنا انسانی طاقت سے بلند و بالا تر مرحلہ ہے، بس یہی اعتقاد ہے کہ خداوندنے اہل بیت عصمت ؑ کو جناب رسالتمآبؐ کے بعد تمام کائنات پر جملہ کمالات میں فوقیت عطا فرمائی ہے ان کے کسی کمال کی حدود معین کرنا ہماری رسائی سے بعید ہے۔
نوٹ:  اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے حوالہ کتب بعض حدیثوں سے حذف کر دیا ہے نیز اصلی عبارت کی بجائے صرف ترجمہ بھی اسی نظریہ کے ماتحت ہے۔