التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

امام محمد تقی علیہ السلام کا واقعہ



چنانچہ معتصم عباسی کے عہد حکومت میں ایک مرتبہ چور پر شرعی حدّ جاری کرنے کا مسئلہ پیش آیا، درباری فقہا ٔ کی نگاہیں صرف فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا (ہاتھ کاٹ دو ) تک محدود تھیں، اب سوال پیدا ہوا کہ ہاتھ کس مقام سے کاٹا جائے توفقہا ٔ میں اختلاف پیدا ہو گیا، کسی نے کہا کہ قطع کی حدّ کلائی ہے کیونکہ آیت تیمم میں ہاتھوں کا مسح واجب ہے اور مسح کی حدّ کلائی ہے اور کسی نے فتویٰ دیا کہ ہاتھوں کو کہنیوں سے جدا کرنا چاہیے کیونکہ آیت وضو میں ہاتھوں کے دھونے کا حکم ہے اور حدّ اس کی کہنیوں تک ہے، مسئلہ کیا تھا ایک عقدہ ٔ لا ینحل بن گیا؟
معتصم نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ دربار میں تشریف لائیں، چنانچہ بہ دلِ ناخواستہ آپ ؑ تشریف لائے تو مسئلہ پیش ہوا، آپ ؑ نے جواب سے معذرت طلب کی لیکن خلیفہ نے قبول نہ کی اور طلب جواب پر مصرّ ہوا، آخر کار آپ ؑ نے فرمایا: کہ چور کے ہاتھ کا صرف پنجہ یعنی انگلیوں کی جڑوں سے کاٹ دیا جائے( اس کا قرآنی استشہاد ہے  یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ  یہاں اَیدی سے مراد صرف انگلیاں ہی انگلیاں ہیں کیونکہ لکھا انگلیوں سے جاتا ہے) اس جواب پر تمام درباری فقہا ٔ سیخ پا ہو کر دلیل کا مطالبہ کرنے لگے آپ ؑ نے فرمایا: اِنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ مساجد اللہ کیلئے ہیں ( وہ اعضا ٔ جو بوقت سجدہ زمین بوس ہوا کرتے ہیں وہ مساجدہیں) ان کی تعداد سات ہے:
دونوں پائوں کے انگوٹھے    دونوں گھٹنے  دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں   پیشانی
آپ ؑ نے فرمایا: جس چیز کو اللہ نے اپنے لئے مخصوص فرمالیا ہے حدّ جاری کرتے وقت اس کو چھوڑ دینا چاہیے اور باقی پر حدّ کو جاری کرنا چاہیے، معتصم آپ ؑ کی فہمائش سے مطمئن ہو گیا اور آپ ؑ ہی کے ارشاد کے مطابق چور پر حدّ کو جاری کیا اس پر درباری فقہا ٔ ناراض ہو گئے، چنانچہ ابن ابی دائود کئی دن تک بوجہ رنجش دربار میں حاضرنہ ہوا اور امام ؑ کے تبحُّر علمی کو دیکھ کر آتشِ حسد اُس کے سینہ ٔ پر کینہ میں زور سے بھڑک اٹھی کہ اس کیلئے چین و آرام ختم ہو گیا آخر کار امام عالی مقام کو زہر دلوا کر شہید کروانے پر معتصم کو آمادہ کیا، تب رضا مند ہوا۔
اصولی طور پر اسے ورود سے تعبیر کیا جاتا ہے ایک دلیل اگر دوسری دلیل کے موضوع حکم کی وسعت سے کسی فرد کو بطورِ تخصیص خارج کر دے تو اس کو اصطلاحِ علم اصول میں حکومت کہتے ہیں، مخصِّص کو حاکم اور مخصَّص کو محکوم سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس طرح آیت و ضو کے عام موضوعِ حکم سے حَرجی مقامات آیتِ حرج نے خارج کر دئیے آیت وضو محکوم اور آیت حرج حاکم ہے اور اگر ایک دلیل دوسری دلیل کے موضوعِ حکم سے کسی فرد کو بطورِ تخصّص خارج کر دے یعنی وہ دلیل یہ کہے کہ فردِ مذکور اس موضوع سے مستثنیٰ منقطع کی طرح تخصّصاً خارج ہے یعنی ابتدأ سے یہ اس موضوع کا فرد ہی نہیں اور وہ حکم اس کو شامل ہی نہیں تو اس کو اصطلاحِ علم اصول میں ورود کہتے ہیں، روایت مذکورہ میں اِنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ  نے بتلایا کہ حدّ چوری کے حکم میں مساجدِ سبعہ داخل ہی نہیں لہذا یہ وارد ہے اور آیت سرقت مورود۔
سطحی ترجمہ مشکل سے سمجھنے والے اس قسم کے اصولی نکات کا قرآن سے کیا خاک استنتاج کر سکتے تھے؟
یہ  ’’رَاسِخِیْن فِی الْعِلْم‘‘  ہی کی شان ہے، اہل بیت عصمت ؑ کے دامن سے علیحدگی اور دعویٰ حسبنا مقبولیت نے قرآن مجید کو ایک بازیچہ ٔ اطفال بنا کے رکھ دیا ہے، ہر دو حرف سیکھا ہوا اپنے تئیں عالم قرآن کہلوانے سے ذرا بھر جھجک محسوس نہیں کرتا، عوام کے دل و دماغ میں یہی بات سمائی ہوئی ہے کہ ہر شخص عالم قرآن ہو سکتا ہے لہذا ہر ملّانما شخص سے اپنے پیش آمدہ مسائل کا حل قرآن سے طلب کرتے ہیں اور بغیر اسکے اپنے اندر اطمینان کی صورت ہی نہیں پاتے!!
لا رَطْبٍ وَلا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُبِیْنٍ پر نگاہ جمی ہوئی ہے لیکن  وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَاب‘‘ ’’وَ مَایَعْلَمُ تَأوِیْلَہُ اِلَّا اللّٰہ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ‘‘ ’’فَاسْئَلُوا اَھْلَ الذِّکْرِ‘‘ ’’کُلَّ شَیْیئٍ اَحْصَیْنَاہُ فِی اِمَامٍ مُبِیْنٍ وغیرہ کا خیال تک نہیں، نیز ’’اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن‘‘پر دھیان تک نہیں اور انہی تخیلاتِ فاسدہ نے عوام شیعہ کو ایک بڑی حد تک اپنے اصول مسلمہ سے غافل کر دیا ہے، انکے اذہان میں بھی یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ہر بات کا ثبوت قرآن مجید سے ہونا چاہیے، پس اپنے مولوی صاحبان سے جزوی اختلافی مسائل کا حل قرآن مجید سے ہی چاہتے ہیںکیونکہ ان سے مخالفین بھی قرآن مجید کا حوالہ طلب کرتے ہیں مثلا سوال کیا جاتا ہے رونا پیٹنا دیگر رسومات عزاداری، ہاتھ کھول کر پڑھنا اور آئمہ طاہرین کے اسمائے طاہرہ قرآن میں کہاں ہیں؟
مخالفین تو چونکہ حسبُنا کو اپنانے والے ہیں وہ یہ سوال کیوں نہ کریں؟ اور ان کے لئے قرآنی استشہادات اور ساتھ ساتھ ان کے اکابر کی تصریحات اور حدیث وتاریخ کے واقعات میں ان کے اس قسم کے بلکہ جملہ اعتراضات کے منہ توڑ جوابات موجود بھی ہیں اور علمائے مناظرہ سے وہ منہ کی کھاتے ہیں، نتیجۃ بعض کو ہدایت بھی ہو جاتی ہے۔
لیکن تعجب ہے ان شیعہ افراد پر جو اس قسم کے سوالات کے جوابات میں سیرت آل محمد کو ناکافی قرار دیتے ہیں، ان کے دل و دماغ پر بھی وہی دشمن کی زبان سے نکلا ہوا جملہ حاوی ہوتا ہے گو حسبُنا کہنے والوں سے بیزاری ہے لیکن عملاً خود اسی راہ پر گامزن ہیں اور پیچھے مڑ کر دیکھتے ہی نہیں، حالانکہ ان کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے اصول میں قرآن مجید و اہل بیت ہر دو کے ساتھ تمسک پکڑنے کا حکم ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ محمد و آل محمد علیہم السلام ہی قرآن کے حقیقی عالم اور مفسر ہیں اور ہمیں تسلی اور اطمینان ہے کہ قرآن ایک ایسا سر بستہ راز ہے جو بغیر معجزنما کی راہنمائی کے انحلال پذیر ہو ہی نہیں سکتا، خداوندکریم ایسے فریب خوردہ افراد کو چشم معرفت عطا فرمائے اور ہم سب کو قرآن و اہل بیت کے ساتھ قولی و فعلی تمسک کی توفیق مرحمت فرمائے (آمین)
آل محمد علیہم السلام سے دوری کے نتائج میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن مجید تسکین جذبات کا آلہ قرار دیا گیا ہے، تصدیق بیانات کے لئے سچے و جھوٹے معاملہ میں قرآن کو بطورِ گواہ ہے اور قرآن مجید کی قَسم تو بچوں کا ایک کھیل بن گیا ہے، مساجد میں تلاوت کرنے کے لئے اتنے قرآن خواں نہیں ملتے جتنے کچہریوں میں قَسم اٹھانے کے لئے حاملین قرآن دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ کسے کے سر پر، کسی کے ہاتھ پر، کسی کی بغل میں اور کسی کے سینے سے لگا ہوا ہے۔
پہلی دفعہ حضرت علی ؑ کے مقابلہ میں جنگ صفین میں قرآن کو انہی اغراض کے لئے پیش کیا گیا جیسا کہ کتاب تاریخ طبری ج ۴ اور الامامت و السیاست اور تاریخ الخلفأ وغیرہ میں امیر شام کی فوج کا قرآن کو بلند کرنا مذکوہ ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ وبا روئی کی آگ بن کر اطراف عالم میں پھیل گئی۔
نیز گداگری اور بھیک مانگنے کا ذریعہ بھی قرآن کو ٹھہرایا گیا باطہارت یا بے طہارت کا فرق نہیں، ڈیرہ اور مسجد کا امتیاز نہیں بلکہ صحیح یا غلط کی بھی پرواہ نہیں صرف پیسہ دو پیسہ پر نظر ہے اور طوفان ظلمت کے ہمہ گیر تلاطم کی حد ہو گئی کہ باجوں کی پلٹیوں میں قرآن… ریڈیائی اشاعت میں قرآن …احباب ہوٹلوں میں قہوہ خانوں میں بیٹھے ہیں تاش کھیلا جارہا ہے۔۔۔ نردوشطرنج وغیرہ کی محفل گرم ہے شراب و کباب میں انہماک ہے اور محبوب کے ساتھ بے تکلفانہ مکالمات جاری ہیں اور ادھر ساتھ ہی باجہ میں ریڈیو میں قرآن خوانی بھی شروع ہے، غضب یہ ہے کہ کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی اور ذرّہ بھر بھی پرواہ نہیں! خدا سب مومنین کو اس قسم کے جملہ روحانی دبائوں سے محفوظ رکھے( آمین)
نیز قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھنے کے متعلق قرآان کے ارشاد پاک کے ساتھ جو اہل بیت کی طرف سے فرمائشات صادر ہوئیں یکسر نظر انداز کر دی گئی ہیں!  خصوصاً  طبقہ حفّاظ میں تو اس چیز کا عموما ًخیال تک نہیں، قرآن کو انتہائی تیزی سے پڑھنا حافظ صاحب کا کمال سمجھا گیا ہے اور اسی تند خوانی کو قرآن مجید کی اہم خدمت تصور کر لیا گیا ہے حتی کہ تین یا چار گھنٹوں میں پورے قرآن کو ختم کر لینے والا بہت بڑا حافظ سمجھا جاتا ہے حالانکہ معصوم ؑ نے ایک پورے دن میں ختم قرآن کرنے کی بھی اجازت نہیں دی تھی، اسکے متعلق احادیث ترتیل کے بیان میں گذر چکی ہیں۔